شہد کی مکھیوں کے چھتے میں سب متحد ہو کر کام کرتے ہیں
محققین کا کہنا ہے کہ دیگر مخلوقات کے برعکس چیونٹیاں اور شہد کی مکھیاں اپنے کام مل جل کر نمٹاتی ہیں جبکہ زیادہ تر جانور اور حشرات خودغرضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف اپنی حفاظت کی خاطر ہی اکھٹی ہوتے ہیں۔
ایڈنبرا اور آکسفرڈ یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے شہد کی مکھیوں اور چیونٹیوں کےگروہی رویوں کا جائزہ لینے کے لیے ریاضی کے ماڈل استعمال کیے۔
محققین کا کہنا ہے کہ باہمی مدد کی وجہ سے ’سپر اورگینزم‘ کے نام سے پہچانے جانے والے جانوروں کا باہمی تعلق بہت گہرا ہوتا ہے اور وہ مل جل کر کام کرتے ہیں۔ دیگر گروپوں میں یہ جاندار نگرانی کا کام بھی سرانجام دیتے ہیں مثلاً شہد کی مکھیوں کے چھتے میں کارکن مکھیاں ان تمام انڈوں کو تلف کر دیتی ہیں جو ملکہ مکھی کے نہیں ہوتے تاکہ صرف ملکہ مکھی کی اولاد ہی زندہ بچ سکے۔
سائنسدانوں کے مطابق جنگلی بھینسے اور مچھلیاں صرف شکاریوں سے اپنی جان بچانے کے لیے بڑے گروہوں میں شامل ہوتے ہیں جبکہ اس کے برعکس چیونٹیاں اور شہد کی مکھیاں ایک اکائی کے طور پر کام کرتی ہیں اور اپنی کالونی کی بہتری کے لیے جان دینے کے لیے بھی تیار رہتی ہیں۔
’سپر اورگینزمز‘ کا باہ
یونیورسٹی آف ایڈنبرا کے ڈاکٹر اینڈی گارنر کے مطابق ’ ہم جنگلی بھینسوں یا مچھلیوں کو گروہوں کی صورت میں حرکت کرتا دیکھتے ہیں۔ تاہم مجموعی کوشش دکھانے دینے والی یہ حرکات دراصل شکاریوں سے بچنے کے لیے ان مخلوقات کی کوشش ہوتی ہے‘۔
ڈاکٹر گارنر کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’اس کے برعکس شہد کی مکھیوں کے چھتے یا چیونٹیوں کی کالونی میں سب متحد ہو کر کام کرتے ہیں۔ چھتے میں کارکن کمیونٹی کی مدد کر کے حتٰی کہ جان دے کر بھی خوش رہتے ہیں کیونکہ ملکہ مکھی ان کے جینز آگے لے کر چلتی ہے۔تاہم انہوں نے کہا کہ اس قسم کے’سپر اورگینزم‘ بہت نایاب ہیں اور یہ صرف اسی صورت میں پنپ سکتے ہیں جب کسی معاشرتی گروہ کے اندورنی اختلافات کو دبا دیا جائے۔ چنانچہ ہم اس اصطلاح کو انسانوں کے لیے استعمال نہیں کر سکتے‘۔
رائل سوسائٹی کی مدد سے کی جانے والی یہ تازہ تحقیق ارتقائی حیاتیات کے جریدے میں شائع ہوئی ہے۔ بشکریہ بی بی سی
ایک تحقیق کے مطابق
انسانی دماغ چیونٹیوں کی ”کالونی“ کی طرح کام کرتا ہے یہ بات ایک سٹڈی میں بتائی گئی ہے۔ چیونٹی اور مکھی جیسے کیڑے مکوڑے خطرہ محسوس کرکے فرار ہونے یاگھر بنانے کے لیے اجتماعی فیصلے کرتے ہیں۔ یونیورسٹی آف برسٹل کے مطابق دماغ میں موجود نیورونز اور گھروں میں رہنے والے چیونٹی اور مکھی جیسے حشرات الارض کو کوئی فیصلہ کرنے کے لیے ایک نقطہ پر مرکوز ہونا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ انفرادی طور پر متاثر کن صلاحیتوں کے حامل ہونے کے باوجود ان کے مل کر کام کرنے کا موازنہ کیڑے مکوڑوں کے انداز کار سے کیا جاسکتا ہے۔ ہر نیورون ایک سیل کی طرح کام کرتا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ یہ نظریہ دماغی انتشار کے علاج کے لیے اثر کا حامل ہوگا۔ ڈاکٹر جیمز مارشل اور ان کی ٹیم نے اس تعلق کا اندازہ ڈوگلس ہوفیٹٹر کی پلیزر پرائزوننگ بک گوڈل، ایشر باچ کی طرح لگایا تاہم نظریاتی طور پر پہلی دفعہ پیش کیا ہے۔ ان کی سٹڈی جرنل آف دی رائل سوسائٹی میں شائع ہوئی جس میں دونوں کے نظریاتی تعلق کو ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔