بھولا مکینک اور جدید ٹیکنالوجی
معمولات زندگی نے انسان کو انتہائی مصروف کر دیا ہے ، بعض اوقات ایسا لگتا ہے کہ جیسے ایک دوڑ سی لگی ہوئی ہے اور ہر کوئی ایک دوسرے کو پچھاڑتے ہوئے آگے نکلنے کی کوشش میں ہے مگر معلوم نہیں کس انجانی منزل تک پہنچنا ہے؟ قدرتی زندگی کی جگہ اب مصنوعی لائف سٹائل نے لے لی ہے ۔ کبھی کبھی گزرے شب و روز روشن چراغ کی مانند خوشبوؤں میں بسے لگتے ہیں جنکے پیش نظر ہم اپنی زندگی کی راہیں متعین کرتے ہیں۔
تقریباً بیس برس پہلے ،میرے طالب علمی کے دور کی بات ہے کہ، لاہور کے ایک پوشش علاقے میں مگر گندے نالے کے پاس بھولے کی آٹو ورکشاپ تھی ، یہاں ہر قسم کی موٹر بائیک کی رپیئرنگ کی سہولت موجود تھی ، البتہ اس چھوٹی سی دوکان میں بھولا بنفس نفیس ہر کام خود سر انجام دیتا نظر آتا تھا۔ اس سیدھے سادھے نوجوان کی اپنے کام میں مہارت اور گاہکوں سے خوش اخلاق رویہ ہر حال میں قابل ستائش تھا۔جب بھی اسکی دوکان پر جانے کا اتفاق ہوا ، بھولا خندہ پیشانی سے استقبال کرتا ، خیریت و احوال پو چھنے کے بعد موٹر بائیک کو کیک لگا کر سٹارٹ کر لیتا اور اسکا نقص جاننے کے بعد اسکے الفاظ ہوتے ” مسلہ ہی کوئی نہیں ” اور تندہی سے مگر چند ہی لمحوں میں اسے ٹھیک کرکے کہتا ، "لو جی !بھائی جان آپکی بائیک تیار ہے "، اسطرح سے اسکی مہارت اور لگن سے کام کرنا مجھے کسی اور طرف جانے کا سوچنے بھی نہ دیتا۔ جب کبھی کام پڑتا سیدھا اسی کی دوکان پر بے دھڑک پہنچ جاتا جبکہ بھولے کے تسلی والے الفاظ سے ہی آدھا مسلہ حل ہو جاتا اور باقی صرف چند لمحوں میں۔ بھولے کی گفتگو کبھی بھی کسی فضول موضوع یا شکایت کی طرف نہ بھٹکتی دیکھی اور نہ ہی کسی مقابلے کی ورکشاپ کا اس نے تذکرہ کیا صرف اپنے کام سے کام رکھنے کی اس کی عادت مجھے کافی متاثر کر گئی۔
میں اکثر سوچتا تھا کہ اس دنیا میں ایسے بھی سیدھے سادھے لوگ موجود ہیں، مگر یہ ترقی کیسے کریں گے؟ نہ تعلیم یافتہ اور نہ ہی سرمایہ دار، نہ کوئی سیاسی حیثیت اور نہ ہی کسی صاحب حیثیت کی یار ی۔ بہرحال اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ بھولا ایک محنتی اور کاریگر ہونے کے ساتھ ساتھ خوش اخلاق بھی تھا، اور جب بھی اس کی دوکان پر جاو تو وہ کسی نہ کسی طور جدت کا خواہاں ضرور نظر آتا تھا۔ کیونکہ ہر بار اس کی دوکان میں کچھ نہ کچھ اضافی چیز ضرور دیکھنے میں آتی جس کا وہ بڑے فخر سے تذکرہ کرتا کہ بھائی جان میں نے اپنی دوکان میں یہ اضافہ بھی کر لیا ہے اور اب جو پیسے بچیں گے میں فلاں چیز بھی لاؤں گا، یعنی اسکی ساری زندگی کا محور اپنا کام اور اس میں ترقی ، نمایاں طور نظر آتے تھے۔
کبھی کبھار جب اس کے ورکشاپ میں رکھے بینچ پر بیٹھنے کا موقع ملا تو وقت گزارنے کی خاطر اس گپ شپ کی کوشش کی کہ چلو کام کے ساتھ ساتھ یہ سلسلہ بھی چلتا رہے ، مگر اس شرمیلے نوجوان نے کبھی بھی لفظی گھوڑے دوڑانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ نہ لیا، حیرت یوں کہ ملکی و کاروباری سیاست تو دور کی بات اس نے کبھی کام سے ہٹ کر کسی دوسری گفتگو میں دلچسپی ظاہر نہیں کی۔البتہ کبھی کسی بات میں جوش و خروش دیکھا تو صرف اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے دیکھا کہ اسکا کام پہلے سے بہتر ہوتا جارہا ہے۔ اسکی کیفیت تو قطعی اسطرح سے نہ تھی کہ جیسے قیدی پرندے کیلئے باہر کے موسم ، یعنی بہار ہویا خزاں ہو، اسکو کیا غرض ؟ کیونکہ وہ کسی مجبوری کی قید کا بندھا ہوا نہ تھا بلکہ صرف کام سے کام رکھنے کا عادی تھا۔
اسی اثنا میں ایسا موقع بھی آیا کہ مجھے اپنی سواری بیچنی پڑ گئی لہذا اب بھولے کی ورکشاپ پر جانے کا کیا کام؟ ایک روز اسکی ورکشاپ کے سامنے سے گزر ہوا تو اس نے فورا راستہ روک کر خیرو عافیت پوچھی اور بولا آپکی سیو نٹی کہاں ہے ، میں نے ٹال دیا ، تو بھولا جھٹ بول پڑا کہ میرے پاس ایک عدد بائک موجود ہے جو کہ ،میں نے تیار کی ہے مگر ایک انویسٹر کا اس میں حصہ ہے اگر آپ چاہو تو آپ وہ قسطوں پر خرید سکتے ہیں۔ اور اسطرح اس نے مجھے پھر سواری کی سہولت سے ہمکنار کر دیا۔
وقت اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے ، سواریاں اور ورکشاپس بدلتی رہیں اور روابط بھی تبدیل ہوتے رہے۔ آج عرصہ دراز کے بعد جب لوڈ شیڈنگ سے نبرد آزما ہیں تو جنریٹر کا سہارا لئے سلسلہ چل رہا ہے کہ اچانک گھر کے جنریٹر میں کوئی نقص پیدا ہوا۔ علاقے میں کوئی خاص مکینک نظر نہ آیا تو سوچا بھولے کی ورکشاپ میں جا کر پتہ کروں کچھ تو رہنمائی مل سکتی ہے۔ مگر اسکی دوکان میں تو کوئی اور نظر آیا، پوچھنے پر معلوم ہوا کہ بھولا تو عرصہ دراز سے یہاں سے کسی نئی جگہ شفٹ ہر چکا ہے۔ اسکا نیا پتہ معلوم کرنے کے بعد احساس ہو کہ وہ تو ایک بڑی کشادہ مین سڑک کنارے منتقل ہو چکا ہے۔ بھولے کا نیا پتہ معلوم کرنے کے بعد میں جنریٹر لیکر اسکی ورکشاپ کی تلاش میں نکلا جو کہ کچھ زیادہ دور نہ تھی۔ کچھ ہی دیر میں اسکی ورکشاپ کے سامنے تھا، یہاں کا تو منظر ہی بہت مختلف نظر آیا، ورکشاپ کے باہر پندرہ سے بیس موٹر بائک موجود تھیں ، سات آٹھ مکینک کام کر رہے تھے ، جبکہ دوکان کے اندر بھولا صاحب ایک آرام دہ گھومنے والی نشست پر براجمان تھے اور دوکان سپیئر پارٹس سے بھری ہوئی تھی جبکہ دس کے قریب گاہک مختلف اشیاء خریدنے کیلئے کاونٹر پر کھڑے تھے۔ اس مجمع کو دیکھ کر مجھے بہت حیرت ہوئی اور خوشی بھی کہ بھولے نے تو خوب ترقی کی ہے ، میں دور ہی سڑک پر گاڑی پارک کرکے اسکی دوکان کے اندر کی طرف لپکا۔
مجھے دیکھتے ہی بھولے نے فورا پہچان لیا اور سب کام چھوڑ کر اپنی نشست خالی کر کے وہ بولا بھائی جان آپ یہاں بیٹھیں۔ میں نے کہا بہت شکریہ میں گاہکوں والی نشست پر ہی بیٹھ جاتا ہوں تو وہ بولا ” بھائی جان مجھے پتہ ہے کہ آپ نے گاڑی رکھ لی ہے اور مجھے بھول گئے مگر میں تو وہی بھولا ہوں "۔ میرے بیٹھتے ہی اس نے آو بھگت شروع کردی اور پھر آنے کا مدعا پوچھا، تو میں نے بتایا کہ پیٹرول والا جنریٹر خراب ہے اس لئے سوچا تم سے مدد لی جائے تاکہ کسی اچھے سے مکینک یا ورکشاپ کا بتا سکو۔ تو بھولا جھٹ سے بولا ” مسلہ ہی کوئی نہیں ” میں حیران ہو ا کہ وہ کیسے ، تو اس نے بتایا کہ اسکی ورکشاپ میں پر قسم کے جنریٹر بھی ریپیئر ہوتے ہیں۔ اب اس نے ایک شاگرد کو بجھوا کر جنریٹر منگوایا اور صرف پندرہ منٹ میں ٹھیک کرکے میرے سامنے رکھ دیا اور جب مزدوری پوچھی تو حیرانی ہوئی کیونکہ بہت مناسب چارجز مانگے جو کہ کسی بھی طرح سے کم از کم جنریٹر کے رپیرنگ ریٹ نہ لگتے تھے۔ میں نے حیرانگی ظاہر کی تو بھولے نے بتایا کہ وہ سب لوگوں سے اتنے ہی پیسے وصول کرتے ہیں۔
میں اسکی اس شاندار ترقی اور کامیابی کی اسکو مبارکباد دی کہ اس معاشرے میں جہاں کوئی بھی مددگار نہ ہو، نہ کوئی سیاسی حیثیت یا روابط ہوں اور نہ سرمایہ، مگر کاروباری وسعت اور شاندار روزگار واقعی تعریف کے قابل ہے۔ اس نے اپنا وزٹنگ کارڈ مجھے دیتے ہوئے بتایا کہ ورکشاپ والی جگہ وہ خرید چکا ہے اور اب اس کی شادی بھی ہو گئی ہے ، اللہ تعالیٰ کا بہت شکر ہے، البتہ اولاد نہیں ہے مگر اللہ کے گھر بہت امید ہے کی شنوائی ضرور ہوگی۔
بھولے کی زندگی تو واقعی نہ صرف قابل رشک معلوم ہوئی بلکہ قابل تقلید نمونہ بھی، نہ زیادہ تعلیم ، نہ سرمایہ اور نہ سیاسی حیثیت اور قرابت داری اور معاشرہ ایسا کہ کسی کوئی پھلتا پھولتا نہ دیکھ سکتا اور یہ شاندار ترقی اور کامیابی ایک مقام رکھتی ہے۔ کام سے کام رکھنا، دلجمی سے ایک ہی کام میں مستقل مزاجی، کسی بھی شارٹ کٹ سے بالاتر اپنے کام کی لگن اور جدت کو ملحوظ خاطر رکھنا قطعی جوانوں کا شیوا ء ہے جنکو اچھے برے حالات کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی فن آتا ہے۔زمانے کی تیزی ہو یا سست روی ، انکو اپنے مقصد سے ہٹا نہیں سکتی ، یہ معاشرے کے متحرک عضو کیطرح اپنی ذمہ داریوں کو نبھانا جانتے ہیں۔
جب بھی کبھی بھولے کی ورکشاپ کے سامنے سے گزر ہو تو اس کو دیکھتے ہیں ارادوں میں مضبوطی ،کام کی لگن اور مزید توانائی کا احسا س پیدا ہوتا ہے، جبکہ کامیابی کی راہ نظر آنے لگتی ہے اور اسکی سادگی پہ رشک آتا ہے کہ بہت سے چالاک جو اس کے دائیں بائیں ورکشاپس بنا کر مد مقابل تھے مگر بھولا تو کب کا ان سے بہت دور اور کامیابیوں کی منزلیں طے کرتا اپنے قدموں کے نشان چھوڑتا چلا جا رہا ہے۔
فیصلے تو آسمانوں میں ہوتے ہیں مگر زمیں والے بھی تو حرکت کریں اور کامیابی کی راہیں متعین کریں ، فقط سوچنے سے تو کچھ نہیں ہوتا جب تک کہ عملی زندگی میں قدم نہ رکھا جائے۔ حالات کی آنچ کیسی ہی کیوں نہ ہو، ارادے جن کے پختہ ہوں ان کی راہوں میں آنے والی رکاوٹیں خود بخود ہٹتی چلی جاتی ہیں۔سچائی ، دلجمی اور کام کی لگن ایسے حسین جذبے ہیں کہ جنکا مقابلہ کسی بھی طرح سے کوئی باطل نہیں کر سکتا۔بھولے کی زندگی میں کسی چیز کی کمی نہیں مگر اسکے گھر میں اولاد کی کمی کیلئے دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ اسکے کاروبار کیطرح گھر میں بھی رونق لگا دے۔آمین!!!
بقول میاں محمد بخشؒ صاحب
مالی دا کم پانی دینا ، بھر بھر مشکاں پاوے
مالک دا کم پھل پھول لانا، لاوے یا نہ لاوے
خیر اندیش!
محمد الطاف گوہر؛ لاہور