اسلام آباد (رپورٹ:رانا مسعود حسین) چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمرعطابندیال نے قراردیا ہے کہ سندھ ہائوس کا واقعہ آزادی رائے اور احتجاج کے حق کیخلاف تھا، تحریک عدم اعتماد کے حوالہ سے ہماری کوئی دلچسپی نہیں ہے، تمام جماعتیں آئین و قانون کے مطابق برتائو کریں، ارکان اسمبلی اور اداروں کو آئین کے مطابق تحفظ ملنا چاہیے/
پارلیمنٹ اور پارلیمنٹیرینز کا احترام کرتے ہیں، لیکن کسی فریق کو صورتحال خراب کرنے کیلئے عدالت کا پلیٹ فارم استعمال کرنے کی اجازت نہیں دینگے، اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کچھ حکومتی ارکان سندھ ہاؤس میں تھے جس نے سیاسی ماحول کو گرما دیا، عوام پر امن احتجاج کا حق رکھتے ہیں۔
عدالت نے آئی جی اسلام آباد پولیس سے سندھ ہاؤس پر ہونے والے حملے سے متعلق رپورٹ کل پیرتک طلب کرلی۔ عدالت نے ہدایت کی ہے کہ رپورٹ میں لکھا جائے کہ سندھ ہاؤس کو کتنا نقصان پہنچایا گیا اور کون لوگ وہاں موجود تھے اور اب تک ذمہ داروں کیخلاف کیا کارروائی کی گئی ہے۔
عدالت نے اٹارنی جنرل کو آئین کے آرٹیکل 63اے کی وضاحت سے متعلق صدارتی ریفرنس بھی آج بروز اتوار تک فائل کرنے کی ہدایت کی ہے تاکہ دونوں معاملات کویکجا کرکے انکی اکٹھی سماعت کی جاسکے۔
بعدازاں عدالت نے پی ٹی آئی اوروزیر اعظم کیخلاف عدم اعتماد پیش کرنے والی تمام سیاسی جماعتوں کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت کل 21مارچ تک ملتوی کردی ہے۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس منیب اختر پر مشتمل دو رکنی بینچ نے ہفتہ کے روز عدالتی بنچوں کی معمول کی چھٹی کے باوجود ملک کی سیاسی صورتحال اور سیاسی جماعتوں کے کارکنوں میں تصادم کے خدشات سے متعلق سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی آئینی درخواست کی غیر معمولی طور سماعت کی تو اٹارنی جنرل خالد جاوید خان پیش ہوئے ۔
فاضل چیف جسٹس نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے واضح کیا کہ عدالت نے اس حوالے سے ازخود نوٹس نہیں لیا ہے بلکہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے ایک آئینی درخواست دائر کی ہے اور آج ہم خصوصی طور پر اسکی سماعت کررہے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ میڈیا کی خبروں سے معلوم ہوا ہے کہ حکومت بھی آئین کے آرٹیکل 63اے کے حوالے سے سپریم کورٹ سے رائے لینا چاہتی ہے،ہم چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی اس درخواست کو بھی صدارتی ریفرنس کے ساتھ ہی سن لیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اٹارنی جنرل، صاحب سپریم کورٹ بار نے عدالت سے رجوع کیا ہے،پارلیمنٹیرین اور سپریم کورٹ بار کا بہت احترام ہے،بار ایسوسی ایشن چاہتی ہے کہ آئین و قانون پر عملدر آمد کیا جائے، درخواست گزار سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن ملک میں امن عامہ قائم رکھنا اور( عدم اعتماد سے متعلق ) آئین کے آرٹیکل 95 کی عملداری چاہتی ہے، ہمارے پاس پہلے ہی درخواست آچکی ہے۔
انہوں نے ان سے استفسار کیا کہ آپ ملک میں آزادی اظہار رائے اور احتجاج کے حق پر کیا کہیں گے؟ کل ہم نے میڈیا پر ایک ایسا واقعہ دیکھا ہے جو آزادی اظہار رائے اور احتجاج کے حق کیخلاف تھا۔
انہوں نے واضح کیا کہ ملک سیاسی طور پر جو کچھ بھی ہو رہا ہے ؟ عدالت کو اس سے کوئی مطلب نہیں ہے، ہم تو یہاں پر آئین کی عملداری کیلئے بیٹھے ہیں۔فاضل چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مزید استفسار کیا کہ کیا سرکاری املاک پر دھاوا بولنا بھی قابل ضمانت جرم ہے؟
انہوں نے کہاکہ سیاسی عمل آئین و قانون کے تحت ہونا چاہیے،پبلک پراپرٹی اور قومی اداروں کو دھمکیاں ملی ہیں ،اراکین پارلیمنٹ اور اداروں کو تحفظ آئین کے مطابق ملنا چاہیے۔جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت نے آرٹیکل 63 اے پرپیر کے روز تک صدرتی ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے کہاکہ وہ ان ناخوشگوار واقعات کا پس منظر بتانا چاہتے ، کچھ حکومتی ممبران قومی اسمبلی سندھ ہائوس میں بیٹھے تھے، جس نے سیاسی ماحول کو یکدم ہی گرما دیا، اچانک سیاسی درجہ حرارت بڑھا اور سندھ ہائو س پر حملے کا واقعہ رونما ہوا۔
انہوں نے واضح الفاظ میں عدالت کے سامنے تسلیم کیا کی عوام پر امن احتجاج کا حق تو رکھتے ہیں؟ لیکن تشدد کا بھی کوئی جواز نہیں ہے،نہ ہی کسی کے پاس قانون کی خلاف ورزی کا کوئی جوازہے۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ آئندہ آئین اور قانون پر سختی سے عمل ہوگا۔
انہوں نے بتایا کہ سندھ ہائوس کے سامنے پی ٹی آئی کے احتجاج کرنے ایک سو کے قریب کارکنوں کو پولیس نے منتشر کیا تھا ، اسکے بعدمزید 20 لوگ احتجاج کرنے آگئے جن میں سے 13 لوگوں کو سندھ ہائوس پر حملہ کرنے کی پاداش میں پولیس نے گرفتار کیا اور تھانہ سیکرٹریٹ میں انکے خلاف ایف آئی آر درج کرلی ہے ،بعد ازاں متعلقہ مجسٹریٹ نے انہیں ضمانت پر رہا کر دیاہے۔
فاضل چیف جسٹس نے انہیں کہا کہ آپ کل تک صدارتی ریفرنس بھی جمع کروا دیں تاکہ دونوں معاملات کی اکٹھی سماعت کی جاسکے ،جس پر فاضل اٹارنی جنرل نے صدارتی ریفرنس کی الگ سے سماعت کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ صدارتی ریفرنس کے معاملے کا سپریم کورٹ بار کی اس درخواست سے کوئی تعلق نہیں ہے،تاہم عدالت نے ان کی استدعا مسترد کردی اور جسٹس منیب اختر نے کہا کہ دونوں معاملات کاآپس میں گہرا تعلق ہے۔
انہوں نے کہاکہ سپریم کورٹ بار کی درخواست میں سپیکر قومی اسمبلی کی ذمہ داریوں کی بات کی گئی ہے،بعد ازاں عدالت نے قراردیاکہ اٹارنی جنرل نے ملک میں امن عامہ قائم رکھنے کی یقین دہانی کرائی ہے ،اور ان کا کہنا تھا کہ قانون کی خلاف ورزی کا کوئی جواز نہیںہے،تشدد کا بھی جواز نہیں ، تاہم ہر شہری کو پرامن انداز سے احتجاج کا حق حاصل ہے۔
فاضل عدالت نے پاکستان تحریک انصاف،مسلم لیگ ن،پیپلز پارٹی اور جمعیت علما اسلام (ف) بلوچستان نیشنل پارٹی اور اے این پی کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے اپنے اپنے وکلاء کے ذریعے عدالت کی معاونت کی ہدایت کی،اور قرار دیا کہ سپریم کورٹ کسی صورت بھی سیاسی عمل میں مداخلت نہیں کرے گی اور کیس کی سماعت کے دوران صرف آئینی وقانونی امور کو ہی دیکھا جائے گا۔
عدالت نے آئی جی پولیس ،اسلام آباد سے سندھ ہائوس پر پی ٹی آئی کے دو اراکین قومی اسمبلی کی معیت میں کئے جانے والے مجرمانہ حملے اور کار سرکار میں مداخلت سے متعلق درج ہونے والے مقدمہ سے متعلق تفصیلی رپورٹ طلب کرتے ہوئے قرار دیاکہ کیس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کی جائے گی۔
بشکریہ : جنگ، سوشل میڈیا