جمعیت علمائے اسلام ف کےسربراہ مولانا فضل الرحمان نے پہلی مرتبہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی تصدیق اور اس ’’خفیہ ملاقات‘‘ کے بارے میں کھل کر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ آرمی چیف اگر دوبارہ مجھے ملاقات کے لئے بلائیں گے تو میں ضرور جاؤں گا کیونکہ اب تو ان سے دوستی بھی ہو چکی ہے،آرمی چیف سے ہونے والی ملاقات پر رہبر کمیٹی اور اپوزیشن جماعتوں کو ابھی تک اعتماد میں نہیں لے سکا،حکومتی کمیٹی سے ابھی تو مذاکرات شروع ہی نہیں ہوئے تو ناکامی کیسی؟۔
تفصیلات کے مطابق سینئر صحافی مطیع اللہ جان کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے پہلی مرتبہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے اپنی ہونے والی ملاقات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ میں کینفیڈنیشل امور پر گفتگو نہیں کرنا چاہتا ،خفیہ ملاقاتیں میری نہیں اُن کی ضرورت ہو سکتی ہے،میری آرمی چیف سے اس ملین مارچ سے پہلےملاقات ہوئی جو بہت اچھی تھی اور اس ملاقات میں بہت اچھی باتیں ہوئی تھیں،اگر مجھ سے ملاقات اُن کی ضرورت ہے اور وہ میری بات کو سمجھنا چاہتے ہیں تو میں کبھی بھی اپنی بات سمجھانے میں کمی محسوس نہیں کرتا ،جو چیزیں کنفیڈنشل ہوتی ہیں انہیں کنفیڈنشنل ہی رہنا چاہئے اُنہیں متنازعہ نہیں بنانا چاہئے ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آرمی چیف کی ایکسٹینشن ہمارا موضوع نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ہم نے موقف دیا ہے، ہمارے مطالبات سیاسی ہیں اور سیاسی محاذ پر ہی فوکس کرنا چاہتے ہیں،میں فوج کی قیادت کو متنازعہ نہیں بنانا چاہتا ،میں اس موضوع سے بہت دور رہا ہوں ،میں سیاسی میدان کا آدمی ہوں اور ایسے موضوعات پر گفتگو نہیں کرنا چاہتا ۔
ایک اورسوال کے جواب میں اُنہوں نے کہا کہ کسی کے حلف کا ذمہ دار میں نہیں وہ خود ہوتے ہیں، میں صرف اپنے حلف کا ذمہ دار ہوں ،میں نے کبھی کوئی ایسا حلف نہیں اٹھایا کہ میں کسی ادارے کے کسی فرد سے کبھی نہیں ملوں گا ،میں سیاسی آدمی ہوں میں فوج پر بھی بات کروں گا ،میں بیورو کریسی پر بھی بات کروں گا ،معیشت پر بھی بات کر سکتا ہوں اور ملک کے ہر مسئلے پر بات کر سکتا ہوں لیکن کسی نے اگر اپنے ادارے کے مخصوص فرائض اور ذمہ داریوں کے بارے میں حلف اٹھایا ہے تو وہ خود اس حلف کا ذمہ دار ہے میں نہیں،آرمی چیف کی تبدیلی میرا یا وزیر اعظم کا نہیں فوج کا اپنا مسئلہ ہے۔انہوں نے کہا کہ میرا اصولی موقف یہ ہے کہ فوج کو کسی بھی سیاسی مسئلے میں بیان نہیں دینا چاہئے،فوج کا اپنا ایک آئینی دائرہ کار ہے اسے اس میں ہی رہنا چاہئے تاہم پاکستان کا نظام آئیڈیل نہیں ہےلیکن اگر ملکی نظام آئیڈل ازم کی طرف جاتا ہے تو ہم خیر مقدم کریں گے، اگر آرمی چیف مجھے دوبارہ ملاقات کے لئے بلائیں گے تو میں ضرور جاؤں گا ،اب تو ان سے ملاقات کے بعد دوستی بھی بن گئی ہے ۔انہوں نے کہا کہ اب تک میں آرمی چیف سے ہونے والی ملاقات پر رہبر کمیٹی یا دیگر اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد میں نہیں لے سکا لیکن کوئی ایسی بات جو رہبر کمیٹی اصولا طے کرتی ہو اس سے ایک انچ ہم آگے پیچھے نہیں ہوتے۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ہم جو مطالبات لے کر آئے ہیں وہ صرف ہمارے نہیں تمام اپوزیشن جماعتوں کے ہیں اور رہبر کمیٹی نے اُس کی توثیق کی ہے، حکومت کی طرف سے جو مذاکراتی کمیٹی آئی تھی اس کے سامنے ہم نے یہ تمام مطالبات رکھے ہیں،ہمیں بڑا تعجب ہے کہ حکومتی کمیٹی نے ہمارے ہمارے چار نکات میں سے جو پہلا نکتہ استعفیٰ کا تھا وہ اپنی قیادت کے سامنے رکھا ہی نہیں،یہی وجہ ہے کہ اُنہیں ہماری بات سمجھنے میں بھی دقت ہو رہی ہےاور پھر ہماری پوری بات پہنچانے کی بھی جرأت نہیں ہو رہی۔انہوں نے کہا کہ مذاکرات تو ابھی شروع ہی نہیں ہوئے،ناکامی تو پھر بعد میں ہو گی،وزیر اعظم ماضی میں خود کہہ چکے ہیں کہ اگر پندرہ ہزار لوگ میدان میں آکر ’’گو عمران گو‘‘ کہہ دیں تو میں چلا جاؤں گا ،تو اب یہاں پر تو لاکھوں لوگ جمع ہیں جو ’’گو عمران گو ‘‘ کہہ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ 26 جولائی 2018 سے تمام پارٹیوں کا موقف ہے کہ الیکشن میں بدترین دھاندلی ہوئی ہے،اتنی دھاندلی کہ اس سے مینڈیٹ تبدیل کر دیا گیا،انہوں نے کہا کہ اسمبلیوں سے مستعفیٰ ہونا آئیڈیل قسم کی بات ہے ،ہم نے ابتدا میں اسمبلیوں سے مستعفیٰ ہونے کی تجویز دی تھی لیکن سب کا خیال تھا کہ ہمیں اسمبلیوں میں جانا چاہئے، ہم نے 15 ملین مارچ کئے اور قوم کو بیدار کیا ،آج تمام جماعتوں کی نمائندگی روز کینٹینر پر موجود ہوتی ہے۔
ایک اور سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ اگر ہمارے آزادی مارچ سے ہمارے حلیفوں کو فائدہ ملتا ہےتو میں اس پر خوش ہوں،ہر چیز کے جزوی فوائد ہوتے ہیں،پہلی مرتبہ متھ توڑی گئی ہے کہ تحریک انصاف حکومت کی اپوزیشن نہیں ہو رہی ،عوامی سطح پر رائے قائم کرنا اور عوام کو اکٹھا کرنا بڑا اہم ہوتا ہے جو ہم نے کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ نواز شریف لندن میں پکنک منانے تو نہیں جا رہے،میاں صاحب کی صحت کا معاملہ یہاں کے ڈاکٹرز نہیں سنبھال پا رہے ،ظاہر ہے ان حالات میں ہم اگر یہ کہیں کہ وہ میرے سٹیج کی زینیت بخشیں تو یہ مناسب باتیں نہیں ہیں تاہم مریم نواز کو ہم ہزار بار آزادی مارچ میں خوش آمدید کہیں گے اور ہماری خواہش بھی ہے کہ مریم نواز آزادی مارچ کے سٹیج پر آئیں۔