حکومت نے جمعیت علمائے اسلام (ف) سے مذاکرات میں ناکامی کی صورت میں مولانا فضل الرحمان کو نظر بند کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
روزنامہ جنگ کے مطابق اعلیٰ سطح اجلاس میں حکومت نے وفاقی دارالحکومت میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کا دھرنا روکنے کا فیصلہ کیا ہے اگرچہ انہیں جے یو آئی ف کی اعلیٰ قیادت بشمول اس کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو نظر بند ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔وزارت داخلہ میں موجود اعلیٰ ذرائع نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مولانا فضل الرحمان کو 31 اکتوبر کے منصوبہ بند دھرنے سے قبل نظربند کیا جاسکتا ہے۔ذرائع کے مطابق فضل الرحمان کو اکتوبر کے آخری 4 روز ترجیحاً 26 اکتوبر کو گرفتار کیا جاسکتا ہے کیونکہ 25 اکتوبر کو جمعہ ہوگا اور حکومت جمعتہ المبارک سے قبل مولانا کو گرفتار کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتی کیونکہ اگر انہیں جمعہ سے پہلے نظربند کیا گیا تو جے یو آئی ف مساجد کی طاقت استعمال کرسکتی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ جے یو آئی ف کے کم و بیش 8 اعلیٰ رہنماؤں کو 16 ایم پی او کے تحت 30 تا 90 روز کیلئے نظربند کیا جاسکتا ہے جبکہ جماعت کے سرگرم کارکنوں کو وزارت داخلہ کی ہدایت پر صوبائی اور وفاقی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے تیار کی گئی فہرستوں کے مطابق گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ ذرائع نے دی نیوز کو بتایا کہ انصار الاسلام پر پابندی کی سمری حتمی منظوری کیلئے وزیر اعظم کو بھجوا دی گئی ہےاور ممکنہ طور پر 26 اکتوبر کو انصار الاسلام پر پابندی لگادی جائے گی۔
رپورٹ کے مطابق ذرائع کا کہنا تھا کہ اگرچہ ایک ایسے وقت میں یہ کریک ڈاؤن جے یو آئی ف کے خلاف کثیر جہتی ہوگا جب جے یو آئی ف کی اعلیٰ قیادت نے اپنے منصوبہ بند مارچ اور دھرنا پر آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا ہے، حکومت کے پاس امن برقرار رکھنے کیلئے سوائے تمام وسائل، اختیارات اور آپشنز استعمال کرنے کے کوئی اور آپشن نہیں رہ جاتا۔ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ جے یو آئی ف کی قیادت اور سرگرم کارکنوں کے حراستی کریک ڈاؤن کے دوران حکمت عملی کے تحت مخصوص علاقوں خصوصاً خیبر پختوانخوا اور جزوی طور پنجاب میں موبائل فون سروس معطل کردی جائے گی جبکہ وفاقی دارالحکومت میں فون سروس 30 اکتوبر کی نصف شب کے بعد معطل کی جائے گی جو 31 اکتوبر کو رات گئے بحال کی جائے گی۔ تاہم انتظامیہ صورتحال کے مطابق اس کا فیصلہ کرے گی۔