دو ماہ سے زائد عرصے تک چھ سو میٹر سے زیادہ گہرائی میں پھنسے ہوئے کان کنوں کو بحفاظت باہر نکالنے کی کارروائی اِنہی لمحات میں اپنے اختتام کو پہنچ گئی ہے۔ دریں اثناء تمام 33 کان کنوں کو باہر نکال لیا گیا ہے۔ آخری کان کن کے طور پر لوئیس اُرزُوآ کو باہر لایا گیا، جو سونے اور تانبے کی حادثے کا شکار ہونے والی اِس کان میں شفٹ انچارج تھا۔ اسی نے پورے گروپ کو متحد رکھنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ پوری دُنیا کے صحافیوں نے اِس کارروائی کو رپورٹ کیا۔ چلی کے ذرائع ابلاغ کا اندازہ ہے کہ پوری دُنیا میں ایک ارب سے زیادہ انسانوں نے لمحہ بہ لمحہ اِس براہِ راست کارروائی کو دیکھا۔
چلی کے کان کن: ریسکیو آپریشن مکمل ہو گیا
چلی میں سونے اور تانبے کی ایک کان میں دو ماہ سے زائد عرصے سے پھنسے تمام کان کنوں کو باہر نکال لیا گیا ہے۔ حتمی آپریشن تقریباﹰ 24 گھنٹے تک جاری رہا۔
چلی کے کان کنی کے وزیر لارنس گولبورن کا کہنا ہے کہ آپریشن توقع سے زیادہ تیزی سے مکمل ہوا۔ کان کنوں کو خصوصی طور پر ڈیزائن کئے گئے کیپسول کے ذریعے ایک ایک کر کے سطح زمین پر لایا گیا، جہاں ان کے عزیز و اقارب ان کے استقبال کے لئے موجود تھے۔
سطح زمین پر جمع کان کنوں کے رشتہ داروں کا جوش و جذبہ قابل دید تھا۔ چلی سمیت دُنیا بھر کے صحافی بھی ان کان کنوں کو باہر لائے جانے کا منظر دیکھنے کے لئے وہاں جمع تھے۔ کان کے گرد سکیورٹی کے بھی سخت انتظامات کئے گئے تھے۔
یہ کان کن سان خوسے میں پانچ اگست سے سونے اور تانبے کی ایک کان میں سطح زمین سے دوہزار فٹ نیچے پھنسے ہوئے تھے۔ انہیں باہر نکالنے کی کوششیں تب سے ہی جاری تھیں اور اس حوالے سے اہم پیش رفت گزشتہ ہفتہ کو ہوئی، جس دوران زمین میں خاص طور پر کھودا گیا ایک سوراخ ان کان کنوں تک پہنچ گیا تھا۔
کان کنوں کو اوپر کھینچنے سے پہلے اُنہیں خلا بازوں کے لئے بنایا گیا ’بایو ہارنس‘ پہنایا گیا، جس سے اُن کے دل کی دھڑکن، سانس کی رفتار، جسم کے درجہء حرارت اور جسم میں آکسیجن کی مقدار کا جائزہ لیا جاتا رہا۔
کان کنوں کو سطح زمین پر لانے کے بعد انہیں فوری طبی معائنے کے لئے لے جایا جاتا رہا۔ حکام کا کہنا ہے کہ بعض کو ہنگامی ڈینٹل سرجری کی ضرورت ہے۔ وہ 69 دن تک زیر زمین رہے، جہاں درجہء حرارت 30 ڈگری سینٹی گریڈ اور نمی کا تناسب 85 فیصد تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جلد اور سانس کے ممکنہ امراض کے خدشے کے تحت بھی ان کا طبی معائنہ کیا جا رہا ہے۔ ان میں سے ایک کان کن کو نمونیہ کے مرض میں مبتلا بتایا گیا ہے، تاہم اُس کا نام ظاہر نہیں کیا گیا۔
ان کان کنوں کو بعد ازاں ہیلی کاپٹر کے ذریعے قریبی شہر Copiapo کے ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔
حتمی ریسکیو آپریشن منگل اور بدھ کی درمیانی شب عالمی وقت کے مطابق سوا دو بجے شروع ہوا، جو بدھ کو رات گئے اختتام کو پہنچ گیا۔ اس آپریشن کے دوران چلی کے صدر سیباستیان پنیرا، خاتون اوّل سسیلیا موریل اور وزیر برائے کان کنی لارنس گولبورن وہاں موجود رہے۔ پہلے کان کن کے بحفاظت سطح زمین پر پہنچنے پر صدر پنیرا نے اپنے خطاب میں ریسکیو آپریشن میں شامل تمام افراد کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ جذبات کی رات ہے۔
صدر پنیرا نے رواں برس فروری میں چلی میں آنے والے زلزلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کان کنوں نے ثابت کر دیا ہے کہ جب چلی کے عوام متحد ہوں، تو وہ عظیم کام سرانجام دے سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا، ’اس ملک نے اپنی اصل روح دکھائی ہے، دکھا دیا ہے کہ یہ کس قابل ہے، جب بھی کوئی آفت ٹوٹے‘۔
بشکریہ ڈی ڈبلیوڈی