اسلام آباد . . . سپریم کورٹ نے اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی16 مارچ2008 کو بحالی کاانتظامی حکم کو واپس نہ لینے کا حکم دیتے ہوئے صدر مملکت اوروزیراعظم سمیت تمام ریاستی اور انتظامی اداروں کو ججز کو آئین میں موجود طریقہ کے بغیر ہٹانے سے روک دیا ہے ، عدالت نے قرار دیا ہے کہ انتظامی حکم واپس لے کر ججز ہٹانے کا اقدام ماورائے آئین ہوگا۔چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سترہ رکنی بنچ نے ججز ہٹانے کی خبریں نشر ہونے کے مقدمہ کی سماعت کی۔اٹارنی جنرل مولوی انوارالحق نے عدالت کو بتایاکہ وزیراعظم نے اس تاثر کی تردید کردی تھی کہ ججوں کی بحالی کا نوٹیفکیشن واپس لے لیاگیاہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ صرف میڈیا کو موردالزام ٹھہرانا درست نہیں، جب بھی کوئی بڑا اوراہم کیس زیر سماعت ہوتا ہے تو ایسی افواہیں آتی ہیں۔ عدالت نے اٹارنی جنرل سے اس بارے میں وفاق کا تحریری وضاحتی موقف طلب کرتے ہوئے سماعت میں وقفہ کردیا اور یہ بھی کہاہے کہ ججوں کے نوٹیفکیشن پر وزیراعظم کے دستخط سے یہ بیان جمع کرایا جائے۔ایک موقع پرچیف جسٹس نے ریمارکس میں کہاکہ عدلیہ کو گالیاں دی جارہی ہیں لیکن وہ ضبط و تحمل کا مظاہرہ کررہے ہیں، عدالت کے ساتھ ٹکراؤ کی کوشش کیوں کی جارہی ہے، جسٹس جاوید اقبال نے ریمارکس دیئے کہ اربوں ، کھربوں کی کرپشن ہورہی ہے وہ خاموش نہیں بیٹھ سکتے ۔مہلت کے وقفہ کے بعد اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کوبتایاکہ وزیراعظم بہت مصروف ہیں، انہیں پرنسپل سیکرٹری کی ذریعے پیغام بھیجا گیا ہے ، وزیراعظم کے دستخط والابیان جمع کرانے میں مزیدمہلت دی جائے۔بعدمیں عدالت نے ایک تحریری حکم جاری کیا، جس میں کہاگیاکہ ملک کے آئینی سربراہ کی طرف سے پہلو تہی اور ہچکچاہٹ برتی جارہی ہے۔حکم کے مطابق3 نومبر2007 کو ججز ہٹانے کا اقدام ماورائے آئین تھا ، جبکہ اس کے بعد16 مارچ2008کو ججز بحالی کا انتظامی حکم اپنی افادیت اور قدر کھوچکا ہے ۔ اگر اس انتظامی حکم کو بحال کیا گیا تو یہ آئین سے بغاوت کے آرٹیکل کی خلاف ورزی ہوگی۔ عدالت نے حکومت کویہ حکم بھی دیاہے کہ اس کاپتہ چلایاجائے کہ ججزکو ہٹانے کی خبریں کس نے پھیلائیں ، بعد میں مقدمہ کی سماعت18 اکتوبر تک ملتوی کردی گئی۔
بشکریہ جنگ