ایران نے اس بات کو مسترد کر دیا ہے کہ وہ اپنے میزائل پروگرام پر امریکہ سے بات چیت کرنے کا خواہاں ہے۔
اقوام متحدہ میں ایران کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ میزائل پروگرام ‘کسی بھی شرط پر، کسی قسم کی سودے بازی نہیں ہو گی۔’
یہ تردید ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کے اس انٹرویو کے بعد آئی ہے جس میں انھوں نے یہ عندیہ دیا تھا کہ اگر پابندیاں ہٹا لی جاتی ہیں تو میزائل پروگرام پر بات چیت ہو سکتی ہے۔
یہ پابندیاں امریکہ کی جانب سے گذشتہ سال یکطرفہ طور پر سنہ 2015 کے جوہری معاہدے سے نکلنے کے بعد عائد کی گئی تھیں۔
اس کے جواب میں ایران نے جولائی میں اعلان کیا کہ اس نے معاہدے میں طے شدہ حد سے زیادہ یورینیم افزودہ کر لی ہے تاہم ایران کا کہنا ہے کہ وہ جوہری ہتھیار نہیں بنا رہا ہے۔
ایران نے کیا کہا؟
پیر کو ایک ٹی وی انٹرویو میں جواد ظریف نے این بی سی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک بار امریکہ پابندیاں ہٹا لے تو پھر ‘بات چیت کے دروازے کشادہ طور پر کھلے ہوئے ہیں۔’
جب ان سے دریافت کیا گیا کہ آیا ایران اپنے میزائل پروگرام کے بارے میں بھی بات کرنے کے لیے تیار ہے تو ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ اگر امریکہ میزائل پروگرام پر بات کرنا چاہتا ہے تو ‘اسے پہلے ہمارے خطے میں میزائلوں سمیت تمام طرح کے ہتھیاروں کی فروخت کرنا بند کرنا پڑے گی۔’
خیال رہے کہ سنہ 2015 کے معاہدے میں میزائل پروگرام کا ذکر نہیں ہے۔
لیکن اقوام متحدہ میں ایران کے ترجمان علی رضا میر یوسفی نے کہا کہ ایران اپنے وزیر خارجہ کے انٹرویو کو جس ھریقے سے پیش کیا گیا ہے اسے پوری طرح سے مسترد کرتا ہے۔ انھوں نے جواد ظریف کے الفاظ کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے پر امریکی میڈیا کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
انھوں نے ٹویٹ کیا کہ ‘جو کہا گیا جب وہ اپنے سیاق و سباق میں واضح ہے تو پھر شہ سرخی کی چاہ میں غلط نتائج اخذ کرنا صرف عوام میں صحافت کے وقار کو کم کرتا ہے۔’
خیال رہے کہ منگل کو امریکی کابینہ کے اجلاس میں بھی امریکہ کے وزیر خارجہ مائک پومپیو نے کہا ایران نے ‘پہلی بار’ اپنے اسلحے کے بارے میں بات کرنے پر رضامندی دکھائی ہے۔ پہلے اس کا سخت موقف تھا کہ کسی بھی صورت میں اس کی گنجائش نہیں۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ نے ایران کے ساتھ ‘بہت پیشرفت’ کی ہے اور وہ ‘وہاں اقتدار میں تبدیلی نہیں چاہتے۔’ تاہم انھوں نے زور دے کر کہا کہ ایران جوہری ہتھیار نہیں بنا سکتا اور ‘بیلسٹک میزائل کا تجربہ نہیں کر سکتا۔’
دریں اثنا صدر کے نامزد وزیر دفاع مارک ایسپر نے منگل کو سینیٹ کی آرمد سروسز کمیٹی کو بتایا کہ امریکہ ایران کے ساتھ جنگ نہیں چاہتا اور ‘سفارتی راستوں پر واپس جانے’ کی ضرورت ہے۔
کیا جوہری معاہدہ ابھی بھی نافذ ہے؟
صدر ٹرمپ نے مئی 2018 میں امریکہ کو معاہدے سے علیحدہ کر لیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے جوہری پروگرام پر قابو کرنے میں زیادہ مدد نہیں ملی اور کہا کہ وہ اسے دوسرے معاہدے کے ساتھ بدلنا چاہتے ہیں جس سے ایران کے میزائل پروگرام پر بھی حد قائم ہوگی۔
ایران نے کسی بھی تبدیلی پر بات سے انکار کیا ہے اور دھمکی دی ہے کہ اگر یورپ امریکی پابندیوں کے اثرات کو کم کرنے میں مدد نہیں کرتا تو وہ معاہدے کی مزید شرائط کو توڑیں گے۔
یورپی یونین کے وزائے خارجہ نے پیر کو ایران پر زور دیا کہ وہ معاہدے کی پوری پاسداری کرے۔ ساتھ میں یہ بھی کہا کہ حال میں جو شرائط کی پامالی ہوئی ہے وہ بہت اہم نہیں ہے اور اسے ‘واپس’ کیا جا سکتا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو نے یورپ کے رد عمل کو یہ کہتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ انھیں اس وقت وقت تک خطرہ سمجھ میں نہیں آئے گا ‘جب تک کہ ایرانی میزائل یورپی سرزمین پر نہیں گرتا۔’
خلیج کی کشیدگی کا کیا؟
امریکہ نے خلیج میں کشیدگی میں اضافے اور علاقے میں مئی اور جون کے مہینوں میں تیل کے چھ ٹینکروں پر حملے کے دوران جنگی جہاز روانہ کیا ہے۔
ایران نے امریکی الزامات کو مسترد کر دیا ہے کہ وہ ان حملوں کے پس پشت تھا۔
دوسری جانب جبرالٹر میں ایک ایرانی ٹینکر کو شام کو تیل پہنچانے کے شبے میں روکنے کے بعد برطانیہ نے بھی اس علاقے میں جنگی جہاز روانہ کیا ہے۔
ایران نے انکار کیا ہے کہ ان کا جہاز شام جا رہا تھا اور دھمکی دی ہے کہ اس کے بدلے میں وہ برطانیہ کے ٹینکر کو پکڑ لیں گے۔
دریں اثنا منگل کو امریکی محکمۂ دفاع کے ایک اہلکار نے کہا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے ‘ریاہ’ نامی ایک چھوٹے تیل بردار جہاز کو ایران کے پاسداران انقلاب نے پکڑ لیا ہے۔ خلیج سے گزرنے کے دوران کئی روز سے اس جہاز سے سگنلز نہیں مل رہے ہیں۔
نیم سرکاری ایرانی خبررساں ایجنسی اسنا نے خبر دی ہے کہ ‘امداد کے لیے پکارے جانے’ پر ایران کی فوج ٹینکر کی مدد کو پہنچی ہے۔