سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک مبینہ ویڈیو کے معاملے میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو 3 ہفتوں میں تحقیقات مکمل کرنے کا حکم دے دیا۔
عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو سے متعلق کیس کی سماعت کی، اس دوران عدالت کے طلب کرنے پر اٹارنی جنرل انور منصور پیش ہوئے۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ گزشتہ سماعت پر آپ موجود نہیں تھے، ہم نے درخواست گزار وکلا کے دلائل سنے، جس میں وکلا نے جوڈیشل کمیشن بنانے کی تجاویز دیں۔
اس دوران وفاقی حکومت کی طرف سے ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل کی تحقیقات سے متعلق دائر درخواستوں کی مخالفت کی گئی اور اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ایسے معاملات کے لیے علیحدہ فورم موجود ہے، جوڈیشل کمیشن بنانے کی ضرورت نہیں۔
ساتھ ہی اٹارنی جنرل کے عدالت کو بتایا کہ پیمرا قانون کا اطلاق ٹی وی چینل پر ہوتا ہے، اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ عدات نے تمام الزامات کی سچائی کا جائزہ لینا ہے، ہم نے عدالت کے تقدس کو برقرار رکھتے ہوئے کام کرنا ہے، سپریم کورٹ دونوں فریقین کے الزامات کی حقیقت جاننا چاہتی ہے۔
اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ درخواستوں میں جج ارشد ملک کے خلاف کارروائی کی بھی استدعا کی گئی جبکہ جج ارشد ملک بیان حلفی بھی جمع کروا چکے ہیں، اس کے علاوہ وہ ایف آئی اے کو شکایت بھی درج کراو چکے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جج ارشد ملک کی شکایت پر ایف آئی اے سائبر کرائم کے تحت مقدمہ درج ہوچکا ہے، سائبر کرائم کی سزا 3 سال قید اور 10 لاکھ روپے جُرمانہ ہے جبکہ فحش وڈیو یا تصویر بنانے کی سزا 5 سال قید اور 6 لاکھ روپے جُرمانہ ہے۔
سماعت کے دوران انہوں نے مزید بتایا کہ کسی کو نقصان پہنچانے کے لیے وڈیو یا تصویر بنا کر پھیلانے کی سزا 3 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ ہے جبکہ الیکٹرانک جعل سازی پر 3 سال قید اور ڈھائی لاکھ روپے جُرمانہ ہے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا ایف آئی اے نے ملزم طارق محمود کو اس کیس میں گرفتار کیا ہے اور ریمانڈ لے کر انہیں جیل بھیج دیا گیا ہے، میاں طارق محمود کے مطابق انہیں جو چیک دیا گیا جو کیش نہیں ہوا جبکہ میاں سلیم رضا نامی شخص کو طارق محمود نے وڈیو فروخت کی۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اس معاملے کی تحقیقات جاری ہیں اور ایف آئی اے ملزمان تک پہنچ رہی ہے، اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال کیا کہ اس معاملے میں کتنی ویڈیوز حاصل کی گئیں، جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ایک ویڈیو کی نقل یو ایس بی میں حاصل کی گئی، اس وڈیو میں کیا ہے ہم نہیں جانتے، پاکستان میں کوئی لیبارٹری مستند فرانزک نہیں کر سکتی۔
اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جو ویڈیو حاصل کی گئی وہ نقل ہے اصل نہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جی جو وڈیو برآمد ہوئی وہ اصل کی نقل ہے، سال 2000 سے 2003 کے دوران یہ وڈیو بنائی گئی۔
اٹارنی جنرل کے جواب پر چیف جسٹس نے کہا کہ جج نے ایسی حرکت کی تب ہی وڈیو بنائی گئی، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ بطور جج ارشد ملک کو ایسی حرکت نہیں کرنی چاہیے تھی، انہوں نے مریم نواز کی جانب سے جاری وڈیو کے کچھ حصوں کی تردید بھی کی ہے، جج کے مطابق نواز شریف سے ملاقات اپریل میں ہوئی۔
اس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ نواز شریف نے اپیل کب دائر کی تھی، جس پر انہیں بتایا گیا کہ نواز شریف کی اپیل بروقت دائر ہوئی تھی، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اپیل اپریل میں دائر ہوئی تو جج نے اپریل میں اس کا جائزہ کیسے لیا۔
چیف جسٹس کے ریمارکس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آڈیو، وڈیو ریکارڈنگ الگ الگ کی گئی، اس پر پھر استفسار کیا گیا کہ پریس کانفرنس میں پیش کی جانے والی وڈیو جعلی تھی؟ آڈیو وڈیو کو مکس کرنے کا مطلب ہے اصل مواد نہیں دکھایا گیا، اگر جج صاحب کہتے ہیں وڈیو نہیں تو اصل وڈیو برآمد ہونی چاہیے، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اصل وڈیو برآمد کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت خود بھی چاہے تو کمیشن بنا سکتی ہے، آج میں حکومت کی نمائندگی نہیں بلکہ عدالت کی معاونت کر رہا ہوں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے پہلا آپشن ایف آئی اے ، دوسرا نیب، تیسرا تعزیرات پاکستان، چوتھا پیمرا، پانچواں حکومتی کمیشن اور چھٹا جوڈیشل کمیشن کا دیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک آپشن یہ بھی ہے کہ تمام درخواستیں خارج کردیں یا پھر آخری آپشن یہ ہے کہ عدالت اس کی تحقیقات کروائے۔
ساتھ ہی چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پورے معاملے پر توہین عدالت کی کارروائی بھی تو کی جاسکتی ہے، چیئرمین نیب بھی یہ کارروائی کرسکتے ہیں۔
اپنے ریمارکس میں چیف جسٹس نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن صرف رائے دے سکتا ہے فیصلہ نہیں دے سکتا، نواز شریف کو ریلیف ہائی کورٹ ہی دے سکتی ہے، جج نے ایک کیس میں سزا دی دوسرے میں بری کیا، ہائی کورٹ از سر نو ٹرائل کے لیے کیس بھیج سکتی ہے، ہائی کورٹ شواہد کا جائزہ لے کر خود بھی فیصلہ کر سکتی ہے۔
دوران سماعت جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ دیکھنا ہوگا کہ جج کی تضحیک ہوئی یا الزام سچ تھا، ویڈیو اسکینڈل کی تحقیقات ضرور ہونی چاہیے، جس پر ساتھ ہی جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ تمام کارروائی متعلقہ فورم پر ہونی چاہیے۔
اس دوران چیف جسٹس نے کہا کہ کیا سپریم کورٹ کو معاملے میں مداخلت کرنی چاہیے، کیا اس سے فائدہ ہوگا یا صرف خبریں بنیں گی؟ کیونکہ ہائی کورٹ میں ابھی تک کسی فریق نے درخواست نہیں دی۔
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ ہم مختلف آپشنز پر غور کر رہے ہیں، ہم تحقیقاتی رپورٹ دیکھ کر فیصلہ کریں گے، ہم اندھیرے میں چھلانگ نہیں لگائیں گے، کچھ لوگ تو چاہتے ہوں گے کہ ہم اندھیرے میں چھلانگ لگا دیں۔
مزید پڑھیں: پیپلز پارٹی کا سپریم کورٹ سے جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو پر نوٹس کا مطالبہ
چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا جج کا سزا دینے کے بعد مجرم کے گھر جانا درست ہے اور ایف آئی اے کی انکوائری کب تک مکمل ہوسکتی ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ تحقیقات میں 2 سے 3 ہفتے لگیں گے۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ افسوس کی بات ہے اتنا الزام لگا کر بھی ہائی کورٹ کو نہیں بتایا گیا کہ جج نے یہ کیا کیا، حیرت کی بات ابھی تک ہائی کورٹ میں کوئی بھی نہیں گیا اور کسی فریق نے درخواست نہیں دی۔
تاہم چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم تمام شواہد کا جائزہ لیں گے اور کسی کا نقصان نہیں کریں گے، ایف آئی اس معاملے کی 3 ہفتوں میں تحقیقات مکمل کرے اور انکوائری رپورٹ دے۔
عدالت نے حکم دیا کہ اٹارنی جنرل ایف آئی اے کی تحقیقات جلد مکمل کروائیں، بعد ازاں مذکورہ کیس کی سماعت 3 ہفتوں کے لیے متلوی کردی گئی۔
جج ارشد ملک مبینہ ویڈیو کے معاملے کا پس منظر
یاد رہے کہ 6 جولائی کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز پریس کانفرنس کے دوران العزیزیہ اسٹیل ملز کیس کا فیصلہ سنانے والےجج ارشد ملک کی مبینہ خفیہ ویڈیو سامنے لائی تھیں۔
لیگی نائب صدر نے جو ویڈیو چلائی تھی اس میں مبینہ طور پر جج ارشد ملک، مسلم لیگ (ن) کے کارکن ناصر بٹ سے ملاقات کے دوران نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنس سے متعلق گفتگو کر رہے تھے۔
مریم نواز نے بتایا تھا کہ ویڈیو میں نظر آنے والے جج نے فیصلے سے متعلق ناصر بٹ کو بتایا کہ ‘نواز شریف کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، فیصلے کے بعد سے میرا ضمیر ملامت کرتا رہا اور رات کو ڈراؤنے خواب آتے۔ لہٰذا نواز شریف تک یہ بات پہنچائی جائے کہ ان کے کیس میں جھول ہوا ہے‘۔
انہوں نے ویڈیو سے متعلق دعویٰ کیا تھا کہ جج ارشد ملک ناصر بٹ کے سامنے اعتراف کر رہے ہیں کہ نواز شریف کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے، ویڈیو میں جج خود کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف کے خلاف ایک دھیلے کی منی لانڈرنگ کا ثبوت نہیں ہے۔
تاہم ویڈیو کے سامنے آنے کے بعد احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے ان پر لگنے والے الزامات پر جواب دیا تھا اور ایک پریس ریلیز جاری کی تھی۔
جج ارشد ملک نے مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کی جانب سے پریس کانفرنس کے دوران دکھائی جانے والی ویڈیو کو مفروضوں پر مبنی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس ویڈیو سے میری اور میرے خاندان کی ساکھ کو متاثر کرنے کی کوشش کی گئی۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا تھا کہ ان کی مسلم لیگ (ن) کے ناصر بٹ اور ان کے بھائی عبداللہ بٹ کے ساتھ پرانی شناسائی ہے اور دونوں بھائی مختلف اوقات میں مجھ سے مل بھی چکے ہیں۔
اس تمام معاملے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق نے 2 مرتبہ جج ارشد ملک سے ملاقات کی تھی جبکہ اس تمام معاملے سے متعلق چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ کو بھی آگاہ کیا تھا۔
بعد ازاں 12 جولائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانےکا فیصلہ کیا تھا اور خط لکھا تھا، جس پر وزارت قانون نے احتساب عدالت نمبر 2 کے ان جج کو مزید کام کرنے سے روک دیا تھا اور لا ڈویژن کو رپورٹ کرنے کا کہا تھا۔
اسی روز جج ارشد ملک کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک خط اور بیان حلفی جمع کروایا گیا تھا، جس میں ویڈیو میں لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا گیا تھا۔
بیان حلفی میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے بیٹے حسین نواز نے العزیزیہ ریفرنس کے فیصلے کے بعد عہدے سے استعفیٰ دینے کے لیے انہیں 50 کروڑ روپے رشوت دینے کی پیشکش کی تھی۔
جج ارشد ملک نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ(ن) کے نمائندوں کی جانب سے انہیں العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز میں نواز شریف کے حق میں فیصلہ دینے پر مجبور کرنے کے لیے رشوت کی پیشکش اور سنگین نتائج کی دھمکی دی گئی اور بعد ازاں عہدے سے استعفیٰ دینے پر بھی مجبور کیا گیا۔
بیان حلفی میں جج ارشد ملک نے کہا تجا کہ فروری 2018 میں اسلام آباد کی احتساب عدالت نمبر 2 میں بطور جج تعینات ہونے کے بعد مہر جیلانی اور ناصر جنجوعہ نے رابطہ کیا اور ملاقات کی۔
ساتھ ہی اپنے بیان حلفی میں جج ارشد ملک نے کہا تھا کہ اس ملاقات میں ناصر جنجوعہ نے دعویٰ کیا تھا کہ اس وقت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں موجود بااثر شخصیت کو خصوصی اور ذاتی طور پر میرا نام تجویز کرنے کی وجہ سے مجھے احتساب عدالت نمبر 2 میں جج تعینات کیا گیا، اس حوالے سے ناصر جنجوعہ نے وہاں موجود ایک اور شخص سے کہا تھا کہ میں نے آپ کو چند ہفتے پہلے کہا تھا نا کہ محمد ارشد ملک احتساب عدالت میں جج تعینات ہوگا۔
یاد رہے کہ ارشد ملک وہی جج ہیں جنہوں نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید بامشقت اور بھاری جرمانے کی سزا سنائی تھی جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں انہیں بری کردیا تھا۔
احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے قومی احتساب بیورو کی جانب سے دائر ریفرنسز پر 19 دسمبر کو محفوظ کیا گیا فیصلہ 24 دسمبر 2018 کو سنایا تھا۔