افغانستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا بیان،
امریکا سے ’وضاحت‘ طلب
افغان صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ امریکا کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے افغانستان سے متعلق اس بیان پر وضاحت کرنی چاہیے، جس میں دعویٰ کیا تھا کہ وہ باآسانی جنگ جیت سکتے ہیں لیکن وہ ’ایک کروڑ لوگوں کو قتل نہیں‘ کرنا چاہتے۔
فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی صدر نے پیر کو وائٹ ہاؤس میں وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ ملاقات میں کچھ حیران کن بیانات دیے، جس میں ایک بیان یہ بھی شامل تھا کہ ان کے پاس افغان تنازع کے جلد حل کے لیے منصوبے تھے لیکن اس سے یہ ملک ’صفحہ ہستی سے‘ مٹ جاتا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ افغانستان ’ختم ہوجائے گا اور یہ واقعی 10 دن میں ختم ہوجائے گا‘ لیکن ’میں اس راستے پر جانا نہیں چاہتا‘ اور لاکھوں لوگوں کو قتل نہیں کرنا چاہتا۔
امریکی صدر کے ان بیانات نے افغانستان میں غم و غصہ کی لہر کی بڑھا دیا ہے، جہاں جنگ زدہ اور پریشان آبادی پہلے ہی امریکی فوج کے انخلا سے متعلق پریشان ہیں کہ آیا وہ دوبارہ طالبان حکومت اور خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
ایسی صورتحال میں امریکی صدر کے بیان پر افغان صدر اشرف غنی کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’اسلامی جمہوریہ افغانستان کی حکومت امریکی صدر کے پاکستانی وزیر اعظم سے ملاقات کے دوران اظہار کیے گئے خیالات پر سفارتی ذرائع اور چینلز کے ذریعے وضاحت کا مطالبہ کرتی ہے‘۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بھی کہا تھا کہ پاکستان، افغانستان سے امریکا کو ’نکالنے‘ کے لیے مدد کرے گا اور واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان تعقلات میں ’زبردست صلاحیت‘ ہے۔
تاہم اشرف غنی نے امریکا کی جانب سے طالبان کے ساتھ جاری امن مذاکرات کو مسلسل درکنار کرنے پر غصے کا اظہار کیا۔
افغان صدر کے بیان میں کہا گیا ’افغان حکومت ملک میں قیام امن کے لیے امریکی کوششوں کی حمایت کر رہی ہے تاہم حکومت یہ سمجھتی ہے کہ غیرملکی سربراہان مملکت افغان قیادت کی غیرموجودگی میں افغانستان کی قسمت کے فیصلے کا تعین نہیں کرسکتی‘۔
دوسری جانب ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات نے افغانوں کو ہر روز سوشل میڈیا پر لانے کا باعث بن رہے ہیں۔
ایک فیس بک صارف محمد فرہاد کا کہنا تھا ’میں حیران ہوا اور مجھے دھمکی اور توہین محسوس ہوئی، دہشتگردی کے خلاف جنگ میں مدد پر ہم امریکا پر تشدد کرتے تھے لیکن اب ڈونلڈ ٹرمپ ہمیں نسل کشی کی دھمکی دے رہے ہیں‘۔
ادھر افغانستان کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کے سفیر امن زلمے خلیل زاد افغان امن عمل میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے آٹھویں دورسے قبل منگل کو کابل پہنچ گئے۔
تاہم آنے والے دنوں میں ان مذاکرات کا دور دوحہ میں ہونے کا امکان ہے، جہاں اس مرتبہ بھی اشرف غنی اور ان کی انتظامیہ کو اس سے دور رکھا جائے گا۔