چند روز پہلے تک پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے اس خوبصورت دریائی نالے کے ارد گرد کئی چھوٹے چھوٹے گھر ایستادہ تھے لیکن اب وادی لیسوا کے اس پہاڑی دیہات میں بڑے بڑے پتھر اور تباہ شدہ گھروں کی باقیات ہی بچی ہیں۔
جنوبی ایشیا میں آنے والی مون سون کی بارشوں اور سیلابوں کی وجہ سے اب تک 270 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اس خطے میں سیلابی ریلے غیر متوقع طور پر اتنے شدید ہیں کہ دریائی نالوں کے اردگرد آباد پورے کے پورے دیہات تباہ ہو رہے ہیں۔
گزشتہ اتوار کی شام کشمیر کے اس دریائی نالے میں یک لخت طغیانی پیدا ہوئی اور بپھرا ہوا پانی ہر اس چیز کو اپنے ساتھ بہا 5
.لے گیا، جو اس کے راستے میں آئی۔ 23 افراد ابھی تک لاپتہ ہیں اور حکام کے مطابق ان کے زندہ بچ جانے کی کوئی امید باقی نہیں رہی۔
وادی لیسوا میں سات افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ 150 گھر اور دکانیں مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہیں اور 50 عمارتوں کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔ اس وادی کے امین بٹ کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ”میں نے اپنی والدہ کا ہاتھ تھام رکھا تھا تاکہ اسے بچایا جا سکے لیکن ان کا ہاتھ چھوٹ گیا اور وہ تیز پانی کے ساتھ ہی بہہ گئیں۔‘‘
امین کا اپنی آنکھوں سے آنسو صاف کرتے ہوئے کہنا تھا، ”چند منٹوں میں ہی میری ساری کی ساری دنیا اُجڑ چکی تھی۔ میری ماں بھی جا چکی تھی اور میرا گھر بھی۔‘‘ امین کے مطابق اب وہاں صرف پتھر ہی باقی بچے ہیں۔
لیسوا جیسی وادی کے لیے یہ دوہری آزمائش ہے۔ یہ علاقہ پاکستان اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول کے بھی قریب ہے اور اکثر بھارتی فوج کی گولہ باری کا بھی نشانہ بنتا رہتا ہے۔ جو لوگ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی کی وجہ سے پہلے ہی پریشان تھے، انہیں اتوار کی شام آنے والے سیلاب نے بھی نہیں چھوڑا۔
اسی گاؤں کے شاہنواز بٹ کی اہلیہ اور چھ میں سے تین بچے بھی سیلاب میں بہہ گئے ہیں۔ غمزدہ شاہنواز کا کہنا تھا، ”میں تو ان کے چہرے بھی نہیں دیکھ سکا، ابھی تک ان کی لاشیں تک نہیں ملیں۔‘‘
کئی مقامی رہائشیوں نے مقامی انتظامیہ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اس گاؤں تک صرف ایک سڑک پہنچتی ہے اور اسی وجہ سے امدادی سامان پہنچانے میں بھی تاخیر ہوئی۔ مقامی رہائشیوں کا کہنا تھا کہ ایسی ہنگامی صورتحال میں ہیلی کاپٹروں کا استعمال کیا جا سکتا تھا۔
چند روز پہلے تک جہاں گھر ایستادہ تھے، وہاں اب سفید رنگ کے خیمے لگے ہیں، جو پاکستانی فوج کی جانب سے مہیا کیے گئے ہیں۔ جنوبی ایشیائی ممالک میں مون سون کی بارشیں فصلوں اور پانی کی قلت پوری کرنے کے لیے ضروری ہیں لیکن حالیہ چند برسوں سے یہ تباہی کا سبب بن رہی ہیں۔ سیلابوں سے گاؤں کے گاؤں اور فصلیں تباہ ہو رہی ہیں۔