وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ بھارت مسئلہ کشمیر پر حقیقت سے نظریں چرا رہا ہے اور اس جگہ پر مزید فوج تعینات کی جارہی ہے، جس پر تشویش ہے، تاہم کشمیر کے معاملے پر پوری پاکستانی قوم اور پارلیمان یک زبان ہے۔
مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں آپ کے سامنے ہیں، مقبوضہ کشمیر کو دنیا کا سب سے زیادہ عسکری خطہ بنا دیا گیا ہے، وہاں دن بدن حالات بگڑتے جارہے ہیں، تاہم اس کے باوجود وہ بھارت دوطرفہ گفتگو یا تیسرے فریق کی ثالثی کے لیے تیار نہیں ہے۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں جو 2 نئی چیزیں کرنے جارہا ہے اس پر تشویش ہے، بھارت نے ہنگامی طور پر مقبوضہ کشمیر میں 10ہزار اضافی فوج بھیجنےکا فیصلہ کیا ہے جو قابل غور بات ہے، اس کے علاوہ وہاں آبادیاتی تبدیلی کے بارے میں کہا جارہا ہے، بھارتی سپریم کورٹ میں یہ معاملہ زیر التوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کشمیری کی مخصوص حیثیت سے متعلق بھارتیہ جنتا پارٹی کی جو رائے ہے اسے سامنے رکھتے ہوئے اگر کوئی قدم اٹھایا جاتا ہے تو اس کا خطے کی امن و امان کی صورتحال پر کیا اثر ہوگا اس پر غور و فکر کی ضرورت ہے جبکہ اس معاملے پر کشمیر میں غور فکر شروع ہوگیا ہے، وہاں آل پارٹیز کانفرنس کی جارہی ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ تمام صورتحال پر ہم نے تبادلہ خیال کیا اور تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کی موجودگی میں اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ مسئلہ کشمیر پر پوری قوم اور پارلیمنٹ ایک ہے۔
ان کا کہنا تھا 11 ستمبر کے بعد بھارت نے حق خود ارادیت کی تحریک کو چالاکی سے دہشت گردی سے تشبیہ دینا شروع کردیا جبکہ بھارت نے انتخابات میں بھی پاکستان کارڈ کا استعمال کیا۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ آج کے اجلاس میں خطے کے امن و امان خاص طور افغانستان کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہم نے پاک بھارت تعلقات کا بھی جائزہ لیا۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کی صورتحال مشرقی سرحد سے لاتعلق نہیں رہ سکتی، پاکستان نے امن کے فروغ اور دہشتگردوں کو شکست دینے کے لیے جو کردار ادا کیا وہ دنیا نے دیکھا ہے۔
تاہم ان کاکہنا تھا کہ ہم اس بات سے لاتعلق نہیں ہوسکتے کہ مشرق سرحد پر توجہ بٹی رہنے سے افغانستان کی صورتحال متاثر ہوسکتی ہے، لہٰذا اس معاملے کو بھی زیرغور رکھنا ہے۔