قومی احتساب بیورو (نیب) نے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے نائب صدر شاہد خاقان عباسی کو مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کیس میں گرفتار کرلیا۔
نیب نے سابق وزیرپیٹرولیم شاہد خاقان عباسی کو تفتیش کے لیے طلب کر رکھا تھا لیکن وہ پیش نہیں ہوئے تھے اس سے قبل نیب نے انہیں 8 مرتبہ طلبی کے نوٹس جاری کیے جس میں سے وہ 5 نوٹسز پر تفتیش کے لیے پیش ہوئے۔
نیب کی جانب سے جاری کیے گئے نوٹس میں شاہد خاقان عباسی کو ایل این جی ٹرمینل کیس میں سابق وزیر پیٹرولیم اور قدرتی وسائل کی حیثیت سے 18 جولائی (جمعرات) کو تفتیشی افسر ملک زبیر احمد کے سامنے پیش ہونے کی ہدایت کی گئی تھی۔
تاہم 16 جولائی کو نیب نے ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے تھے۔
دوسری جانب ذرائع نے بتایا کہ نیب لاہور کی ٹیم کی جانب سے ابتدائی طور پر شاہد خاقان عباسی کا طبی معائنہ کیا گیا، جہاں ڈاکٹرز نے ان کی صحت کو تسلی بخش قرار دیا۔
بعدازاں ذرائع نے بتایا کہ گرفتار رہنما مسلم لیگ کو نیب راولپنڈی کے حوالے کیا گیا، تاہم عدالتی وقت کم ہونے کے باعث انہیں کل احتساب عدالت اسلام آباد میں پیش کیا جائے گا۔
جہاں احتساب عدالت کے جج چوہدری امیر خان نیب کی جانب سے راہداری ریمانڈ کی استدعا پر سماعت کریں گے۔
مفتاح اسمٰعیل وارنٹ گرفتاری
دوسری جانب نیب نے مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری کردیے گئے۔
چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے مفتاح اسمٰعیل کے وارنٹ گرفتاری پر دستخط کیے۔
ایل این جی کیس
یاد رہے کہ نیب انکوائری میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ سوئی سدرن کیس کمپنی لمیٹٰڈ (ایس ایس جی سی ایل) اور انٹر اسٹیٹ گیس سسٹم کی انتظامیہ نے غیر شفاف طریقے سے ایم/ایس اینگرو کو کراچی پورٹ پر ایل این جی ٹرمینل کا کامیاب بولی دہندہ قرار دیا تھا۔
اس کے ساتھ ایس ایس جی سی ایل نے اینگرو کی ایک ذیلی کمپنی کو روزانہ کی مقررہ قیمت پر ایل این جی کی ریگیسفائینگ کے 15 ٹھیکے تفویض کیے تھے۔
نہ صرف شاہد خاقان عباسی بلکہ سابق وزیر اعظم نواز شریف پر بھی اپنی مرضی کی 15 مختلف کمپنیوں کو ایل این جی ٹرمنل کا ٹھیکا دے کر اختیارات کا غلط استعمال کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔
2016 میں مسلم لیگ (ن) کی دورِ حکومت میں نیب کراچی میں منعقدہ ریجنل بورڈ کے اجلاس میں شاہد خاقان عباسی کے خلاف انکوائری بند کردی تھی۔
رواں برس 2 جنوری کو ای بی ایم نے اس وقت شاہد خاقان عباسی کے خلاف 2 انکوائریز کی منظوری دی تھی، جب وہ سابق وزیر پیٹرولیم اور قدرتی وسائل تھے، ان انکوائریز میں سے ایک ایل این جی کی درآمدات میں بے ضابطگیوں میں ان کی مبینہ شمولیت جبکہ دوسری نعیم الدین خان کو بینک آف پنجاب کا صدر مقرر کرنے سے متعلق تھی۔
تاہم شاہد خاقان عباسی کئی مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے ایل این کی درآمد کے لیے دیے گئے ٹھیکے میں کوئی بے ضابطگی نہیں کی اور وہ ہر فورم پر اپنی بے گناہی ثابت کرسکتے ہیں اور یہ کہ 2013 میں ایل این جی برآمد وقت کی اہم ضرورت تھی۔
مارچ میں سابق وزیر اعظم ایل این جی کیس میں نیب کے سامنے پیش ہوئے تھے، جس کے بعد احتساب کے ادارے نے ان پر سفری پابندی لگانے کی تجویز دی تھی۔
جس کے بعد رواں برس اپریل میں حکومت نے36 ارب 69 کروڑ 90 لاکھ روپے مالیت کے ایل این جی کیس میں شاہد خاقان عباسی اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل سمیت 5 افراد کے بیرونِ ملک سفر کرنے پر پابندی عائد کی تھی۔
سابق وزیراعظم گزشتہ ماہ (جون ) میں بھی تفتیش کے لیے نیب میں پیش ہوئے تھے جس کے بعد نیب نے شاہد خاقان عباسی کو ان کے خلاف جاری تفتیش کے پیشِ نظر بیرون ملک جانے سے روکنے کے لیے وزارت داخلہ کو خط لکھا تھا۔
تاہم شاہد خاقان عباسی نے نیب کی جانب سے مزید ریکارڈ طلب کیے جانے پر مہلت طلب کی تھی اور اس کی وجہ یہ بتائی تھی کہ متعلقہ ریکارڈ ان کے پاس نہیں بلکہ وزارت پیٹرولیم کے پاس ہے۔