کراچی: اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ایکسچینج کمپنیوں کو کرنسی کے کاروبار سے روکنے کا آغاز کرتے ہوئے بینکوں اور ان کی تمام شاخوں کو ملک بھر میں عوام سے غیر ملکی کرنسی کے خرید و فروخت کرنے کی اجازت دے دی۔
رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک نے غیر ملکی زر مبادلہ کا نظر ثانی شدہ مینوئل جاری کردیا جس میں کرنسی کے کاروبار کے حوالے سے تفصیلات درج ہیں جبکہ ایکسچینج کمپنیوں کا کام بھی بینکوں کو دے دیا گیا ہے۔
قبل ازیں بینکوں کو غیر ملکی زرمبادلہ براہ راست عوام سے خریدنے یا فروخت کرنے کی اجازت نہیں تھی سوائے ان کے جن کی اپنی ایکسچینج کمپنیاں تھیں۔
اسٹیٹ بینک نے ایکسچینج کمپنیوں کے مستقبل کے حوالے سے کچھ نہیں کہا جنہیں حالیہ پیش رفت سے خدشات ہیں۔
غیر ملکی کرنسی نوٹوں کی عوام سے خریداری کے حوالے سے اسٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ پاکستانی ہوں یا غیر ملکی تمام بیرون ملک سے آئے افراد بغیر کسی حد کے غیر ملکی کرنسی و دیگر کسٹم حکام کے 10 ہزار یا اس سے زائد نقد پر ٹیکس ادا کرنے کی پرچی کے ساتھ اسے بینک لاسکتے ہیں۔
بتایا گیا کہ ‘ایسی کرنسیوں و دیگر کو آزادانہ طور پر مجازی بینک پاکستانی روپے میں ادا کرکے خریدے گا، مجازی ڈیلرز بھی اکاؤنٹ ہولڈرز کی جانب سے اپنے غیر ملکی کرنسی اکاؤنت سے نکالی گئی غیر ملکی کرنسی خرید سکتے ہیں جسے پاکستانی روپے میں ادا کیا جائے گا’۔
بینکوں کو بھی غیر ملکی کرنسی کی موجودگی اور اسے عوام کو فروخت کرنے کا کہا گیا ہے۔
مینوئل میں کہا گیا کہ یہ مجازی ڈیلرز کی ذمہ داری ہے کہ اپنی شاخوں میں ضرورت کے مطابق غیر ملکی کرنسی کی بروقت دستیابی یقینی بنائے تاکے وہ اپنے صارفین کی ضروریات کو پورا کرسکیں۔
غیر ملکی کرنسی نوٹوں کی عوام کو فروخت کے حوالے سے اسٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ ڈیلرز غیر ملکی کرنسی نوٹوں کو بیرون ممالک جانے والے افراد کو فروخت کرسکیں گے۔
کرنسی ڈیلرز کا کہنا ہے کہ بینکوں کو روزانہ کی بنیاد پر عوام سے کرنسی کا کاروبار کرنے اجازت دینے کا مطلب ہے کہ اب یہاں ایکسچینج کمپنیوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے سیکریٹری جنرل ظفر پراچہ کا کہنا ہے کہ ‘میں اعلیٰ حکام میں خود ایسے شخص کو جانتا ہوں جو ایکسچینج کمپنیوں کو بند کرنا چاہتا ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘عوام اب با آسانی غیر ملکی کرنسی کی خرید و فروخت نہیں کرسکیں گی کیونکہ بینک لاکھوں افراد کی ضروریات کو پورا نہیں کرسکتے جبکہ بینک اس کام کے ہم سے زیادہ پیسے بھی لیں گے’۔
انہوں نے کہا کہ بینکوں کو باہر سے ملنے والی رقم پر 12 سے 14 روپے ملتے ہیں جبکہ ایکسچینج کمپنیاں یہ سہولت مفت فراہم کرتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ‘ہم غیر ملکی کرنسی کے بدلے ڈالر کی درآمد سے ملک کو سالانہ 10 سے 11 ارب ڈالر فراہم کرتے ہیں’۔
انہوں نے مزید کہا کہ ‘ اگر ایکسچینج کمپنیاں بند ہوگئیں تو اس سے براہ راست جڑے 25 ہزار افراد بے روزگار ہوجائیں گے جبکہ مزید 60 ہزار افراد جو اس کاروبار سے کسی نہ کسی طرح جڑے ہیں وہ بھی بے روزگار ہوں گے’۔