انگریزوں نے بڑا سوچ سمجھ کر ہمارا تعلیمی نظام تباہ کیا
وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کہا ہے کہ انگریزوں نے بہت سوچ سمجھ کر مسلمانوں کا تعلیمی نظام تباہ کیا اور جب تعلیم ختم ہوئی تو مسلمان بھی پستی کا شکار ہو گئے، ہماری کوشش یہ ہے کہ جس تعلیمی نظام کو بڑی محنت سے تباہ کیا گیا، اسے دوبارہ کھڑا کریں تاکہ غریب کا بچہ بھی ترقی کر سکے اور اوپر آ سکے۔
تفصیلات کے مطابق دینی مدارس کے زیر تعلیم طلباءمیں تقسیم انعامات کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ انگریزوں نے بہت سوچ سمجھ کر مسلمانوں کا تعلیمی نظام تباہ کیا۔ انگلش میڈیم بنا کر وہاں بھرتی ہونے والے اساتذہ کو زیادہ تنخواہیں دی گئیں اور مدرسے کے علماءکو جانے والا پیسہ کم کر دیا گیا اور جیسے ہی مسلمانوں کا تعلیمی نظام تباہ ہوا، مسلمان بھی پستی کا شکار ہو گئے۔ آہستہ آہستہ ایک ایسا تاثر دیا گیا کہ سب سے کمزور طبقہ مدرسوں میں جاتا ہے جبکہ اچھا طبقہ انگریزی میڈیم پڑھتا ہے، اور اس وقت ملک میں تین طرح کا تعلیمی نظام ہے جو سراسر ناانصافی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں مختلف قسم کے نصاب کے باعث مدرسے کے بچے اوپر نہیں آ سکتے اس لئے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ مدرسے کے بچوں کو اسلامی تعلیمی کیساتھ ساتھ سائنسی تعلیم بھی دی جائے تاکہ انہیں اوپر آنے کا موقع مل سکے۔ اسلام ہمیں انسان بننا سکھاتا ہے، ایٹم بم سائنسدانوں نے بنایا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی تباہی کا سازو سامان بھی تعلیم حاصل کرنے والے افراد نے بنایا جبکہ سائنسدان ہی ایسی دوائی بھی بنا سکتے ہیں جس سے لاکھوں کروڑوں لوگوں کی بھلائی ہو سکتی ہے اور اسلامی تعلیم ہی انسانیت سکھاتی ہے اور یہ بتاتی ہے کہ ایک انسان کا دنیا میں آنے کا مقصد پیسہ بنانا نہیں ہے بلکہ مرنے کے بعد بھی ایک زندگی ہے جس کے حصول کیلئے دنیا میں کیسے زندگی گزارنی ہے، اسلام نے ہی لوگوں کے ذہنوں میں ڈالا کہ تعلیم کے بغیر معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا، ہم نے حکومت نے آنے کے بعد فیصلہ کیا کہ مدرسوں میں پڑھنے والے بچوں کو دین بھی سکھائیں اور ساتھ ہی انہیں سائنسی تعلیم دینے کا موقع فراہم کیا جائے تاکہ وہ کچھ بھی بن سکیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ علامہ اقبال سب سے زیادہ پڑھے لکھے لوگوں کو اسلام کی جانب لے کر آئے تھے کیونکہ انہوں نے اپنی شاعری میں مغرب اور اسلام کا موازنہ کیا، مسلمانوں کی کمزوری اور طاقت ، انگریزوں کی کمزوری اور طاقت کا موازنہ کیا، ہماری کوشش ہو گی کہ پاکستانی نوجوان پوری طرح ایک آل راﺅنڈر انسان بنے، اسے اپنے دین اور اسلام کی تاریخ، مغربی سائنس کی سمجھ ہو، تب ہی وہ ایک ایسا پاکستانی بنے گا جو جسے اپنا مقصد معلوم ہو گا اور یہ پتہ ہو گا کہ یہ ملک کس مقصد کیلئے بنایا گیا تھا، پاکستان واحد ملک تھا جو سالام کیلئے بنا ، ہماری سیاسی رول ماڈل قائداعظم تھے اور نظریاتی رول ماڈل علامہ اقبال تھے، میں شفقت محمود سے کہوں گا کہ آپ نے لوگوں کو اقبالیات ضرور پڑھانی ہے کیونکہ جب آپ علامہ اقبال کو سمجھ جاتے ہیں تو آپ کو اپنی طاقت سمجھ آ جاتی ہے اور یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ کیا وجہ تھی نبی کریمﷺ کے دنیا سے پردہ کرنے کے 30 سال بعد مسلمان ترقی کرتے رہے، ان کے پاس ہتھیار نہیں تھے اور فوج بھی زیادہ نہیں تھی مگر صرف ایمان کی قوت تھی جس کی بناءپر مسلمان دنیا کی عظیم قوم بنی اور سرفہرست سائنسدان مسلمان تھے۔ میں چاہوں گا کہ ہماری یونیورسٹیز میں بچوں کواس سے متعلق بھی پڑھایا جائے کہ آخر وہ کیا وجہ تھی کہ اس وقت کی سپر پاورز مسلمانوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئی تھیں اور کیا وجہ ہے کہ آج ہر جگہ مسلمان قتل ہو رہا ہے، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ کسی اور قوم کیساتھ یہ کچھ ہو، کئی مہینوں سے 80 لاکھ لوگوں کو ایک کھلی جیل میں بند کیا ہوا ہے جو ہماری کمزوری ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان، ترکی اور ملائیشیا نے مل کر ایک ٹی وی چینل بنانے کا فیصلہ کیا ہے جس کا مقصد مسلمانوں کی نمائندگی کرنا ہو گا تاکہ دنیا کو مسلمانوں کا موقف بھی پتہ چلے۔ دوسرا ہم اپنے اسلامی ہیروز پر فلمیں بنانا چاہتے ہیں، یہاں زیادہ تر فلمیں ہوتی ہالی ووڈ اور بالی ووڈ سے آتی ہیں لیکن ہم وہ فلمیں بنائیں گے جو مسلمانوں کے بارے میں بتائیں گی جیسا کہ خالد بن ولید پر فلم بننی چاہئے تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ وہ کس طرح کے انسان تھے۔ ترکی نے پہلی دفعہ ایک فلم کے ذریعے بتایا ہے کہ ترک کیسے اوپر گئے اور ہم چاہتے ہیں کہ اس فلم کی اردو میں ڈبنگ کی جائے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ایک تو ہم میڈیا کے ذریعے مسلمانوں کا موقف پوری دنیا میں پیش کریں گے اور دوسرا ملک میں تعلیمی نظام کو ایک کریں گے تاکہ امیر اور غریب کا بچہ ایک ہی نصاب پڑھے اور اس کے بعد وہ جس شعبے کا ماہر بننا چاہے، بن سکے تاکہ ہر پاکستانی کو اوپر آنے کا موقع ملے، موجودہ تعلیمی نظام کے تحت پاکستانیوں کی اکثریت اوپر نہیں آ سکتی اور اچھی نوکریاں نہیں کر سکتی، ہماری کوشش ہے کہ جس تعلیمی نظام کو بڑی محنت سے تباہ کیا گیا، اسے دوبارہ کھڑا کریں، جس میں وقت ضرور لگے گا لیکن یہ ایک ایسا تعلیمی نظام جس کے تحت غریب کا بچہ بھی اوپر آ سکے گا۔