Shah Mehmood Qureshi Speech in NA Session
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ملک کے اندر چاہے سیاسی اختلافات ہوں لیکن پاکستان کی سرحدوں، جغرافیہ، نظریے اور دفاع پر کوئی اختلاف نہیں اور پاکستان کے مفاد کے لیے پوری قوم ایک ہے۔
قومی اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی صدارت میں ہوا، جہاں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف سمیت دیگر اراکین نے بھی اظہار خیال کیا۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے جنوبی وزیرستان اور بلوچستان میں 2 حملوں میں 10 مسلح افواج کے اہلکاروں کی شہادت پر سیکیورٹی صورتحال پر ایوان کو آگاہ کیا۔
شاہ محمود قریشی نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان کے 10 سپوتوں نے جام شہادت نوش کرکے ثابت کیا کہ وہ مادر وطن کے لیے جان قربان کرنے کے لیے تیار ہیں اور اپنے لہو سے اس ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کے دفاع کی صلاحیت رکھتے ہیں، یہ ایوان ان کی قربانیوں کا اعتراف کرتا ہے اور ان کے اہل خانہ سے اظہار تعزیت کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پوری قوم کو یکسوئی کے ساتھ کہنا ہوگا کہ پاکستان کے مفاد کے لیے ہم ایک ہیں، ہمارے اندر سیاسی نوعیت کے چاہے 100 اختلافات ہوں لیکن پاکستان کی سرحدوں، جغرافیہ، نظریے اور دفاع پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ جو مظاہرہ 26 اور 27 فروری کو بھارتی جارحیت پر دیکھا وہی مظاہرے کی دنیا توقع کرتی ہے کہ پاکستان اسی طرح آگے بڑھے گا اور دنیا کو باور کروائے گا کہ ہم ایک قوم ہے، ہمارا ایک مقصد ہے، ہم امن و استحکام چاہتے ہیں کیونکہ ہمارا امن و استحکام افغانستان کے امن و استحکام سے جڑا ہوا ہے۔
قائد حزب اختلاف کے سوال پر جواب دیتے ہوئے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ اگر اس پورے عمل کا بغور جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ اگست 2017 میں پاکستان کہاں کھڑا تھا، اس صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے جس دورہ واشنگٹن کی بات کی گئی، اسی امریکی دارالحکومت سے ایک جنوبی ایشائی پالیسی کا اعلان کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ امریکا نے اپنی اس حکمت عملی کے تحت امریکا نے اپنی تمام قباحتوں کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرادیا تھا، ملک پر انگلیاں اٹھنا شروع ہوگئی اور سیکیورٹی اور اقتصادی امداد معطل کردی گئی جبکہ تربیتی پروگرام بھی بند کردیے گئے مگر کانگریس میں پاکستان کے معاملے اور اس کی مخالفت میں اتفاق دکھائی دیتا تھا۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ جس سیاس و سباق میں پی ٹی آئی حکومت نے باگ ڈور سنبھالی اس کا جائزہ لیں تو نظر آئے گا کہ ان 11 ماہ میں امریکی سوچ میں تبدیلی آئی اور جو امریکا اور اس کے ساتھی یہ سمجھتے تھے کہ بزور بازو افغانستان کے دیرپا امن کے لیے عسکری ذرائع استعمال کرکے مقاصد حاصل کرسکیں گے اس میں بہت بڑی تبدیلی آئی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس تبدیلی کے آغاز سے نیا سفر شروع ہوا اور پھر بتدریج آگے بڑھے جس میں دشواریاں بھی تھیں اور یہ سفر نہ کل آسان تھا اور نہ آسان ہے، جو لوگ فوجی حل کے حامی تھے انہیں سیاسی حل کی طرف قائل کرنا بہت مشکل تھا لیکن اس میں پاکستان کو کامیابی ملی جسے تسلیم کرنا چاہیے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اس تبدیلی کے بعد آگے بڑھنے کے لیے امن کے حصول کے طور پر ہمیں کچھ اقدامات اٹھانے تھے اور کچھ سرحد کے اس پر توقعات وابستہ کی تھیں۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنی طرف سے جو اقدامات اٹھائے اس کے لیے یہ پورا ایوان مبارکباد کا مستحق ہے اور اس میں ہر سیاسی جماعت کا حصہ ہے، جن کی سیاسی بصیرت سے نیشنل ایکشن پلان نے جنم لیا اور اس کو سامنے رکھتے ہوئے ایک نئی سمت اور راستہ اختیار کیا۔
انہوں نے کہا کہ آئین میں ترمیم کے ذریعے اس حصے کو صوبے میں ضم کیا گیا جو علاقہ غیر سمجھا جاتا تھا، یہی نہیں بلکہ وہاں سیاسی عمل کو آگے بڑھایا اور سب نے دیکھا کہ وہاں پرامن انتخابات ہوئے اور ہر سیاسی جماعت نے اپنی مہم چلائی اور یہ سب عمل پرامن طریقے سے مکمل ہوا، جسے دنیا نے تسلیم کیا۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ سرحدی علاقے میں انفرااسٹرکچر میں بہت نقصان ہوا، لوگوں کے گھر و کاروبار برباد ہوئے، جس کے معاوضے کے لیے بجٹ میں 162 ارب روپے کی خطیر رقم رکھی گئی تاکہ وہاں ترقی کے عمل کو آگے بڑھایا جاسکے، اس کے علاوہ پاکستان نے سرحدی نظام کی بہتری کے لیے باڑ لگانے کے اقدامات کیے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم یہ کہتے آرہے ہیں کہ سرحد پار ایسی پناہ گاہیں ہیں جہاں سے پاکستان میں کارروائی کی جاتی ہے، ہماری افواج نے اپنے علاقوں کو دہشت گردی سے پاک کیا جس کے نتیجے میں لوگ اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں لیکن سرحد پار ایسے لوگ بیٹھے ہیں جو یہاں آکر کارروائیاں کرتے ہیں اور ان کا اپنا ایجنڈا ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکا میں بھی یہ بات کی گئی کہ سرحدپار بگاڑپیدا کرنے والے ہیں لیکن پاکستان امن عمل میں کردار ادا کررہا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ بحالی کا عمل اپنے انجام کو پہنچے اور اس کے لیے ہم انٹرا افغان مذاکرات کی کوشش کر رہے ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ پاکستان کا کردار تعمیری اور مثبت رہا ہے اور امن عمل آگے بڑھا ہے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ اس سب کے باوجود بگاڑپیدا کرنے والے ہیں جو نہیں چاہتے کہ ملک میں امن اور استحکام ہے اور پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں بہتری آئے، ہم نے پڑوسی ملک سے تعلقات کی بہتری کی کوشش کی، 11 ماہ میں 3 مرتبہ کابل کا دورہ کیا اور ایک نیا میکانزم تیار کیا۔
انہوں نے کہا کہ افغان صدر کو پاکستان کی دعوت دی گئی جس پر وہ پاکستان آئے اور غلط فہمیوں کے شگاف کو کم کرنے کی کوشش کی گئی جبکہ تمام سیاسی جماعتوں اور افغانستان کی قیادت کے تمام گروہوں کو بھوربھن بلایا جاتا ہے اور لاہور پراسس کے نام سے ایک نئے عمل کا آغاز کرتے ہیں۔
اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ طالبان مذاکرات کی میز پر آگئے ہیں اور وزیر اعظم عمران خان کی خواہش پر وہاں سے مثبت جواب آیا کہ ہمیں دعوت دی گئی تو ہم پاکستان آنے کو تیار ہیں، یہ ایک مثبت پہلو ہے جسے تسلیم کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اس معاملے پر یک زبان ہوکر بات کرنی ہے اور اپوزیشن نے ایسا کیا ہے، اس معاملے پر بحث پر کوئی اعتراض نہیں ان کے نقطہ نظر کو سنیں گے اور جو بات قابل غورہوگی اس پر ضرور غور کیا جائے گا۔