وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ امریکا کی طرح پاکستان کا بھی یہی مقصد ہے کہ افغانستان میں جتنا جلدی ممکن ہوسکے امن کے حل تک پہنچا جائے۔
امریکی کانگریس کے اراکین سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ وہ امریکا کو بتائیں گے کہ ان کا ملک افغان امن عمل میں کیا کرستا ہے، ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان طالبان کو مذاکرات کے آغاز کے لیے میز پر لانے کی ہرممکن کوشش کرے گا۔
واضح رہے کہ وزیر اعظم نے اپنے دورے کے دوران امریکی اراکین کانگریس سے خطاب کیا، اس دوران اسپیکر نینسی پیلوسی نے ان کا استقبال کیا۔
نینسی پیلوسی نے پاکستان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ امریکا میں مقیم پاکستانی ہمارے لیے ایک ’بہترین تحفہ‘ ہیں۔
امریکی ایوان کی اسپیکر نینسی پیلوسی کا کہنا تھا کہ انہیں پاکستان کے تعارف اپنے وقت میں ہوا جب وہ یونیورسٹی میں تھیں جہاں انہیں ساڑی میں ملبوس ایک دوسری طالبعلم نے کہا کہ وہ لائبریری میں محمد علی جناح پر موجود کتابیں پڑھیں، جس کے ذریعے انہیں ’سیاست دانوں کی عظمت‘ کے بارے میں علم ہوا تھا۔
نینسی پیلوسی کا کہنا تھا کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات ’اہم‘ تھے
علاوہ ازیں وزیر اعظم نے کہا کہ یہ آسان نہیں ہوگا لیکن میں یقین دلاتا ہوں کہ پاکستان اپنی بہترین کوشش کرے گا کیونکہ ’پورا ملک میرے پیچھے کھڑا ہے، پاک فوج، سیکیورٹی فورسز اور سب میرے پیچھے ہیں، ہم سب کا ایک مقصد ہے اور وہ بالکل وہی ہے جو امریکا کا مقصد ہے کہ افغانستان میں جتنا جلدی ممکن ہو پرامن حل ہو‘۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ یہ اہم تھا کہ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو سے ملے اور انہیں بتایا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کا آگے بڑھنا باہمی اعتماد کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں امریکا کو بتاؤں کہ ہم امن عمل میں کیا کرسکتے ہیں، ’مجھے امید ہے کہ اب سے ہمارے تعلقات مختلف نوعیت کے ہوں گے۔۔ کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان بداعتمادی کو دیکھنا ہمارے لیے تکلیف دہ تھا‘۔
قبل ازیں عمران خان نے کانگریس میں اپنے خطاب کے آغاز میں بتایا کہ امریکا کے دورے کا ’پورا خیال‘ یہ تھا کہ امریکیوں کو پاکستان کے بارے میں بہتر سمجھنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے 40 سال سے زائد خاص طور پر آخری 15 سال میں ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے دوران بہت زیادہ غلط فہمیاں پیدا ہوئیں۔
’پاکستان کو خاص طورپر ان گزشتہ 15 برسوں میں یہاں نہیں سجھا گیا جب افغانستان میں اور پاکستان کی سرحدوں پر یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی جارہی تھی۔
’لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ جب میں یہاں سے جاؤں گا تو میں یہاں ایسے لوگ بنا چکا ہوں گا جو ہمارے نقطہ نظر کو سمجھ سکیں‘۔
وزیر اعظم نے کہا کہ جب ہمارا ملک ’امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ لڑ رہا تھا تو اس دوران 70 ہزار پاکستانیوں نے اپنی جان قربان کی اور پاکستانی معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔
’پاکستان کا 11 ستمبر سے کوئی تعلق نہیں تھا، القاعدہ افغانستان میں تھے اور پاکستان میں کوئی عسکریت پسند طالبان نہیں تھے لیکن ہم امریکی جگن میں شامل ہوئے، جہاں میں اپنی حکومت کو ذمہ دار کہتا ہوں وہیں ہم نے امریکا کو زمینی حقائق کے بارے میں سچ نہیں بتایا تھا‘۔
انہوں نے کہا اس کا سبب یہ تھا کہ ملک میں 40 مختلف عسکریت پسند گروپس کام کر رہے تھے اور حکومتوں کا ان پر کنٹرول نہیں تھا۔
’لہٰذا جب امریکا نے ہم سے ڈومور اور جنگ جیتنے میں مدد کی خواہش کا اظہار کیا تو اس وقت پاکستان اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا تھا‘۔
اپنے خطاب کے آخر میں عمران خان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں امید ہے کہ اب سے ہمارے تعلقات مکمل مختلف ہوں گے اور یقین دلاتا ہوں کہ میں اس بات کو یقینی بناؤں گا کہ ہمارے تعلقات سچ اور اعتماد کی بنیاد پر ہوں‘۔