لیکن یہاں کی مقامی آبادی پولیس کے بیان کومشکوک قراردیتے ہوئے اس پریقین کرنے کوتیارنہیں اور ابھی تک پولیس بھی اس بات کا کوئی ثبو ت فراہم نہیں کرسکی کہ مقتول کومشتبہ سمجھ کرروکنے کی کوشش کی گئی اورحکم عدولی پراس کے سینے میں گولی مارکراس کوموقع پرہلاک کردیاگیا۔ اگرواقعی متوفی اورپولیس کے درمیان فائرنگ کاکوئی تبادلہ بھی ہواہے توجائے واردات سے نہ توایساکوئی ثبوت ملاہے اورنہ ہی کوئی پولیس والازخمی ہواہے۔دراصل لندن کی پولیس بھی امریکاکی پولیس جیسی ہوتی جارہی ہے۔تحقیقات کے بعدپتہ چلاہے کہ ڈگن نے پولیس پرکوئی گولی نہیں چلائی تھی،پھرپولیس کااس بیدردی سے قتل کردیناایک سنگین جرم ہے جس پرحکومت میں بھی کوئی شورنہیں اٹھاہے بلکہ برطانیہ کی وزیرداخلہ تھریسا مےاپنی تعطیلات ختم کرکے بھاگی ہوئی واپس آئیں اوربلوائیوں پربرس پڑیں،کہنے لگیں:’’جوتشددہم نے دیکھا،جولوٹ ماردیکھی وہ جرم کے علاوہ کیاہے؟بہت جلدان لوگوں کوعدالت کے کٹہرے میں کھڑاکیاجائے گا‘‘۔ اب تک برطانوی میڈیانے بھی اپناکردارادانہیں کیاہے بلکہ بدنصیبی کی بات تویہ ہے کہ برطانوی میڈیا صحیح حقائق پرپردہ ڈال رہاہے۔
۲۹سالہ متوفی ڈگن چاربچوں کے باپ تھااورلندن کے مخلوط آبادی والے علاقے ٹوٹنہم کارہائشی تھااورعلاقے کے لوگ اس کومجرم نہیں سمجھتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ جب ڈگن کی پولیس کے ہاتھوں مارے جانے کی اطلاع اس کے علاقے میں پہنچی توعلاقے کے مکینوں میں اشتعال پھیل گیاجس کے جواب میں یہ فسادات پھوٹ پڑے اورمشتعل ہجوم نے مکانات، دوکانوں،بسوں،ہوٹلوں اورراستے میں آنے والی تمام املاک کونذرآتش کردیا۔عینی شاہدین کہتے ہیں کہ ٹوٹنہم کاعلاقہ دوسری عالمی جنگ کانقشہ پیش کررہاتھاجب نازی جرمنی کے بمبارطیاروں کی شدیدبمباری سے لندن شہرکھنڈربن گیاتھا۔ان فسادات نے تیزی کے ساتھ لندن کے دوسرے دس علاقوں کوبھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ہیکنی جہاں ان سیاہ فام کی اکثریت ہے وہاں علاقے کی دوکانوں میں توڑپھوڑکرنے کے بعدان کولوٹ لیاگیا،شمالی لندن ایڈمنٹن،پانڈرزاینڈ،این فیلڈاورمغربی لندن ایلنگ براڈوے کے بیشماربڑے بڑے سٹورزکوتوڑکرلوٹ مارکرنے کے بعدآگ لگادی گئی ۔جاپانی مصنوعات تیارکرنے والی کمپنی ’’سونی‘‘جہاں سینکڑوں لوگ کام کرتے تھے اور’’سرے‘‘میں ایک بہت بڑے فرنیچر اسٹورکوجلاکرخاکسترکردیاگیا۔ایک اندازے کے مطابق اربوں پاؤنڈزکی املاک کوجلادیاگیااورکروڑوں پاؤنڈزکاسامان ان فسادات کی نذرہوگیا۔
پولیس اس غضبناک ہجوم کے سامنے بے بس دکھائی دے رہی تھی۔پولیس اوران کے جاسوسی کتے لوٹ مارکرنے والے نوجوانوں کاتعاقب کرتے جومختلف ٹولیوں کی شکل میں لوٹ مارکرنے بعدان املاک کونذڑآتش کررہے تھے۔وہ کچھ دیرکیلئے ملحقہ گلیوں میں روپوش ہوجاتے لیکن موقع ملتے ہی فوراً دوبارہ لوٹ مارشروع کردیتے۔بعدازاں یہ فسادات لندن سے نکل کربرمنگھم،مانچسٹرکے علاوہ دوسرے بڑے شہروں تک پھیل گئے اورہرجگہ لوٹ مارکاایک ہی سماں نظرآنا شروع ہوگیا۔برطانیہ کے علاوہ دنیابھرکا میڈیاان کاروائیوں کوبراہ راست نشرکررہاتھااوربالخصوص ان فسادات میں ایک زخمی ملائشین نوجوان کی مددکرنے کے بہانے سفیدفام نوجوان اس کے تھیلے سے سامان کی چوری کے منظرکودیکھ کرتہذیب یافتہ سوسائٹی کے سرشرم سے جھک گئے ۔یوں معلوم ہورہاتھاکہ پولیس یاتوبلوائیوں سے ڈرگئی ہے یاان سے ہمدردی رکھتی ہے اور اس لاقانونیت کے ہاتھوں ساراملک یرغمال بن چکا ہے اوراس قیامت خیزاورہوشربامناظردیکھنے کے بعدبرطانیہ میں خوف وہراس اس قدرپھیل گیاکہ شہریوں کی رات کی نیندیں حرام ہوگئیں اورلوگوں نے اپنے گھروں کی حفاظت کیلئے اپنے تئیں حفاظتی تدابیراختیارکرناشروع کردیں۔
برطانوی وزیراعظم ڈیوڈکیمرون اورلندن کے میئربورس جانسن بھی اپنی تعطیلات ختم کرکے بھاگم بھاگ واپس پہنچے اورفوری طورپران فسادات پرقابوپانے کی کوششوں میں مصروف ہوگئے ۔لندن میں پولیس کی نفری چھ ہزارسے بڑھاکرفوری طورپرسولہ ہزارکردی گئی لیکن فسادات کے خطرات مسلسل سرپرمنڈلارہے ہیں۔بعض مبصرین کاکہناہے کہ نہ توپولیس نے بلوائیوں سے مذاکرات کرنے کی کوشش کی اورنہ ہی ابتداء میں لوٹ مارکوروکنے کی سنجیدہ کوشش کی گئی جس کی وجہ سے یہ فسادات لندن سے نکل کرملک کے دوسرے شہروں میں بھی پہنچ گئے اوربدقسمتی سے برمنگھم میں تین مسلمان پاکستانی نژادبرطانوی(۲۱سالہ ہارون جہاں،دوسگے بھائی ۲۴سالہ شہزادحسین اور۲۵سالہ مصور حسین )جواپنے ساتھیوں سمیت علاقے کی مسجداوردوسری املاک کی حفاظت کیلئے مامورتھے ،ان کوایک مجرمانہ ذہنیت کا مالک سیاہ فام تیزرفتارگاڑی کے نیچے کچل کرفرارہوگیاجس سے برطانیہ بھرمیں ایشیائی کیمیونٹی میں سخت اشتعال پھیل گیااورنسلی فسادکاشدیدخطرہ پیداہوگیا۔ہارون جہاں کے والدطارق جہاں ملک نے انتہائی صبرواستقامت کامظاہرہ کرتے ہوئے بروقت نوجوان ایشیائی کیمیونٹی سے میڈیاپرآکرپرامن رہنے کی درخواست کی جس کی بناء پرنسلی فسادات کافی الحال خطرہ ٹل گیا۔پولیس نے سیاہ فام ۲۶سالہ جوشواؤڈونالڈاوردوسرے ۱۷ سالہ مجرم جس کے نام اورشناخت کوظاہرنہیں کیاگیا،ان تین بیگناہ پاکستانی افرادکے قتل کے الزام میں گرفتارکیاہے۔
دراصل یہ نہ تونسلی فسادات ہیں ،نہ ہی چوری ڈکیٹی کی واردات ،بلکہ یہ یہاں کی نوجوان نسل کااحساس محرومی ہے جس نے انہیں ایسی لاقانونیت پرمجبورکیاہے لیکن برطانیہ کی قدامت پسندحکومت اس کوتسلیم کرنے کوقطعی تیارنہیں۔یہ وہ استحصالی نظام ہے جس نے سمندرپاراقوام کولوٹنے کے بعداب اپنے ہی وطنوں کوفاقے اوربیروزگاری سے دوچار کر دیا ہے۔کیابرطانوی حکومت اب بھی یہ تسلیم کرنے کوتیارنہیں کہ افغانستان اورعراق کی جنگوں میں الجھ کردنیاکی سب سے بڑی فلاحی ریاست دیوالیہ ہوگئی ہے لیکن ان کامراعات یافتہ طبقہ اب بھی بونس اورالاؤنس سے مستفیذہورہاہے لیکن عوام کے بینیفٹس پرکٹوتی کے ظالمانہ کلہاڑے کاوارکردیاگیاہے چنانچہ اسی ردعمل میں کسادبازاری سے تنگ آکرانہوں نے بینکاروں اورسرمایہ داروں کے دفاتراورعیش کدوں پرہلہ بول دیا۔
رائل بینک آف سکاٹ لینڈکے سربراہ کی رہائش گاہ پر بیروزگاروں یااحساس محرومی کے شکارملازموں نے توپھوڑکی اورحکومت سے مطالبہ کیاکہ ان کے بونس اوردیگرمراعات فوری ختم کی جائیں کیونکہ اگرعام ملازموں سے کسادبازاری کے باعث قربانی طلب کی جارہی ہے توان بڑی بڑی مچھلیوں پرجال کیوں نہیں ڈالاجارہا؟اسی طرح جب برطانوی کابینہ کے وزاراء کی رہائش گاہوں کی تزئین پرکثیررقم صرف کرنے پراعتراض ہواتوحکومت نے فوری طورپران میں کٹوتی کااعلان کر دیا‘ اس وقت یہ بات بھی منظرعام پرآئی کہ برطانوی کابینہ کے وزاراء سرکارکی مقررکردہ رقم سے کہیں زیادہ رقم اپنے گھروں کی آرائش پرصرف کردیتے ہیں۔ یہ ساری باتیں جب عوام کے علم میں آئیں توان کے اندرطبقاتی نفرت کالاواپکنے لگاجوایک بیگناہ شہری ڈگن کے پولیس کے ہاتھوں قتل سے پھٹ پڑا۔ابھی چندگھنٹے قبل رائل بینک آف سکاٹ لینڈ جو برطانیہ میں املاک پرسب سے بڑی قرضہ دینے والی کارپوریشن ہے،نے اپنے ان تمام گاہکوں کوجن کی املاک کو ان فسادات میں نقصان پہنچاہے قرضے پرکچھ چھوٹ کااعلان کیاہے تاکہ عوام کے اشتعال میں کچھ کمی لائی جاسکے۔
یادرہے کہ ان فسادات میں لوٹ مارمیں صرف کالے نہیں بلکہ گورے بھی شامل تھے جوبیروزگاری کاشکارہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس لوٹ مارکی کاروائی میں اب تک کسی بھی ایشیائی مسلمان کانام شامل نہیں حالانکہ اس طبقاتی کسادبازاری میں وہ سب سے زیادہ متاثرہیں اوربالخصوص برمنگھم میں تین نوجوان مسلمان پاکستانی نژادبرطانوی شہریوں کی بہیمانہ ہلاکت کے بعدان کارخ نسلی فسادات کی طرف موڑنے کی کوشش کوناکام بنانے میں جہاں پہلی مرتبہ برطانوی میڈیانے پاکستانی مسلمانوں کوتحسین کی نگاہ سے دیکھاہے وہاں نوجوان ہارون جہاں کے والدطارق جہاں کے کردارکوبہت سراہاگیاہے۔ دراصل یہ وہ طبقاتی جنگ ہے جواستعماری ٹولے اوراورافلاس زدہ عوام کے مابین جاری ہے جس میں شیش محل ڈھائے جارہے ہیں اورسامان تعیش سے بھرپورزروجواہر،لباسِ فاخرہ اورجدیدترین نوادرات کی وہ دوکانیں جن پربرطانیہ کے بدحال عوام حسرت بھری نظریں توڈال سکتے ہیں لیکن ان کوخریدنے کاتصوربھی نہیں کرسکتے۔اس وقت ان کے دلوں میں ان آئینہ خانوں کوتوڑڈالنے کاوہ جذبہ ابھراجس کامظاہرہ دنیابھرکے عوام کو برطانیہ کے مختلف بڑے شہروں میں حالیہ فسادات کے دوران لوٹ مارمیں دیکھنے کوملا۔
چندماہ پہلے یورپی یونین کے ایک اہم رکن ملک یونان میں بھی ایسے مظاہرے دیکھنے کوملے جب اس کے وزیراعظم جارج پاپااینڈریو نے یورپی یونین کے دباؤ پرکفائت شعاری کے نام پراپنے عوام سے قربانی مانگی تھی۔اس وقت ایتھنز،پیریس،سلونیکاکے علاوہ ملک کے دیگرشہروں میں ترسے ہوئے نوجوانوں میں غصے کالاواپھٹ پڑا۔کئی دن یونان کی سڑکوں پرنوجوانوں کے شدیداحتجاج اورپولیس کے درمیان جنگ کاماحول جاری رہا۔بظاہرطاقت کے بل بوتے پراس تحریک کوفی الحال دبالیاگیالیکن پارلیمان کے ارکان نے اپنے رائے دہندگان سے غداری کرتے ہوئے فلاحی مدمیں کٹوتی کاکالا قانون منظورکرلیالیکن معاشی تجزیہ نگاراس خدشے کااظہاربھی کررہے ہیں کہ جلد ہی یہی تاریخ اٹلی اوراسپین میں دہرائی جائے گی۔اب انگریز،اطالوی۔ہسپانوی اوریونانی عوام اپنے حکمرانوں سے پوچھ رہے ہیں کہ جب تم کسادبازاری کی وجہ سے ہماری صحت۔تعلیم اوررہائش پررقم صرف نہیں کرسکتے توسات سمندرپارعراق اورافغانستان کی جنگ کیوں لڑرہے ہو؟اس دورافتادہ ملک میں اپنے فوجیوں کوکیوں جھونک رہے ہوجہاں آئے دن ان کے تابوت موصول ہورہے ہیں۔اس لاحاصل جنگ اورفضول خرچی کیلئے کہاں سے رقم آتی ہے اورکیایہ اپنے ملک کے شہریوں کے ساتھ زیادتی نہیں؟؟
ان ممالک کے شہریوں کوبری طرح اس بات کااحساس ہوچکاہے کہ یورپ اس وقت امریکاکاحلقہ بگوش ہے اوراس طرح ان کے دلوں میں امریکاکے خلاف بھی نفرت ابھررہی ہے ۔اب یہی آفت امریکاپربھی ٹوٹ پڑی ہے۔وہ دیوالیہ ہوچکاہے لیکن رسی جل گئی پربل نہیں گیاکے مصداق فتح کادعویٰ کررہاہے۔سرکاری اطلاع کے مطابق اب تک(۱۵/اگست ۲۰۱۱ء) جہاں عراق اورافغانستان کی جنگ میں ۱۴۵۵۵۹۰بیگناہ عراقی اورکئی لاکھ افغانی ہلاک ہوچکے ہیں وہاں صرف عراق میں۴۷۹۲/امریکی اوراتحادی افواج کے ۲۶۷۶/افرادمارے جاچکے ہیں اوراس سے کہیں زیادہ تعدادافغانستان میں کام آچکے ہیں اوراب تک امریکاان دونوں ممالک میں لاحاصل جنگ پرجہاں سے اب فرار کاراستہ ڈھونڈرہاہے ،۱۲کھرب ۳۶/ارب ڈالرکی خطیررقم آگ میں جھونک چکاہے جوہرلمحہ بڑھتی جارہی ہے۔
امریکی عوام توپہلے ہی اپنی حکومت سے بپھرے ہوئے ہیں،یہاں تک کہ ان کی نئی نسل زندگی سے اتنی بیزارہوچکی ہے کہ آئے دن کوئی نوجوان یکایک اسکول میں اپنے ہم جماعت لڑکوں پراندھادھندگولیاں برساکرانہیں موت کے گھاٹ اتاردیتاہے لیکن اب وہ اپناغصہ اپنے حکمرانوں پراتاررہاہے جس کی ایک مثال تواس نوجوان کی ہے جس نے ایک تقریب میں حکمران جیفرڈ جبرئیل ڈیموکریٹک پارٹی کی رکن کانگرس کوہلاک کرنے میں کوئی کسرنہیں اٹھارکھی ۔حملہ آورنوجوان کوخاتون کانگرس سے کوئی دشمنی نہیں تھی بلکہ اسے اس استحصالی ٹولے سے نفرت تھی
جس نے نئی نسل کوجنگ کی بھٹی میں جھونک دیاہے۔ پیٹراٹک ایکٹ جیسے کالے قانون کے ذریعے امریکیوں کی شہری آزادی سلب کرلی ہے۔اسی طرح امریکی ریاست اوہایوکے شہرکاپلی میں ایک شخص نے اپنی دوست لڑکی سمیت سات افرادکوقتل کردیا بظاہریہ ذاتی محرومی کانتیجہ معلوم ہوتاہے لیکن اس کے محرکات استحصالی ٹولے سے شدیدنفرت ہے۔لگ رہاہے کہ یورپ اورامریکامیں ویسے ہی انقلاب برپاہوسکتے ہیں جومصر،تیونس،شام اورالجزائرمیں دیکھنے میں آرہے ہیں۔
نوٹ:قارئین ان تین نوجوان پاکستانی نژادبرطانوی شہداء اوران کے اقرباء کیلئے صبرجمیل کی خصوصی دعا کی درخواست ہے۔نوجوان ہارون جہاں ملک میراپوتاتھا۔