اسلام آباد: اعلیٰ عدلیہ کے 2 ججز کے خلاف ریفرنس کی سماعت کرنے والی سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اظہارِ وجوہ (شوکاز) کے 2 نوٹس بھجوادیے۔
ان نوٹسز میں سے ایک وزیر قانون کی جانب سے دائر کیے گئے صدارتی ریفرنس سے متعلق ہے جس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر اہلیہ اور بچوں کے نام سے غیر ملکی جائیدادیں رکھنے کا الزام لگایا گیا ہے۔
دوسرا نوٹس لاہور کے ایک وکیل کے دائر کردہ ریفرنس پر جاری کیا گیا جو جسٹس قاضی فائز کی جانب سے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو لکھے گئے 2 خطوط سے متعلق ہے۔
اس حوالے سے باخبر ذرائع نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اظہارِ وجوہ کے نوٹسز جاری کرنے کا فیصلہ سپریم جوڈیشل کونسل کے 12 جولائی کو ہونے والے اجلاس میں کیا گیا تھا جس میں اٹارنی جنرل نے کونسل کو ججز کے خلاف حکومتی ریفرنس کی وجوہات کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔
جسٹس قاضی فائز کو بدھ کو موصول ہونے والے نوٹسز میں 15 روز کے اندر جواب داخل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے جبکہ ایس جے سی کی آئندہ سماعت بھی 14 روز کی مدت ختم ہونے کے بعد متوقع ہے۔
واضح رہے کہ وحید شہزاد بٹ نامی شہری کی جانب سے آئین کی دفعہ 209 کے تحت دائر ریفرنس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر صدر مملکت کو خط لکھ کر ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ صدر کو ارسال کیے گئے اپنے دوسرے خط میں جسٹس قاضی فائز نے استفسار کیا تھا کہ آیا وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اپنے ٹیکس ریٹرنز میں اپنی بیویوں اور بچوں کی ملکیت میں موجود جائیدادوں کی تفصیلات فراہم کی ہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ اگر وزیراعظم نے خود ایسا نہیں کیا تھا تو انہیں صدر کو ریفرنس دائر کرنے کی تجویز نہیں دینی چاہیے تھی۔
اپنے خط میں انہوں نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا تھا کہ کونسل کی جانب سے کوئی نوٹس جاری ہونے سے قبل ہی منصفانہ سماعت کے اصولوں اور ججز کو حاصل آئینی تحفظ کی خلاف ورزی کی گئی۔
انہوں نے شکوہ کیا تھا کہ حکومت کے ارکان کی جانب سے آدھے ادھورے سچ کو بنیاد بنا کر انہیں اور ان کے خاندان کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو کہ انتہائی پریشان کن ہے۔
خط میں کہا گیا تھا کہ اگر مقصد نجی زندگیوں میں مداخلت کرنا اور رازداری کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سازش کرنا ہے تو پورے سچ کو کیوں چھپایا گیا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ حکومت کی جانب سے تفتیش کرنے والے لازمی طور پر جانتے ہوں گے کہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ان کے دونوں بچوں نے لندن میں کام کیا اور حکومتی افراد کی جانب سے 3 جائیدادوں کی جس تفصیل کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا وہاں وہ اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ رہائش پذیر ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جائیدادیں ان کے نام پر ہیں جو اس کے مالک ہیں اور ملکیت چھپانے کی کوشش کبھی نہیں کی گئی، جائیدادیں کسی ٹرسٹ کے ماتحت نہیں نہ ہی کبھی کوئی آف شور کمپنی قائم کی گئی۔
خط میں کہا گیا تھا کہ جج پر اپنے فنانسز / فنانشلز ظاہر کرنا لازمی نہیں لیکن انہوں نے رضاکارانہ طور پر ایسا کیا کیونکہ ان کی دیانت داری پر شک ظاہر کیا گیا۔
اس میں مزید کہا گیا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پاکستان کے ٹیکس نظام کے تابعدار ہیں اور کبھی بھی ان کی جائیدادوں یا اہلیہ اور بچوں سے متعلق کوئی نوٹس موصول نہیں ہوا۔
خط میں کہا گیا کہ جب سے انہوں نے یہ پیشہ اختیار کیا وہ انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں، ان کے خلاف انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ کی کوئی شکایت موجود نہیں نہ ہی ان کے خلاف انکم ٹیکس کی کوئی کارروائی جاری ہے۔
اسی طرح دوسرے ریفرنس میں استدعا کی گئی کہ جج یہ خطوط لکھ کر اور مبینہ طور پر انہیں میڈیا میں شیئر کر کے صریح غلطی کے مرتکب ہوئے ہیں لہٰذا انہیں سپریم جوڈیشل کونسل کی تجاویز پر ہٹا دیا جائے۔
دوسرے ریفرنس میں الزام لگایا گیا کہ اپنے ذاتی خیالات اور آرا کا عوامی فورم پر اظہار کر کے جج نے عدلیہ کا وقار مجروح کیا، ملک کے وزیراعظم کو نشانہ بنایا اور اس معاملے پر تنقید کے لیے دھمکی آمیز زبان کا استعمال کیا۔
ریفرنس میں مزید کہا گیا کہ عوامی سطح پر الزامات عائد کر کےجسٹس قاضی فائز ججز کے ضابطہ اخلاق کی متعدد دفعات کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے۔