ہپناٹزم ؛ ترغیب ایک انسانی چور دروازہ!!!
انسانی ذہنوں کی ارادی قوت کو اپنی مرضی کے مطابق ردعمل میں تبدیل کرنے والی صلاحیت کے بل بوتے بہت سے لوگوں نے دنیا پر حکمرانی کی ہے جبکہ آج کے میڈیا کا ہتھیا ر بھی یہی قوت ہے
تحریر:محمد الطاف گوہر
انسانیت کی نہج کبھی بھی ایک ڈگر پر گامزن نہیں رہی بلکہ تغیر و تبدل کا عمل دخل ہر لحظہ نظر آتا ہے جبکہ فطرت بھی کچھ اسی تقاضے کو مد نظر رکھتے ہوئے مہربان نظر آتی ہے کہ اگر ایک طرف دن ہے تو دوسری طرف رات، ایک طرف دھوپ ہے تو دوسری طرف چھاوں ، ایک طرف آفتاب ہے تو دوسری طرف مہتاب، ایک طرف آہ ہے تو دوسری طرف قاہ حتیٰ کہ ایک طرف اگر قربتوں پر وصل کی مہربانی ہے تو دوسرے ہی لمحے فراق کا قہر۔
ماحول ، آب و ہوا ، بلندی و پستی ہر حال میں نہ صرف انسان پر اپنے اثرات چھوڑتے ہیں بلکہ اسکے چاہتے نہ چاہتے لحظہ بہ لحظہ اپنا تاثر قائم رکھے ہوئے ہیں۔ تبدیلی کا عنصر افراد پر کیونکر اثر انداز ہوتا ہے ؟ ایک دلچسپ اور چونکا دینے والا انکشاف ہے کیونکہ یکسانیت کے گرداب سے دوری ایک صحتمند انسانی فطری تقاضا ہے جبکہ تبدیلی کے محرکات جابجا موجود ہیں جسکے باعث اسے پھلنے پھولنے کا موقع غیر ارادی طور پر بھی ملتا رہتا ہے۔لہذا، ا گر افراد کی تربیت نہ کی جائے تو کیا ایک بچہ چلنا ، بولنا اور کھانا پینا کیسے سیکھ سکتا ہے، حالانکہ تمام محرکات موجود ہیں؟
بظاہر زندگی کا کاروبار بطور ردِعمل نظر آتا ہے جو بعد میں انسانی رویوں کی صورت اختیار کر لیتا ہے جبکہ تربیت ایک ایسا عنصر ہے جو جبلی تقاضوں سے بالاتر ا پنے نقوش چھوڑتا چلا جاتا ہے جسکے باعث مثبت تبدیلی جنم لیتی ہے ۔ یہ ایک ایسا ہی عمل ہے جیسے جنگلات کے مقابلے میں باغات ا گائے جائیں ، چاہے جنگلات کتنے ہی بھلے معلوم کیوں نہ ہو جو حسن انسانی ہاتھوں کے ترتیب دیئے باغات میں ہے وہ جنگلات میں کہاں؟ اکتسابی عمل ، تربیت کا اعجاز ہے کہ ایک ہی جیسے افراد دنیا کے مختلف شعبوں کے بانی و سربراہ ہیں حالانکہ انکی طبعی حالت ایک جیسی ہے ، اگر ایک ڈاکٹر ہے تو دوسرا انجنیئر ، ایک آرٹسٹ ہے تو دوسرا پہلوان، جبکہ کوئی گلوکار ہے تو کوئی موسیقار، کوئی کمپیوٹر پروگرامر ہے تو کوئی کمپیوٹر انجنیئر وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ یہ تربیتِ اختیاری کا شاخسانہ ہے کہ ایک جیسے افراد مختلف شعبہ زندگی پر حکومت کر رہے ہیں۔
مگر ایک انکشاف جو کہ اس متن کو آگے بڑھاتا ہے کہ افراد کی ایک غیر ارادی ، غیر اختیاری تربیت بھی ہو رہی ہے جسکے اہداف انسانی چور دروازے سے پورے ہوتے ہیں!!! ۔۔۔۔جی ہاں۔۔۔ یہ ایسا چور دروازہ ہے جسکا کہ بعض اوقات متاثر ہونے والے کو بھی علم نہیں ہوتا ، وہ ایک سلسلہ ہے تسلسل کے ساتھ ترغیب کا یعنی مسلسل ترغیب کا عمل ایک ایسا جادو اثر نتائج کا حامل عنصر ہے کہ جو تیر کبھی خطا نہیں جاتا۔ کیونکہ جو ہپناٹزم کے ماہر ہیں وہ اپنی ترغیب کے ہتھیار سے وہ جادو اثر نتائج حاصل کرتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔ اسی دروازے کے سہارے وہ لاکھوں کے مجمعے کو مبہوت کر دیتے ہیں کہ جسکا جواب نہیں۔ اسی کے بل بوتے وہ لوگوں کے اندر روابط تلاش کرتے ہیں اور اس زبان کو اچھی طرح سے سمجھتے ہیں جو اپنے راستے میں آنے والی کسی رکاوٹ کو آسانی سے عبور کر لیتی ہے ، لہذا انکی معاملات پر گرفت اور کامیابی کا گراف ہمیشہ آسمان کی بلندیوں پر رہتا ہے۔
انسانی ذہنوں کی ارادی قوت کو اپنی مرضی کے مطابق ردعمل میں تبدیل کرنے والی صلاحیت کے بل بوتے بہت سے لوگوں نے دنیا پر حکمرانی کی ہے جبکہ آج کے میڈیا کا ہتھیا ر بھی یہی قوت ہے۔ اگر ایک طرف کسی بھی خوبصورت انداز میں فلمائی گئی اشتہاری فلم، ایڈورٹائزمنٹ اپنا کام اس وقت کرتی ہے کہ جب آپ خریداری کرتے وقت کسی بھی چیز کو غیر ارادی طور پر چن لیتے ہیں تو دوسری طرف خوبصورت انداز میں فلمائے گئے ڈرامے ہیں جوکہ کسی بھی تہذیب کے زہر آلودہ رسم و رواج کو اسباق کی شکل دے کر اقساط میں فلم بند کئے جاتے ہیں اور اپنی رنگینی کے باعث دلربا ہوتے ہوئے روزمرہ کا حصہ بن جاتے ہیں جبکہ تیسری طرف ایک مثالی صورت کو کسی نفرت کے دوش چلانے کی کاوش نظر آتی ہے کہ ایک ایسا تاثر ابھرے جو دوسروں کو اس طرف راغب ہونے سے روکے۔
بہرکیف ، ایک انتہائی میسر آلہ جسکے اگر فوائد گنوائے جائیں تو ممکن نہیں ایک نشست میں بات مکمل ہو البتہ چیدہ چیدہ اہمیت کی حامل خصوصیات کا تذکرہ ضروری ہے۔ معاملات ،ماحول، اشتہارات ، دلچسپی کی حامل گفتگو اور دوستوں کے حلقے وغیرہ ایسے عناصر ہیں کہ جنکے اثرات افراد بغیر کسی مزاحمت کے براہ راست قبول کرتے ہیں اور انہی کی بدولت جو ردعمل ظاہر ہوتا ہے وہ غیر ارادی کیفیت کا حامل ہوتا ہے ۔ ترغیب کے معاملات ہمیں زندگی میں جا بجا نظر آتے ہیں مگر شخصی تربیت کا تقاضا ہے کہ آگاہی کے عمل سے گزرا جائے تاکہ چور دروازے سے ڈاکہ ڈالنے والے سے نبٹا جا سکے۔ جبکہ تنویمی عمل کی ایک جداگانہ حیثیت ہے کہ انسانی حواس کو تقریباً معطل کرکے کسی کے لاشعوری عمل یا غیر ارادی فعل کو قابو کرنا ، ایسے معاملات بھی سلسلہ زندگی میں بغور مشاہدہ کرنے سے دیکھے جا سکتے ہیں۔اگر کسی کو مسلسل برا بھلا کہا جائے تو یہ بھی اسی طرح ہے نتائج پیدا کرے گا اور اگر اچھی ترا غیب سے کسی کی زندگی سنوارنی ہو تو یہ بھی ممکن ہے ۔ جو والدین بچوں کا برا بھلا کہتے ہیں اسکے اثرات کا انکو بخوبی اندازہ ہو گا ، اگر کسی کو اچھائی کی طرف مائل کرنا ہوتو یہی آلہ انتہائی میسر ہوگا۔
ایک تحقیق کے مطابق انسانی جسم کی بیماریاں بھی ترغیب کے اثرات بخوبی قبول کرتی ہیں اوررفتہ رفتہ کوچ کر جاتی ہیں ، ماضی میں خود تنویمی کے عمل سے بے حساب لاعلاج امراض چھٹکارا حاصل کیا گیا، حتیٰ کہ کینسر جیسا موذی مرض بھی ترغیب کی زبان سمجھتاہے جسکی بہت سی مثالیں ماضی کا حصہ بن چکی ہیں( ایم کوئے کے تجربات)۔ اسی طرح ایک اچھی تحریر ایک اچھی ترغیب ہے تو ایک بری تحریر ایک جسکا اندازہ کسی بھی موضوع پر ایک مکمل کتاب پڑہنے کے بعد بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ شخصیت پر اس نے کیا اثرات چھوڑے ہیں.
کالج دور میں ایک ہم جماعت نے ہپناٹزم کا تذکرہ کیا اور بتایا کہ بازار سے ایک کتاب خریدی ہے اوراس میں لکھی مشق کر رہا ہوں ۔ ایک سفید کاغذ پرایک سیاہ نقطہ لگا کر مسلسل دیکھتا ہوں اور اب حال یہ ہے دیکھتے دیکھتے وہ نقطہ دھندلا جاتا ہے مگر مجھے معلوم نہیں اسکے بعد کیا کرنا ہے ، تو مجھے اسکی حالت پر ہنسی آئی کہ نیم حکیم اور خطرہ جان ، کس کام کے پیچھے پڑ گئے ہو؟ بازاری قسم کی کتابیں پڑھنے کے بعد کیا عقل کے پردے کھل جائیں گے یا پھرکسی قسم کا کوئی نقصان کر بیٹھیں گے ؟
اسطرح کی کسی بھی مشق کا مقصد صرف ایک کیفیت پیدا کرنے سے بڑھ کر نہیں ، کیونکہ ایک نیم خوابی کی کیفیت یہ دراصل ایک ایسا شعوری مزاحمت سے پاک ماحول ہے کی ترغیب فوراً اپنا کام کرتی ہے۔ لہذا کسی بھی قسم کی تکرار یا بار بار ترغیب غنودگی جیسی کیفیت پیدا کرتی ہے کہ انسانی ذہن کسی بھی کمپیوٹر کیطرح پروگرام ہونے کیلئے تیارہو جاتا ہے کیونکہ اس طرح سے شعوری گرفت کم ہو جاتی ہے۔ مگر ایسی مشقیں جن کے اثرات اتنی اہمیت کے حامل ہوں کسی بھی طرح سے دورخی تلوار سے کم نہیں ۔لہذا نوجوانوں کو جو اسے شوقیہ سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں ان عوامل میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ آج اگر معاملات ِ زندگی پر سواری کرنا مقصود ہو تو دیدہ دل وا کیجئے اور چند ایک مثبت ترغیبات کو روزمرہ میں شامل کر لیجئے پھر دیکھیں کہ کیا گل کھلاتی ہیں جبکہ انکا اعادہ دن میں ایک بار بھی کافی ہے ۔ یاد رکھیں عبادت کی تراغیب اللہ کے ذکر کے حلقے ہیں اور مساجد کے ماحول ہیں ، اسی طرح صحت کی تراغیب ہسپتالوں کے ماحول نہیں بلکہ کھیل کے میدان اور آبشاریں اور باغات ہیں ۔
another good post!
I need your opinion about one of my friend!
sure!