کوئی ہے جو سڑک پار کرا دے؟

کوئی ہے جو سڑک پار کرا دے؟

پاکستانی عوام کی آواز ہے کہ ہمیں دہشت گردی اور مہنگائی کے بحران کی سڑک پار کرا دو اور سہو لتوں اور امن کی منزل تک پہنچا دو

ہمارے آس پاس لاتعداد ایسے ہی سوالوں سے بھرے خاموش چہرے امید لگائے ہمارے رسپانس, جواب کے منتظر ہیں، جبکہ ہماری بے حسی کا یہ عالم ہے کہ سب کچھ دیکھتے ، جانتے بجھتے ہوئے بھی بالکل پرواہ نہیں کرتے۔ معاملات سے پہلو تہی کرتے ہیں۔غرض مند کی مجبوری کو سمجھنا تو درکنار ، اسے بھکاری سے بھی بد تر خیال کرتے ہیں

مزہ تو پھر ہے کہ بندہ اپنی زندگی کے سارے مراحل کامیابی کے ساتھ طے کرے اور مساوات ، یکجہتی اور بھائی چارے کو اہمیت دے۔ جبکہ تمام مذاہب تو اجتماعیت اور بھائی چارے کی دعوت دیتے ہیں اور دوسروں کے حقوق کے تقدس کو شامل حال رکھتے ہیں۔

تحریر:محمدالطاف گوہر

سڑک کے کنارے کوئی انتظار رہا ہے کہ ” کوئی ہے جو سڑ ک پار کرا دے؟” مگر کونسی سڑک؟ اور کون سوال کر رہا ہے کہ مجھے سڑک پار کرا دو؟ کیا پھر کوئی بھٹکا مسافر کسی رہبر کی راہ تک رہا ہے یا پھر کوئی اندھا سڑک کنارے اپنی سفید لاٹھی ٹکائے کسی کی انتظار میں ہے؟
نہیں بلکہ
* غریب کہتا ہے کہ مجھے غربت کی سڑک پار کرا دو اور خوشحالی کی منزل تک پہنچا دو
* بیمار کہتا ہے کہ مجھے بیماری کی سڑک پار کر اکے صحت کی منزل تک پہنچا دو
* مظلوم کہتا ہے کہ مجھے ظلم سڑک کی پار کرا دو اور انصاف کی منزل تک پہنچا دو
* بے روزگار سوال کرتا ہے کہ مجھے بے روزگاری کی سڑک پا کرا دو اور روزگار کی منزل تک پہنچا دو
* نوجوان سوال کرتا ہے کہ مجھے عظمت کے خوابوں کی سڑک پار کرا کے ایک شاندار مستقبل کی منزل تک پہنچا دو
* بوڑھا سوال کرتا ہے کہ مجھے اذیّتوں اور کمزوریوں کی سڑک پار کرا دو اور دوبارہ جوانی تک پہنچا دو
( جو جا کر نہ آئے جوانی دیکھی ۔۔ جو آکر نہ جائے بڑھاپا دیکھا)
* گناہوں میں ڈوبا ہوا سوال کرتا ہے کہ کوئی ہے جو مجھے برائی کی سڑک پار کرا دے اور خیر کی منزل تک پہنچا دے
* عاشق کہتا ہے کہ مجھے فراق کی سڑک پار کرا دو اور وصل کی منزل تک پہنچا دو
* پاکستانی عوام کی آواز ہے کہ ہمیں دہشت گردی اور مہنگائی کے بحران کی سڑک پار کرا دو اور  سہو لتوں اور امن کی منزل تک پہنچا دو
* قوم کہتی ہے کہ ہمیں سیاسی یکسانیت کی سڑک پار کرا دو اور کسی لیڈر سے ملا دو
* قاری ایک رائٹر سے سوال کرتا ہے کہ کوئی ہے جو لا یعنی ، خیالی نظریات اور فلاسفی کی سڑک پار کرا دے اور عملی زندگی کی سچائیوں سے ہمکنار کرا دے ؛
” اگر دنیا کو ایک معصوم چڑیا کی نظر سے دیکھا جائے جس کے
گھونسلے میں پڑے ہوئے بچے ایک سانپ کھا رہا ہے تو دنیا ہمیں
کتنی ظالم دکھائی دے گی مگر اسی لمحے اِس بھوکے سانپ
کی نظر سے دنیا کو دیکھا جائے تو دنیا کتنی مہربان نظر آئے گی
کہ بھوکے کو پیٹ بھر کر کھانا ملا ہے مگر ہمیں اِن نقطہ نظر سے کیا لینا دینا؟ ”
کیا ہمیں معلوم ہے کہ یہ سوال کرنے والے ہم سے کس انداز میں سوال کرتے ہیں؟ کبھی شکوہ زباں پہ ہوتا ہے اور کبھی چہرے سے عیاں ہوتا ہے مگر کوئی سمجھنے کی کوشش تو کرے!!!
ہمارے آس پاس لاتعداد ایسے ہی سوالوں سے بھرے خاموش چہرے امید لگائے ہمارے رسپانس, جواب کے منتظر ہیں، جبکہ ہماری بے حسی کا یہ عالم ہے کہ سب کچھ دیکھتے ، جانتے بجھتے ہوئے بھی بالکل پرواہ نہیں کرتے۔ معاملات سے پہلو تہی کرتے ہیں۔غرض مند کی مجبوری کو سمجھنا تو درکنار ، اسے بھکاری سے بھی بد تر خیال کرتے ہیں۔ غریب رشتہ دار اور دوست احباب کی صرف زبانی کلامی خیریت دریافت نہ کریں بلکہ اگر صاحب استطاعت ہیں تو انکی مدد کریں،اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا پھر ہی ہوتا ہے کہ ہم دوسروں کو ان میں شامل کریں ؟
کیا خیال ہے آپکا ؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال کرنے والے کو کیسے پہچانا جائے اور اسکی کیسے مدد کی جائے کیونکہ متوسط طبقہ ہی سب سے زیادہ معاملات کی زد میں رہتا ہے مگر یہ طبقہ سفید پوشی کا دامن نہیں چھوڑتا اور ؟۔۔۔۔۔
جی یہی تو جاننے کی کوشش ہے کہ ہر کسی کے معاملے کو ہر کوئی کس طور حل کر سکتا ہے جبکہ ہر مسلہ کا حل اسی دنیا میں موجود ہے ، ایک امیر آدمی اگر صرف اپنے پالتو جانور پر لاکھوں خرچ کر سکتا ہے تو کیا کسی غریب کی چھوٹی سی مشکل حل نہیں کر سکتا؟
عیش و عشرت کی ایک رات کا بجٹ کتنے زخموں پر مرہم رکھ سکتا ہے؟
ایک برس پہلے ایک فرد کو میں نے دیکھا جو کہ بڑھاپے کی عمر میں کسی بیماری کا شکار تھا وہ دونوں ہاتھ آسمان کیطرف بلند کرکے معافی مانگ رہا تھا اور ڈاکٹر سے التماس کر رہا تھا کہ جہلم میں میری میلوں کے حساب سے زمین ہے جو آپ لے لیں اور ہسپتال بنا لیں مگر مجھے اس بیماری سے نجات دلا دیں ، مگر کچھ حاصل نہیں اور کسی نا معلوم بیماری کا شکار چل بسا!!!!
ہمارے ارد گرد چلتے پھرتے عبر ت کے نشان موجود ہیں مگر ان سے بھی سبق نہیں سیکھتے !!!
"اس خطہء زمین پہ ہم روزانہ اپنی اپنی ذمہ داریوں کا بوجھ لادے ہوے
صبح کو آتے ہیں ، دن گزارتے ہیں اور رات کو واپس چلے جاتے ہیں
کہاں سے آتے ہیں اور کہاں چلے جاتے ہیں؟ کتنی عجیب بات ہے
کہ ایک مختصر سے لمحے کو رہنے کی زندگی کیلئے شاندار محلات تعمیر
کرتے ہیں اور شانِ طولانی دیکھئے کہ انا (خود پسندی) کی ملمع کاری
بھی سمندر میں اٹھتی ہوئی لہر کی طرح ہے جو اپنے ہی شور میں یہ
بھول گئی ہے کہ آخر اِسے پھر واپس اِسی سمندر میں مل جانا ہے
تو پھر اتنا تلاطم کیسا؟ اور اتنا بپھرنا بھی کیا؟آخر سر اٹھاتی ہوئی
موجیں (لہریں) ہی کناروں سے اپنا سر پھوڑ تی ہیں
وگرنہ گہرے سمندر تو از لوں سے خاموش اور ساکن رہے ہیں۔”
یہی لوگ ہوتے ہیں جب تندرست ہوتے ہیں تو ان کی گردنیں تنی ہوتی ہیں اور عام مخلوق انہیں کیڑے مکوڑے نظر آتی ہے اور جب خود کسی مصیبت میں مبتلا ہوتے ہیں تب انہیں احساس ہوتا ہے۔ اور اگر یہی لوگ مستقل طور پہ کسی ایک غریب خاندان کی کفالت کا ذمہ ا ٹھالیں تو یقین کیجئے کہ پاکستان کے حالات بدل جائیں۔
مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عبرت کے نشانوں کو توہم روزانہ دیکھتے ہیں !
ایک صاحب کو دیکھتا ہوں کہ انکا سارا جسم جل چکا ہے اور لنگڑا کر چلتے ہیں ابھی ادھیڑ عمر شروع ہوئی ہے تو میں نے پوچھا کیا ہوا؟تو جناب نے فرمایا کہ نوجوانی میں عشق کر بیٹھا اور حالت یہ تھی کہ معشوق نے دھوکا دیا تو خود کشی کی کوشش کی مگر بچ گیا اور اب پچھتاتا ہوں کہ کیا کر بیٹھا مگر اب کیا فائدہ ، اگر کسی نے مجھے اس وقت سمجھایا ہوتا تو آج اس حالت کو نہ پہنچتا!!
اگر ایسے لوگوں کو کسی نے راہنمائی کی سڑک پار کرا دیا ہوتا تو کیا کسی اچھے حالات میں نہ ہوتا؟
بالکل اچھے حالات میں ہوتا!!!
ہم لوگ اجتماعی بے حسی کا شکار ہو چکے ہیں۔ جب بھی کوئی ایسی بات ہوتی ہے تو ہماری سوچ یہی ہوتی ہے کہ ، دفعہ کرو کیا ضرورت ہے پرائے پھڈوں میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے؟۔۔۔۔
ایک دوست عدنان صاحب نے اپنا ایک سچا واقعہ سنایا;
"ایک دفعہ ہم کچھ نیٹ فرینڈز جنڈانوالہ گئے (وسیم اور خلیل بھائی سے ملنے) وہیں ہمارا رابطہ ایک اور نیٹ فرینڈ سے ہوگیا جو کہ غالباً سرائے عالمگیر میں رہتا تھا تو جب ہم نے اسے بتایا کہ ہم جنڈانوالہ میں ہیں تو وہ بھی آنے کو تیار ہوگیا اب ہم تمام دوستوں نے اس کو کھاریاں اڈا سے receive کرنے کا پروگرام بنایا اور وسیم بھائی کی گاڑی میں کھار یاں بس سٹاپ کے لئے روانہ ہوگئے۔ چونکہ وہ دوست مجھے نہیں جانتا تھا اس لئے میرے دماغ میں شرارت آئی کہ کیوں نہ اس کو بکرا بنایا جائے۔ چونکہ مجھے وہ بھائی شکل سے نہیں جانتا تھا سو میں نے اس سے شرارت کرنے کا فیصلہ کیا۔ اب جونہی ہم کھاریاں بس سٹاپ پہ پہنچے تو وہ دوست وہاں انتظار کررہا تھا باقی ساتھیوں نے مجھے اشارے سے بتادیا کہ ہمارا شکار یعنی کہ ہمارا دوست وہ کھڑا ہے۔ وہ شکل سے دیکھنے میں کافی معقول بندہ ہے اور باریش ہے۔ اب میں اس کے پاس گیا میں نے جا کر اس کا نام پوچھا جونہی اس نے اپنا نام بتایا میں نے اس سے کہا کہ میں پنجاب پولیس کی سپیشل برانچ سے ہوں اور آپ کے خلاف شکایت ہے کہ آپ سائبر کرائمز میں ملوث ہو آپ کو میرے ساتھ چلنا ہوگا۔
اب جب اس نے یہ بات سنی تو بھاگنے لگا لیکن میں نے اس کو دبوچ لیا اور اس بندے نے وہاں شور مچانا شروع کردیا کہ بچاﺅ بچاﺅ لیکن اللہ معاف کرے وہاں پہ سینکڑوں افراد آ جا رہے تھے لیکن کسی کے کان پہ جوں تک نہیں رینگی”
اب ایسے حالات میں آپ خود اندازہ کرلیں کہ ہم کس قدر بے حس ہو چکے ہیں اور اس کی ایک اور وجہ بھی ہے کہ لوگوں کے پاس وقت کی کمی ہے اور ہر کوئی جلدی میں ہوتا ہے اور اس طرح کے واقعات میں ملوث ہونا پسند ہی نہیں کرتے لوگ کہ خوامخواہ وقت کا ضیا ہے, اللہ نہ کرے اگر ایسا ہی واقعہ ہمارے کسی دوست یا بھائی یا کسی فیملی ممبر کے ساتھ ہوجائے اور ہم خاموشی سے وہاں سے گزر جائیں ؟
آج کے دور کی تیز رفتار زندگی میں تو یہ بات سولہ آنے درست ہے ، ہمارے پاس تو بیمار ہونے کے لئے بھی ٹائم نہیں ، ساری زندگی سمیٹنے کے دوڑ اور بڑھاپے میں جب عقل آتی ہے تو ملال۔۔۔ مگر کس کام کا؟
بطور مسلم ہماری بھی ذمہ داریاں ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حقوق کی معافی تو اللہ تعالیٰ دے دیں گے مگر جب بندوں کے حق مارے ہونگے ان کو کیا جواب دیں گے ؟ کیونکہ حقوق العباد کا معاملہ تو بندوں کے درمیان ہے ،اور مزہ تو پھر ہے کہ بندہ اپنی زندگی کے سارے مراحل کامیابی کے ساتھ طے کرے اور مساوات ، یکجہتی اور بھائی چارے کو اہمیت دے۔ جبکہ تمام مذاہب تو اجتماعیت اور بھائی چارے کی دعوت دیتے ہیں اور دوسروں کے حقوق کے تقدس کو شامل حال رکھتے ہیں۔

آجاللہپاکپاکستانجوابحالدوستزندگیصرفعقلعلوممحمدمعلومنظرنوجوان
Comments (0)
Add Comment