بسم اللہ الرحمن الرحیم
اپریل فول او ر امت مسلمہ
تحریر: عبدالجلیل منشی ۔ کویت
یکم اپریل کی آمد آمد ہے دنیا بھر میں جھوٹ کے نئے ریکارڈ قائم کرنے اور عوام الناس کو نت نئے جھوٹ بول کر اپنے مذاق کا نشانہ بنانے کی تیاریاں اپنے عروج پر ہیں لوگ سوچ رہے ہیں کہ گزشتہ سال کے مقابلے میںاس بار ایسا شاندار جھوٹ گھڑا جائے کہ اس کی مثال ملنا مشکل ہوجائے اور شکار اس مذاق کی تاب نہ لاکر چاروں خانے چت ہوجائےشکاریوں نے اپنے اپنے شکار کو بھی تاک کر رکھا ہوگا کہ اس بار فلاں فلاں کو ایسے جھوٹ کا نشانہ بنانا ہے کہ وہ بے ساختہ اس جھوٹ پر آنکھیں بند کر کے یقین کرلےاور پھر اس جھوٹ کے آشکارہ ہونے پر شکار کا جو حال ہوگا اسکے چرچے کی گونج کی بازگشت دوستوں کی محفلوں کواگلے سال آنے والے یوم تکذیب تک کشت وزعفران بناتی رہے گی
بات ہو رہی ہے اپریل فول منانے کی روایت کی جسے بدقسمتی سے اغیار کی اندہی تقلید میں مسلمانوں نے بھی اپنا لیا ہےاور ہر سال نہایت ہی جوش وخروش اور خشوع و خضو ع کے ساتھ نہایت اہتمام کے ساتھ مناتے ہیں اور پھر اپنی کامیابیوںپر فخرکرتے ہوئے اور اپنے شکار کی بے بسی کو یاد کرکے اپنی محفلوں کو گرماتے رہتے ہیں
نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال قبل اللہ کے عطا کردہ علم کی روشنی میںآنے والے ایام کے بارے میں جو پیشنگوئیاںکیں تھیں وقتا فوقتا انکا ظہور ہورہا ہے اور ہوتا رہے گا یہاں تک کہ اللہ کے حکم سے قیا مت برپا ہو جائیگی موجودہ دور میں امتِ مسلمہ میں جو فتنے پیدا ہورہے ہیں اور جو مستقبل قریب اور بعید میں جنم لینگے انکے متعلق آقائے نامدا ر صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین کو آگا فرما دیا تھا؛آنے والے فتنوں کے بارے میں واردہ بےشمار احادیث میں سے ایک حدیث کا مفہوم یہ بھی ہے کہ ایک وقت ایسا بھی آئےگا کہ میری امت کے گروہ اللہ کے دشمنوں (یہود و نصاری) کی پیروی کرتے ہوئے انکے مذہبی تہواروں اور انکے رسوم ورواج کواپنا لینگے۔
آج اگر ہم اپنے ارد گرد اور خصوصا مسلم معاشرے پر اک طائرانہ نظر ڈالیں توان بےشمار فتنوںکے واضح آثار اور اثرات ہمیں مسلم امہ کی صفوف میں نظر آئیںگے جنکی نشاندہی پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی احادیث مبارکہ میں کردی ہیں جس میںدورِ حاضر کے فتنوں میں سے ایک ویلنٹائن ڈے کا فتنہ ہے جوہر سال فروری کی ۴۱ تاریخ کو دنیا میں چہار سو منایا جاتا ہے اور دوسرا فتنہ جو مسلم امہ کی نوجوان نسل کے اخلاق کی پامالی کا سبب بن رہا ہے وہ ۔اپریل فول۔ کے نام سے جانا جاتا جسے وہ یہود و نصاری کی پیروی کرتے ہوئے اورجھوٹ بول کر اپنے احباب واقرباءکو بے وقوف بنانے کے لئے مناتے ہیں
کچھ لوگ عادتا جھو ٹ بولتے ہیں ، کچھ مصلحتا اور کچھ شوقیہ۔ یہ جانے بغیر کہ دروغ گوئی کبیرہ گناہ ہے اور اللہ رب العزت نے جھوٹوں پر اپنی لعنت فرمائی ہے اسی سے مسلمانوں کو اندازہ لگالینا چاہئے کہ جھوٹ بولنا کتنا بڑا گناہ ہے اور یہ عمل اللہ کے نذدیک کتنا ناپسندیدہ ہے کہ اللہ نے جھوٹوں پر اپنی لعنت فرمائی ہے اور جس شخص پر اللہ لعنت فرما دیں اور پھر اسے توبہ کرنا نصیب نہ ہو تو قارئین کرام اندازہ کر سکتے ہیں کہ ایسے شخص کی دنیا اور آخرت دونوں برباد ہوجائیں گی
جس طرح شراب ام الخبائث ہے اسی طرح جھوٹ تمام برائیوں کی اساس اور جڑ ہےجھوٹ بولنے والا شخص ہر قسم کی معاشرتی اور اخلاقی برائیوں میں بڑی آسانی سے مبتلہ ہو سکتا ہے رفتہ رفتہ جھوٹ بولنے والے کی عادت اتنی پختہ ہوجاتی ہے کہ پھراسے اس بات کی نہ فکر ہوتی ہے نہ یہ احساس کہ اس کی دروغ گوئی سے کسی شخص کو کتنابڑا سماجی،اخلاقی، معاشی اور معاشرتی دھچکا لگ سکتا ہے۔
ایک شخص ایک بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ حضرت میں بہت گناہگار شخص ہوں ۔میں جھوٹ بولتا ہوں، چوری کرتا ہوں ، ڈاکے ڈالتاہوں، شراب پیتا ہوں زنا کا بھی مرتکب ہوتا ہوں ، طوائفوں کے بالاخانوں پر بھی جاتا ہوں اور اسکے علاوہ جو بھی گناہ کا کام ہے میں وہ انجام دیتا ہوں، مگر میں اب ان گناہوں سے بچنا چاہتا ہوں اور نیکی کی راہ پر چلنا چاہتا ہوں آپ میری راہنمائی فرمائیں۔ ان بزرگ نے اس سے کہا کہ تم صرف میری ایک بات مانو اور اس پر سختی سے عمل کرو تو انشاءاللہ تم سے ساری برائیاں چھوٹ جائیں گی اور تم نیکی کی راہ پر گامزن ہوجاو گے۔ اس نے بزرگ کی با ت پر عمل کرنے کا وعدہ کیا تو انہوں نے فرمایا کہ ابتداءمیں تم جھوٹ بولنے سے مکمل پرہیز اختیار کرو اور کسی بھی حال میں جھوٹ ہر گز ہر گزمت بولنا۔ اب تم ایک ہفتے کے بعد میرے پاس آنا اور جو کچھ میں تم سے پوچھوں وہ سچ سچ بتانا۔ یہ وعدہ لے کر وہ شخص ان بزرگ سے رخصت ہوتا ہے
رات ہوتی ہے تو وہ حسب عادت تیار ہوتا ہے تاکہ کسی کے گھر چوری کرسکے یا کسی مسافر کو لوٹ سکے۔ ضروری اشیاءلے کر جیسے ہی وہ گھر سے باہر قدم رکھنے لگتا ہے اسے یہ خیال آتا ہے کہ اگر ایک ہفتے کے بعد میں بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوتا ہوں اور وہ مجھ سے یہ پوچھتے ہیں کہ کیا تم نے اس ہفتے کوئی چوری یا ڈکیتی کی واردات کی تو میں انہیں کیا جواب دونگا کیامیں یہ کہوںگا کہ ہاں میں نے چوری چکاری کی تھی اگر اقرار کرتا ہوںتو یہ انکے دربار میں میرے لئے بڑی شرمندگی کی بات ہوگی اور اگر جھوٹ بولتا ہوں تو وعدہ خلافی کامرتکب ہوتاہوں، لہذہ اس نے چوری کا ارادہ ترک کردیا۔
رات بھر وہ بےقرار رہا اور قرار کو اس نے شراب کے جام میںتلاش کرنے کی کوشش کی مگر جیسے ہی اس نے شراب کا گھونٹ لینا چاہا اسے خیال آیا کہ اگر بزرگ نے یہ معلوم کیا کہ تم نے ہفتے بھرمیں شراب پی تھی تو میرے لئے انکے روبرو اس بات کا اقرار کرناباعث شرمندگی ہوگا اور جھوٹ نہ بولنے کا انہوں نے مجھ سے پختہ وعدہ لے لیا ہے لہذہ اس رات کے بعد اس نے شراب نوشی سے بھی توبہ کرلیدوسری شب اس نے چاہا کہ حسین اور مہوش نازنینوں کے حرم سراو ںکی خیرہ کن دنیا میں جاکراپنے آپ کو رقص وسرور کی بدمستیوں میں غرق کرلے اور انکے پر شباب جسموں کی مہک سے مشام جاں کو معطر کرے خوبصورت لباس پہن کر جب وہ کوچہ جاناں کی گلیوں میں پہونچا تو اسے یہ خیال آیا کہ اگر مجھ سے اس بارے میں پوچھا گیا تو میں انہیں کیا جواب دونگا۔ یقینا میں انہیں یہ نہیں بتا پاو نگا کہ میں اس دوران بھونرے کی مانند ڈال ڈال سے پھولوں کا رس چراتا رہا ہوں، لہذہ وہ بازار حسن وعشق کے دروبام کوہمیشہ کے لیے الوداع کہہ کر اپنے ٹھکانے پر لوٹ آیا
غرض اس ایک ہفتے کے دوران جس برائی کا اس نے قصد کیابزرگ سے جھوٹ نہ بولنے کے وعدے نے اسے اس برائی سے باز رکھا اور اس نے اسی وقت اس برائی سے توبہ کرلی ایک ہفتے کے بعد جب وہ ان بزرگ کے دربار میں حاضر ہوا تو انہوں نے اس سے سارے ہفتے کی کاروائی کا حال معلوم کیا۔ اس نے تفصیلا انہیں سب کچھ بتا دیا کہ کس طرح میںنے ہر رات اپنے عادت کے مطابق کسی نہ کسی گناہ کا قصد کیا مگر آپ سے جھوٹ نہ بولنے کے وعدے نے اس گناہ کے ارتکاب سے باز رکھا اور اب الحمد للہ میں ان تمام گناہوں سے تائب ہوگیا ہوں اور بقیہ زندگی آپ کے قدموں میں بسر کرنا چاہتا ہوں۔اس طرح صرف جھوٹ سے سچے دل سے تائب ہونے کی وجہ سے وہ شخص تمام برائیوں سے نجات پاگیا اس کے برعکس اگر کوئی شخص جھوٹ بولنے کا عادی ہوجائے اور اپنی اس عادت پر اسے کسی قسم کی شرمندگی اور پشیمانی نہ ہو تو پھر شیطان اس کے لئے ہر قسم کے برائیوں کے دروازے واہ کردیتا ہے اور وہ آہستہ آہستہ، غیر محسوس انداز میں پستیوں میں گرتا چلاجاتا ہے
اپریل فول کی ابتداءکہاں سے ہوئی اور اسکی تاریخ کیا ہے اسکا اندازہ ذیل کی چند حکایتوں سے ہوسکتا ہے گو کہ یہ ان قصص کی کہیں سے بھی تصدیق نہیں ہو سکی مگر ہمیں یہ اندازہ ہوجائےگا کہ بحیثیت مسلمان ہم کہاں کھڑے ہیں اور اگر ان میں سے کوئی حکایت مبنی بر حقیقت ہے یا حقیقت سے کسی قدر قریب بھی ہے تب بھی اپریل فول منانا گویا خود کو طمانچہ رسید کرنے کے مترادف ہے
کہا جاتا ہے کہ قدیم تہذیبوں کے زمانے میںجن میں ہندومت اورقدیم رومن تہذیب شامل ہے نئے سال کا آغازیکم اپریل یا اسکے قرب وجوارکی تاریخوں میں منایا جاتا تھا۲۸۵۱ ءمیں پوپ جورج ہشتم نے پرانے جولین کیلنڈر کی جگہ یک نئے جورجین کیلنڈرکے اجراءکا حکم دیاجس کی رو سے نئے سال کا آغاز یکم اپریل کی جگہ یکم جنوری سے ہونا قرارپایا۔اس سال فرانس نے نیاجورجین کیلنڈر اختیار کرتے ہوئے نئے سال کا آغاز یکم جنوری سے کیا متضاد روایا ت کے مطابق یا توایک کثیر تعداد میں عوام الناس نے اس نئے کلنڈر کو مسترد کردیا یا بروایت دیگر اس نئے کیلنڈر کی تبدیلی کی اطلا ع بروقت دور دراز کے علاقے کے لوگوں تک نہ پہنچ سکی جس کی بناءپر وہ نیا سال پرانے کلنڈر کے مطابق ہی یعنی یکم اپریل کو مناتے رہےاس موقع پر جدت پسندوں نے قدامت پسندوں کا مذاق اڑانے کے لئے یکم اپریل کو انہیں بے وقوف بنانے اور جھوٹی باتوں پر انکا یقین پختہ کرنے کے لئے انہیں جھوٹے پیغامات اور نئے سال کی ایسی تقریبات کے دعوت نامے بھیجنا شروع کر دئے جنہیں سرے سے منعقد ہونا ہی نہیں تھا۔ اسطرح یہ رسم سارے یورپ میں یکم اپریل کو جھوٹ بول کر لوگوں کو بےوقوف بنانے کے حوالے سے پھیل گئی
اس سلسلے میں دیگر دو روایات مسلمانوں کے حوالے سے ہیںکہا جاتا ہے کہ اسپین میں مسلمانو ںکے صدیوں پر محیط اقتدار کے بعد جب انکا زوال شروع ہوا تو ہسپانوی مسلمان عیسائیوں کے ہاتھوں مغلوب ہوکر اپنے گھروں تک محدود ومحصور ہوگئےعیسائی فوج مسلمانوں سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہ رہی تھی انہوں نے مسلمانوں سے کہا کہ وہ اپنی ضروریات کاسامان اپنے گھروں سے لے لیں اور ساحل پر لنگر انداز جہازوں کے زریعے اسپین کی سرزمین چھوڑ کر جہاںجانے چاہیں جا سکتے ہیں انہیں مکمل تحفظ دیا جائےگامسلمانوں نے اسے عیسائیوں کی چال سمجھتے ہوئے ان سے ساحل پر لنگر انداز جہازوں کا بذاتِ خود معائنہ کرنے کی اجازت چاہی جو انہیں دے دی گئیانہوں نے ان جہازوں کا تفصیلی جائزہ لیا اور انہیں سفر کے قابل پایا اسکے بعد انہوں نے اپنا ضروری مال و متاع سمیٹا اور اپنے اہل و عیال کے ہمراءساحل کی طرف کوچ کیا جب وہ اپنے گھر بار کو چھوڑ کر ساحل کی طرف رواں دواں تھے تو عیسائی افواج نے انکے گھروں کو لوٹ کر انہیں آگ لگا دی اور اس سے پیشتر کہ مسلمان جہازوں پر سوار ہو پاتے انکا بے دریغ قتلِ عام کرکے انکے مردوں، عورتوں اور بچوں کو وحشیانہ طریقے سے شہید کردیا مسلمانوں کو بےوقوف بنا کر انسے اسپین خالی کرانے کا یہ واقعہ یکم اپریل کو رونما ہوا تھا اس لئے یہ ایک رسم کی شکل میں ہر سال یکم اپریل کو اسپین میں منایا جانے لگا اور آج یہ اسپین کی سرحدوں سے نکل کر سارے دنیا میں رائج ہوچکا ہے
اس سلسلے کا دوسرا واقعہ بھی مسلمانوں کے دور کے اسپین سے منسلک ہے اور یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مسلمانوں نے اسپین میں قریبا آٹھ سو سال تک حکومت کی اس دوران عیسائیوں نے مسلمانوں کو شکست سے دوچار کرنے اور اسلام کی جڑوں کو اسپین سے اکھاڑ پھینکنے کی بےشمار کوششیں کیں مگر اپنی کسی بھی کوشش میں انہں کامیابی نصیب نہ ہوئیانہوں نے اپنی پے درپے ناکامیوں اور مسلمانوں کی طاقت اور قوت کا اسباب جاننے کے لئے اسپین مین اپنے جاسوسوں کو بھیجا تاکہ وہ مسلمانوں کے ناقابل شکست ہونے کا راز پا سکیںانہوں نے اپنے آقاو ں کو یہ رپورٹ دی کہ چونکہ مسلمانوں میں تقوی موجود ہے اور وہ قرآن اور سنت کی مکمل اتباع کرتے ہیں اور حرام اور منکرات سے بچتے ہیں اس لئے وہ ناقابل شکست ہیں
جب انہوں نے مسلمانوں کی طاقت کا راز پا لیا تو اپنی ساری ذہنی قوت اس بات پر خرچ کردی کہ کسی طریقے سے مسلمانوں کو انکی اس روحانی طاقت سے محروم کردیا جائے اس کے لئے انہوں نے یہ حکمت عملی وضع کی کہ شراب اور سگریٹ کی مفت ترسیل اسپین کو شروع کر دی انکی یہ ترکیب کامیاب رہی اور ان اشیاءکے استعما ل کی وجہ سے مسلمانوں میں اخلاقی کمزوریا ں نمایاں ہونے لگیںخصوصا مسلمانوں کی نوجوان نسل اس سازش کا سب سے زیادہ شکار ہوئیمسلمان اخلاقی تنزلی کا شکار ہوکر کمزور پڑ گئے اور عیسائیوں کو انکے دیرینہ خواب کی تعبیر مسلمانوں کی اسپین سے بےدخلی کی صورت میںمل گئی اسپین میں مسلمانوں کی طاقت کے آخری سرچشمے یعنی غرناطہ کا عیسائی افواج کے ہاتھوں
زوال یکم اپریل کو ہوا اس لئے وہ اس دن کو اسپین کو مسلمانوں سے آزادی کا دن قرار دیتے ہیں اور چونکہ انکے خیال میں مسلمانوں کو شکست انکی چالاکی اور دہوکہ دہی کے نتیجے میں ہوئی تھی اس لئے وہ یکم اپریل کو فول ڈے کے طور پر مناتے ہیں
درج بالا حکایتوں کوتاریخی حوالے سے غیر مصدقہ ثابت کرکے اگر رد بھی کردیا جائے اور انہیں مسلمانو ں کے اسپین پرطویل ترین اقتداراورعظیم فتوحات کے حوالے سے عیسائیوں کاغلط پروپیگنڈااور تاریخی حقایق کومسخ کرنے کی نصرانی سازش قرار دیا جائے تب بھی کفار کی تقلید میں اپریل فول منانا مسلمانو ں کو شرعا اور اخلاقا جائز نہیں ہے کیوںکہ اسکی اساس جھوٹ پر ہے اور جھوٹوں پر اللہ رب العزت نے لعنت فرمائی ہے
اپریل فول کا جھوٹ اور مذاق بےشمار لوگوں کی زندگیوں میں طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے اپریل فول کاشکار ہونے والے کئی لوگ ان واقعات کے نتیجے میں شدید صدمے میں مبتلہ ہوکر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، کئی مستقل معذوری کا شکار ہوکرہمیشہ کے لئے گھر کی چہار دیواری تک محدود ہوجاتے ہیں ، کتنے گھروں میں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں اور کتنے خوش وخرم جوڑے مستقلا ایک دوسرے سے متعلق شکوک وشبہات کا شکار ہوجاتے ہیں اور مذاق کرنے والے ان سارے ناقابل تلافی صدمات اور نقصانات کا کسی طور پر بھی کفارہ ادا نہیں کر سکتے
مسلمانوں کے لئے ان غیر شرعی اور غیر اسلامی رسوم و رواج کو منانے کے حوالے سے یہ بات یقینا سخت تشویشناک ہونی چاہئے کہ یہ غیر اسلامی ہیں اور اسلام کی عظیم تعلیمات اور اخلاقی اقدار کے منافی ہیں
جھوٹ نفاق کی نشانی ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی سختی سے ممانعت فرمائی ہےآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ ہمیشہ سچ بولے یا خاموش رہے مزید براں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص پرخصوصی طور پر لعنت فرمائی ہے جو جھوٹ بول کر لوگوں ہنساتا ہےآج کل لوگ مزاح کے نام پر انتہائی جھوٹ گھڑتے ہیں اور لوگوںکو جھوٹے لطائف سنا کر ہنساتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان اقوال مبارکہ کی روشنی میںاپریل فول جیسی باطل رسوم وروایات کو اپنانے اور ان کا حصہ بن کر لمحاتی مسرت حاصل کرنے والے مسلمانوں کے سوچنا چاہئے کہ ایسا کر کے وہ غیر مسلم مغربی معاشرے کے اس دعوے کی تصدیق کرتے ہیں جس کی رو سے لوگوں کو ہنسانے،گدگدانے اور انکی تفریح طبع کا سامان فراہم کرنے کے لئے جھوٹ بولناانکے نذدیک جائز ہے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق جھوٹ کے زریعے لوگوں کو دھوکہ دینا اور انہیں تفریح فراہم کرنااور ہنساناسخت موجبِ گناہ ہے
نے حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب حفظہ اللہ تعالی کا تقریبا سترہ سال قبل تحریر کردہ مضمون جو کہ روزنامہ جنگ کے۷۲ مارچ ۴۹۹۱ئ کے ایڈیشن میں شائع ہوا تھا اسے اپنے ویب پیج کی زینت بنایا ہے۔مضمون کے آخر میں حضرت مفتی صاحب نے تحریر فرما یا ہے کہ ۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے معاشرے میں اپریل فول منانے کا رواج بہت زیادہ نہیں ہے ۔حضرت مفتی صاحب کی اس زمانے میں یہ بات بالکل درست تھی کہ اس زمانے میں ہمارا معاشرہ بہت سی خرافات سے پاک تھااور اگر کچھ برائیاں چور دروازوں سے گھس بھی آئیں تھیں تب بھی عوام الناس کو انکا اتنا ادراک نہیں تھا یا انہیں اتنی پذیرائی نہیں ملی تھی، وہ صرف معاشرے کے ایلیٹ کلاس یا اپر کلاس طبقوںتک رسائی حاصل کرسکی تھیں۔
مگر اس مضمون کی اشاعت کے بعدآنے والے ان سترہ سالوں میں ہمارے معاشرے میں بے حد تبدیلی آچکی ہے۔آزاد میڈیا،بےشمارملکی اور غیر ملکی سیٹلائٹ ٹیوی چینلز کی بھرمار،شترِ بے مہار کی طرح انتہائی آزاد انٹرنیٹ جس پر کسی بھی قسم کی اخلاقی حدود و قیودکی پابندی عائد نہیں اوران تمام خرابیوں سے اب کوئی گھرخالی نہیں ہے ان تمام جدید وسائل کو استعمال کرتے ہوئے اسلام دشمن عناصر نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہمارے صاف ستھرے معاشرے پر شبِ خون مارا اور اپنی غیر اسلامی ثقافت اور بھونڈے رسم ورواج پاکستانی معاشرے میں پھیلادئے اور بدقسمتی سے ملتِ خدادادپاکستان کی نوجوان نسل نے اس سازش کو نہ سمجھا اور کفار اور نام نہاد جدت پسندوں کا عطا کردہ شوگر کوٹڈ زہر بخوشی قبو ل کرلیا۔
اپریل فول کی ابتداءکہاں سے ہوئی اور یہ کس طرح پھل پھو ل کر آج اپنی جڑیںدینا بھر میں اور خصوصا مسلم معاشرے میں مظبوط کر چکا ہے، اسکے اسباب خواہ کچھ بھی رہے ہوںیہ بات طے شد ہ ہے کہ مسلمانوں کے لئے اپریل فول یا اس سے مشابہت رکھنے والے کسی بھی غیر اسلامی اور غیر شرعی تہوار اور مشرکانہ رسوم کا مناناناجائز اور حرام ہے اور یہود و نصاری کی مشابہت اختیار کرنے کے مترادف ہے
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیںصحیح اسلامی تعلیمات پر چلنے، اسلامی شعائر اور اقدار کی پاسداری کرنے کی توفیق عطا کرے اور یہود و نصاری کی اندھی تقلید سے محفوظ ومامون رکھے اور ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائے اور ہمیں عصر حاضر میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہونے والی سازشوں اور فتنوں سے بچنے اور انکا سدباب کرنے کی توفیق اور حوصلہ عطا کرے۔ آمین ثم آمین و للحمد للہ رب العالمین