(صبیح الحسن)
اس دن حسبِ معمول ہم منہ اندھیرے جاگے بلکہ جگائے گئے۔پتہ چلا کہ آج شاید سورج کی گھڑی پر کسی نے وقت آگے کر دیا تھا لہٰذا وہ ہم سے کئی گھنٹے قبل ہی اٹھ چکا تھا۔ اور اب اس گستاخی پر ناراض ، آسمان کے بیچوں بیچ بیٹھا آتے جاتے بادلوں کولاتیں رسید کر رہا تھا۔ان دنوں ننھے میاں کو داڑھی کا شوق چرایا تھا اور ہم ٹھہرے عقیدتمند رعایا۔ ۔ ۔ تو تقلید لازم تھی۔بقول ننھے میاں اس سے چہرہ پُرنور لگا کرتا اور ان کے نزدیک ،ان کے چہرے پرتو نور کی نیاگرا فال برسا کرتی۔جبکہ ہمارے خیال میں نور ان کے چہرے پر برسنے کی جگہ ہی تلاش کرتا رہ جاتاکہ ہر جا ء تو بالوں کے گھنے جنگلات اپنی بہار دکھاتے تھے۔والد صاحب فرمایا کرتے کہ بیٹا اگر کمبل میں گھس کر یا چادراوڑھے بیٹھے ہو تو بتا دیا کرو کہ ہماری جانب منہ ہے یاکمر۔ننھے میاں کا چھوٹا بھائی ان کی کمر سمجھ کر منہ چڑھاتا اور جھانپڑ پڑنے پر معلوم ہوتا کہ یہ تو منہ تھا۔مہمانوں کو بھی اکثر اوقات آواز کا ماخذ تلاش کرنے میں کافی دقت کا سامنا کرنا پڑتا۔لیکن ننھے میاں مطمئن تھے اور پر امید تھے کہ اہل نظر اور خوش ذوق لوگ بھی دنیا میںہی بستے ہیںکیا ہوا جو آج تک ان سے ملاقات نہ ہو سکی۔ اور جب وہ مطمئن تھے تو ہمارے اعتراض کا جواز ہی پیدانہیں ہوتا تھا۔
ناشتہ اور لنچ ایک ساتھ نپٹا کر ہم اور ننھے میاں علاقے کے دورے پر نکلے۔ابھی چند قدم ہی چلے تھے کہ ایک کھڑکی سے ماٹو کا سر برآمد ہوا۔ اس نے سر گھما کر گلی کا جائزہ لیا ۔ ہم پرنگاہ پڑتے ہی غڑاپ سے سر اندر گھسیڑ لیا۔ آج کل ماٹو ننھے میاں سے خفا تھا اور گروپ میں اپوزیشن کے بنچوں پر بیٹھتا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ ماٹو عمر میں ننھے میاں سے چند سال بڑا تھا۔ اور شادی کے امیدواروں میں سر فہرست تھا۔ ننھے میاں کے چچا کا بیٹا تھا اور گھروں کی بھی سانجھی دیوار تھی اس لیے ماٹو کو یقین تھا کہ اب اس کے سہرے کے پھول کھلنے کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ تھی۔ لیکن خدا کی وہ ہی جانے۔ چند دن قبل ایک عدد رشتہ ننھے کے لئے آ گیا۔ یہ بات جہاں ننھے میاں کے لئے خوشگوار حیرت کا باعث بنی وہیں ماٹو پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا۔وہ ننھے سے خفا تھا کیونکہ اسے لگتا تھا کہ ضرور ننھے نے کسی پیر سے تعویز کروا کے اس رشتے کو اپنی جانب موڑا تھا۔ جبکہ ننھے میاں خوش تھے اور جب ماٹو نظر پڑتا شرارتی انداز میں گنگنانے لگتے ـ’’متھے تے چمکن وال‘‘۔ اور بیچارہ ماٹو کلس کر رہ جاتا۔اب بھی ہمیں دیکھتے ہی شڑاپ سے اندر گھس گیا۔ ننھے میاں نے ایک ہلکی سی مسکراہٹ سے مجھے دیکھ کر کہا۔ ۔
’’سڑ گیا ہے شاید۔‘‘
اور ہم نے دورہ جاری رکھا۔
ٌٌٌٌٌ٭٭٭
دورہ ختم کر کے ہم اور ننھے میاں گھر میں گھسے ہی تھے کہ ایک کمرے سے چچا جان برآمد ہوئے۔ ہم پر نگاہ پڑتے ہی ان کو یاد آیا کہ کافی دن ہوگئے ہیں ڈانٹا نہیں ان کو۔ ہمیں آواز دی۔ ہم بھی طلبی کے مقصد سے آگاہ تھے اس لیے تن بہ تقدیر ہو کر حاضر ہوئے۔ تھوڑی دیر سر کھجا تے ہوئے ڈانٹنے کی وجہ تلاشتے رہے ۔ پھر نگاہ دانوں والے بھڑولے پر پڑی جو نئی فصل آنے سے قبل صفائی ستھرائی کی غرض سے باہر صحن میں رکھا گیا تھا۔ جب رکھا گیا تھا تو تب تو دھوپ میں ہی تھا لیکن اب سائے میں آ چکا تھا۔ فوراً چچا کو وجہ سوجھ گئی۔
’’تم لوگوں کو کچھ گھر کا خیال ہے بھی کہ نہیں۔سارا دن پڑے اینڈتے رہتے ہو۔ کوئی احساس ہی نہیں کہ کچھ گھر کا کام ہی کر دیں۔‘‘
ہم نے کمزور سا احتجاج کرنے کی کوشش کی کہ ڈانٹ دیا گیا۔
’’اب دیکھو یہ بھڑولا کب سے سائے میں پڑا ہے اتنا نہیں کر سکتے کہ اسے دھکیل کردھوپ میں کر دو۔‘‘
’’جی چچا ابھی کر دیتے ہیں‘‘
ننھا منمنایا۔ چچا کسی ڈریکولا سے کم نہیں سمجھے جاتے تھے۔
چچا نے شاید ڈوز کو کافی خیال کیا اور چلے گئے۔ ۔ہم دونوں بھڑولے کی جانب چلے کہ اچانک ننھا رک کر بولا۔ ۔
’’یار اسے اٹھانے کی کیا ضرورت ہے ۔ گول ہے تو لڑھکا کر ہی دھوپ میں کر دیتے ہیں۔‘‘
مجھے بھی یہ طریقہ کافی بہتر لگا ۔ اس لئے ہم دونوں بھڑولے کو دھکیلتے ہوئے دھوپ کی جانب لے چلے۔
دھکیلتے ساتھ ہی بھڑولے میں کچھ ہل چل محسوس ہوئی۔
’’یہ آوازسنی۔ ۔ ۔؟؟‘‘
ہم نے دریافت کیا۔
’’تمہارا پیٹ بج رہا ہو گا۔‘‘
ننھے نے تجاہل عارفانہ سے جواب دیا۔ ابھی ہم سوچ ہی رہے تھے کہ پیٹ کیسے بج سکتا ہے کہ بھڑولا دھوپ والے حصے میں پہنچ گیا اور ہمارے روکتے روکتے بھی دیوار سے کافی پرزور ٹکر ہوگئی۔ ابھی ہم ہاتھ ہی جھاڑ رہے تھے کہ بھڑولے میں کچھ کھٹر پٹڑ ہوئی ۔ ہم دونوں نے سوالیہ نگاہوںسے ایک دوسرے کی جانب دیکھا۔ کہ اچانک بھڑولے کے منہ میں سے ایک سر نما چیز برآمد ہوئی۔ سر کے ساتھ کندھے بھی تھے۔یہ ضرور کوئی بھوت تھا۔ بھوت لڑکھڑاتا ہوا باہر نکلا۔ نکلتے ہی دھڑام سے گرا۔ پھر اٹھا اور پھر گرا۔ لیکن یہ بھوت تو کچھ جانا پہچانا معلوم ہو رہا تھا۔ الجھے بالوں میں سے جو چہرہ نظر پڑا اسے دیکھتے ہی ہماری روح فنا ہو گئی۔ یہ تو ننھے کی امی تھیں۔وہ یقینا اندر گھسی بھڑولے کی صفائی کر رہی تھیں جب ہم ان پر عتاب بن کر نازل ہوئے۔اتنی دور تک گھومتے رہنے کے باعث اب ان کی ٹانگوں کو درست پوزیشن حاصل کرنے میں خاصی مشکل پیش آ رہی تھی۔لیکن ہمیں ان کے تاثرات سمجھنے میں کسی دقت کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ ننھے نے جوتا ان کو پیش کیا اور ہم دونوں مرغا بن کر تن بہ تقدیر ہو گئے۔
٭٭٭
کل ننھے کے متوقع سسرالی باقاعدہ رشتہ لے کر آ رہے تھے۔شام کو ہم اور ننھے میاں جوتے سے پڑے نیلوں کی سنکائی کرنے کے ساتھ ساتھ آنے والے کل کی پلاننگ کر رہے تھے۔کہ ننھے میاں چونک کر بولے۔
’’یار میری شکل کیسی ہے؟‘‘
ہم نے ان کے سوال کو سن کر ان کی جانب غور سے دیکھا ۔ چند لمحے سوچا اور پھر سچ بولنے کا ارادہ موقوف کرتے ہوئے کہا۔
’’ماشا ء اللہ یار تم کو چاند کا ٹکڑا معلوم پڑتے ہو۔‘‘
’’اچھا اچھا۔ ۔ ۔ اب زیادہ مکھن نہ لگاؤ۔ یہ تو میں جانتا ہی ہوں پر یہ بتاؤ کہ میرا رنگ کہیں سانولا سا تو نہیں لگ رہا؟‘‘
ننھے میاں پھولتے ہوئے بولے۔ ۔
’’ارے نہیں نہیں۔ بالکل بھی نہیں۔‘‘
پر ننھے میاں پر بھوت سوار ہو چکا تھا۔ ہمیں وہیں بٹھا کر باہر گئے چند منٹوںکے بعد واپسی ہوئی تو ہاتھوں میں کچھ دبا تھا۔
’’یہ کیا لے آئے ہو؟‘‘
’’اسے ابٹن کہتے ہیں۔‘‘
’’ارے تو اب ابٹن لگاؤ گے؟‘‘
ہم نے حیرت سے استفسار کیا۔
’’تو اور کیا؟ لڑکیوں نے کیا ابٹن کے کاپی رائٹس لے رکھے ہیں؟‘‘
بات تو ان کی بھی ٹھیک تھی۔ ہم سوچ میں پڑ گئے۔
’’میں تو کہتا ہوں تم بھی لگاؤ۔ ان کی دو بیٹیاں ہیں ۔ ویسے تو میرے حسن کے آگے مشکل ہی لگتا ہے پر کیا پتہ ابٹن لگانے سے کچھ بہتر ہو جاؤ۔ شاید تمہارا بھی چانس بن جائے۔‘‘
ننھے میاں رازدارانہ لہجے میں بولے۔
ہمارے دل نے بھی دو تین قلابازیاں کھائیں۔ واقعی ننھے میاں کہتے تو ٹھیک تھے۔
لہٰذا چند منٹ بعد ہم باورچی خانے میں ایک چھوٹے سے تسلے میں ابٹن میں دودھ ڈال کر گھول رہے تھے۔ننھے میاں کچھ اور اجزا لینے گئے تھے۔
تھوڑی دیر بعد واپس آئے اور بولے۔
’’ابٹن کو تھوڑی دیر گرم بھی کرنا ہے پارلر والی باجی نے بتایا ہے۔‘‘
ہم تھوڑا چونکے تو لیکن پارلر والی باجی ایکسپرٹ تھیں لہٰذا چوں چاں کا مقام نہ تھا۔
ابھی ابٹن کو تھوڑا گرم ہی کیا تھا کہ ننھے میاں نے دو ننھی سی ٹکیاں نکالیں اورابٹن میں ڈال دیں۔
’’یہ کیا تھا؟‘‘
ہم نے پوچھا۔
’’جوہرِ خاص۔ ۔ ۔ ‘‘ ننھے نے جواب دیا۔
کچھ دیر بعد ہم دونوں چہرے ہاتھوں اور پیروں پر ابٹن لگائے صحن میں سن باتھ کر رہے تھے۔رات ہو چکی تھی اور صحن میں دور ایک بلب کی مدھم سی لو ہمیں عجیب ہی بنا کر پیش کر رہی تھی۔ عجیب اس لیے کہ کپڑوں کی خرابی کے ڈ ر سے ہم ننھے کے کچھے زیب تن کیے بیٹھے تھے۔ یہ کچھے پیدائشی کچھے نہ تھے بلکہ کچھ عرصہ پہلے تک اچھی خاصی شلوار ہوا کرتے تھے۔ لیکن بعد میں ان کی قطع و برید کر کے ان کو کچھے کے رتبے پر فائز کر دیا گیا تھا۔اور اب یہ شلوار کچھا اور تہبند کا عجیب و غریب مجموعہ لگتے۔ اور سونے پر سہاگہ کہ بال بار بار اڑ کر ابٹن میں لتھڑ رہے تھے تو ننھے کی فرمائش پر ہم دونوں ایک ایک ہیر کیچ بھی لگا چکے تھے۔میں دعا کر رہا تھا کہ اس حالت میں کوئی مجھے دیکھ نہ لے ورنہ بہت بے عزتی ہوتی۔ گھر میں یہ حال تھا کہ جو بھی پہلی بار صحن میں آتا ڈر کر رہیں رک جاتا اور پھر سمجھ آنے پر کھی کھی کرتا چلا جاتا۔
اچانک مجھے خیال آیا۔
’’ننھے یار یہ جوہر خاص کیا تھا؟‘‘
’’کنور چکن کیوبز۔‘‘
میں دھڑام سے کرسی سے گرا۔
’’ارے اس کا کیا تعلق ابٹن سے؟‘‘
’’ارے کیا دیکھتے نہیں مرغے کتنے چٹے سفید ہوتے ہیں؟‘‘
واقعی یہ بات تو سچ تھی۔
’’پر اگر کیوبز دیسی مرغی کے ہوئے تو؟‘‘
’’تو کیا۔ ۔ ۔ ۔ ان کا گوشت تو سفید ہی ہوتا ہے نا۔ اسی لئے وائٹ میٹ کہلاتا ہے۔‘‘
یہ بات دل کو لگی تو ہم چپ ہو گئے۔
ہم کو لیٹے چند منٹ ہو چکے تھے کہ باہر کی گھنٹی بجی۔میرے چودہ طبق روشن ہو گئے۔ میں کسی کے سامنے اس حالت میں تو نہیں جا سکتا تھا۔ دروازے کے ساتھ ہی باتھ روم تھا۔اس وقت وہی راہ نجات نظر پڑی۔ملازم دروازہ کھول چکا تھا۔ دودھ والے کے چاروں بچے دودھ کا برتن اٹھائے اندر گھسے۔ہم باتھ روم کی جانب دوڑ لگا چکے تھے۔بچوں نے نظر اٹھائی تو ان کو ایک پتلی سی چیز ایک عجیب سے لباس میں ملبوس اپنی جانب بھاگتی نظر آئی۔چہرہ ، کہنیوں تک ہاتھ اور پیر تو ابٹن لگے ہونے کی وجہ سے سفید نظر آہی رہے تھے۔ سر کے بال بھی ہیر کیچ کی وجہ سے کھڑے تھے۔
بچوں کے منہ سے ایک زودار چیخ نکلی ۔ دودھ کا برتن وہیں پٹخا اور دوڑ لگا دی۔اکٹھے باہر نکلنے کی کوشش میں سب الجھ کر گرے۔دودھ گر کر پھیل چکا تھا۔ گیلے فرش پر میرا پاؤں رپٹ گیا اور میں دودھ میں پھسلتا ہوا بچوں میں جا گھسا۔ بچوں نے جب خود کو اس بلا کی آغوش میں پایا تو جو چیخیں
ماریں انہیں سن کر ہمارے تو کیا ساتھ والے گاؤں کے مردے بھی جاگ اٹھے ہوں گے۔
تھوڑی دیر میں پورا محلہ گلی میں جمع ہو چکا تھا چند عورتوں کی نظر ہم پر پڑ چکی تھی اور اب وہ قسمیں کھا کھا کر سب کو بتا رہی تھیں کہ ا ندر جن ہیں۔
گھر والے بھی آ چکے تھے ۔ جنوں کو پکڑ کر سب کے سامنے پیش کیا گیا۔آگے باقی سب کی ہنسی سے اور ہماری خفت سے جو حالت ہوئی وہ بیان سے باہرہے۔
٭٭٭
اگلا دن مہمانوں کی آمد کا تھا۔ ہم صبح سے ہی انتظار میں تھے۔ننھے میاں بھی نہا دھو کر تیارہوئے بیٹھے تھے۔ ننھے کے چھوٹے بھائی کی ڈیوٹی تھی کہ جیسے ہی مہمان کی آمد ہو ننھے میاں کو اطلاع دے دی جائے۔ ماٹو بھی مارے باندھے ننھے میاں کاساتھ دینے آ پہنچا تھا۔خیر سگالی کے اس مظاہرے پر ننھے میاں نے ماٹو کی خوب پیٹھ تھپتھپائی تھی اور اسے اگلی بار مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی تھی۔
اچانک ننھے میاں کا بھائی بھاگا آیا۔
’’بھائی مہمان آ گئے۔‘‘
ننھے میاں نے اٹھ کر ناک کھڑکی سے چپکائی اور ایک لمبی سی شاندار گاڑ ی کی تلاش میں نگاہیں دوڑائیں۔پر پوری گلی کا چکر لگانے پر بھی نگاہیں گوہر مقصود تلاشنے میں ناکام رہیں۔ سوالیہ نگاہوں سے چھوٹے بھائی کی جانب دیکھا۔ جس نے دروازے کے سامنے کھڑی چاندگاڑی کی جانب اشارہ کیا۔جس میں سے ایک ہی محترمہ برآمد ہوئیں۔
ننھے میاں انہیں دیکھ کر بولے۔
’’ارے یہ تو رشتہ کروانے والی آنٹی ہیں ۔ مہمان کیوں نہیں آئے؟‘‘
اتنے میں وہ خاتون اندر آچکی تھیں اور ننھے کی امی کے ساتھ ڈرائنگ روم میں غائب ہو گئیں۔
ننھے میاں کا اضطراب دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔
تھوڑی دیر بعد ننھے میاں کی امی ڈرائینگ روم سے برآمد ہوئیں اور ننھے سے ہنستے ہوئے بولیں۔
’’میں ان خاتون کے ساتھ تمہارے چاچو کے گھر جا رہی ہوں۔‘‘
ننھے میاں کو اس بات کی بالکل بھی توقع نہ تھی۔ جلدی سے پوچھا۔
’’پر امی کیا ہوا؟‘‘
ان کی ہنسی چھوٹ گئی۔ ہنستے ہوئے بولیں۔
’’ارے وہ ماٹو کے لیے رشتہ لے کر آئی تھیں۔ پر ساتھ ساتھ گھر اور ملتے جلتے ناموں کی وجہ سے دھوکا کھا کر تمہیں پسند کر گئیں۔۔ واپس جا کر پتہ چلا۔ تو آج معذرت کر لی۔‘‘
ساتھ ہی ماٹو کی جانب دیکھ کر بولیں۔
’’ارے تم گھر بھاگو اور جا کر کوئی اچھے سے کپڑے پہنو۔‘‘
ننھے میاں حیرت سے منہ کھولے وہیں ساکت رہ گئے۔منہ تو ماٹو کا بھی کھلے کا کھلا رہ گیا۔ تھوڑی دیر بعد ننھے میاں بے ہوش پرے تھے اور ماٹو سر کے بال سنوارتا ہوا گنگنا رہا تھا۔
’’متھے تے چمکن وال۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘
i love it
i love it