کینسر کا علاج ممکن نئی تحقیق؛ مستقبل میں کینسر مہلک مرض نہیں رہے گا
سائنس دانوں کا کہناہے کہ اگر وہ کینسر کی مختلف اقسام کا صرف جینیاتی نقشہ ہی تیار کرلیں تو لاکھوں زندگیاں بچانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔
حال ہی میں برطانوی سائنس دانوں نے کینسر کی دومہلک اقسام کا، جن کا تعلق پھیپھڑے اور جلد کے سرطان سے ہے، مکمل ترین جینیاتی نقشہ تیار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ ماہرین نے اس
پیش رفت کو طب کے شعبے میں ایک انقلاب سے تعبیر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس دریافت سے اس جان لیوا مرض پر قابو پانے میں بڑی مددملے گی۔
کینسر کی تمام اقسام کاباعث خلیوں کے ڈی این اے میں رونما ہونے والی تبدیلیاں ہوتی ہیں۔ ڈی این میں خلیے کی تمام جینیاتی معلومات محفوظ ہوتی ہیں۔ ان ذخیرہ شدہ معلومات میں اس وقت تبدیلیاں آتیں ہیں جب خلیوں کا عمل آہستہ آہستہ اپنے معمول سے ہٹ جاتا ہے جو وقت گذرنے کے ساتھ کینسر کا باعث بن جاتا ہے۔سائنس دانوں کا کہناہے کہ اگر وہ کینسر کی مختلف اقسام کا صرف جینیاتی نقشہ ہی تیار کرلیں تو لاکھوں زندگیاں بچانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔
ڈاکٹر جینی آرگون چنگ، جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے میڈیکل سینٹر میں رسولیوں کے امراض
کی ماہر ہیں۔ وہ اس دریافت کوانفرادی دوائیوں کے دور کی جانب ایک قدم قرار دیتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اب سارا زور اسی پر ہے کیونکہ، مثال کے طورپر، کینسر کی مختلف اقسام کے لیے، ہمارے پاس مختلف اقسام کی دوائیں ہوں گی جو مختلف متاثرہ حصوں یامیوٹیشنز کو اپنا ہدف بنائیں گی۔
وہ کہتی ہیں کہ اگر ڈاکٹر کے پاس اس بارے میں زیادہ معلومات موجود ہوں کہ کینسر کے خلیے کس طرح پھیل رہے ہیں، تو وہ زیادہ درستگی کے ساتھ ان مخصوص خلیوں کو ہدف بنانے کے لیے دوا تجویز کرسکتا ہے۔ برطانوی سائنس دانوں کو جلد کے کینسر ایک مہلک ترین کینسر میلانوما میں ایسی 30 ہزار تبدیلیوں کا پتا چلا ہے۔ جلد کے کینسر سے ہونے والی 75 فی صد ہلاکتوں کا سبب کینسر کی یہی قسم ہے۔ اس تحقیق سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ پھیپھڑوں کے کینسر کا سبب خلیوں میں واقع ہونے والی 23 ہزار تبدیلیاں ہیں۔ لیکن خلیوں کی یہ تمام تبدیلیاں کینسر کا باعث نہیں بنتیں۔ ڈاکٹر جینی کہتی ہیں کہ یہ ڈاکٹروں اور سائنس دانوں کا کام
ہے کہ وہ یہ کھوج لگائیں کہ کون سی تبدیلیاں کینسر کو تحریک دے رہی ہیں یا وہ کونسی تبدیلیاں ہیں جو حقیقتا کینسر کا سبب بن رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حقیقتا سائنس دانوں کے پاس ممکنہ طور پرکینسر کی زد میں آنے والے خلیو ں کو ہدف بنانے اور مہلک رسولیوں کو بننے سے روکنے کی صلاحیت۔
انہوں نے مزید کہا کہ کینسر کے امراض کے ایک ماہر کے طورپر، میری منزل ایک ایسا دن دیکھنا ہے، جب ہم کینسر کو ایک پرانے مرض میں تبدیل کرسکیں گے۔ ممکن ہے کہ اس کا علاج تو نہ ہوسکے لیکن جیسا کہ میں دیکھ رہی ہوں ہم اس کے اسی طرح رہ سکیں گے جیسا کہ کسی قابل علاج دائمی مرض کے ساتھ رہتے ہیں۔
ہائی بلڈ پریشر کی طرح، جسے دوا کے ذریعے کنٹرول کیا جاسکتا ہے، کینسر بھی تکلیف نہ دینے والا ایک ایسا ہی مرض بن سکتا ہے، جس کے ساتھ ہم رہ سکتے ہوں۔ انٹرنیشنل کینسر جینوم کنسورشیم کے ایک حصے کے طورپر میڈیکل کے شعبے سے وابستہ دنیا بھر کے سائنس دان اب ان تمام خلیوں کی، جو مختلف اقسام کے کینسر میں تبدیل ہوجاتے ہیں، فہرست بنانے کا کام کررہے ہیں۔
امریکہ میں ماہرین دماغ، لبلبے اور بیضہ دانی کے کینسر پر اپنی تحقیق جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ پھیپھڑوں اور جلد کے کینسر کے ساتھ ساتھ سائنس دان، جگر، منہ، معدے اور بریسٹ کینسرکے ڈی این اے کا بھی مطالعہ کررہے ہیں۔ ڈاکٹر جینی کہتی ہیں کہ میرا خیال ہے کہ اٹھنے والا ہر قدم، ہمارا منزل کی جانب ہے، کینسر کی تکلیفوں سے نجات دلانے کی ہماری حتمی منزل کی جانب۔
بشکریہ VOA