روشنی ، ایک دلچسپ تحقیق اور تعارف
آئن سٹائن نے ڈبل بیہویر آف لائٹ یا روشنی کی دوہری ماہیت کے نظریہ پیش کیا۔ اس نظریے کے مطابق روشنی کو کوئی واسطہ ملے تو وہ موجوں کی صورت میں جبکہ کوئی واسطہ دستیاب نہ ہو تو وہ فوٹانز یا توانائی کے پیکٹون کی صورت میں سفر کرتی ہے۔
روشنی توانائی کی ایک قسم ہے اور زمین کے لئے روشنی کا سب سے بڑا قدرتی منبع سورج ہے۔ ہزاروں برسوں سے روشنی انسانی زندگی کا ایک اہم ترین جزو ہے لیکن اس کے باوجود روشنی سے متعلق کئی سوالات آج بھی حل طلب سمجھے جاتے ہیں۔
ایک عرصے تک سمجھا جاتا رہا کہ روشنی موجوں کی صورت میں سفر کرتی ہے کیونکہ زمین پر اس کا رویہ ایسا ہی محسوس کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے نیوٹن کے نظریے میں کہا گیا تھا کہ روشنی ذرات کی صورت میں حرکت کرتی ہے۔ تاہم دونوں ہی نظریات نے ان سوالات کو جنم دیا کہ اگر ایسا ہے توکیا خلا میں بھی کوئی ایسا واسطہ موجود ہے جو روشنی کی سورج سے زمین تک ترسیل میں معاونت کرتا ہے اور اگر ایسا واسطہ موجود ہے تو اس واسطے کی مذاحمت کے باعث زمین اور دیگر گردش کرتے سیاروں کی رفتار میں فرق کیوں نہیں پڑتا۔ پھر ایک فرضی واسطہ کا تصور بھی برسوں تک نظریات کا حصہ رہا۔ اس واسطے کو ایتھر کا نام دیا گیا تھا اور یہ واسطہ ایک ایسا آئیڈیل واسطہ تھا جوحرکت کرتے اجسام کی رفتاروں کو متاثر کئے بغیر معاونت کرنے والا سمجھا جاتا تھا۔ یہ نظریہ بہرحال بہت سالوں تک قابل قبول نہ رہا اور سوالات قائم رہے۔ آئن سٹائن نے روشنی سے متعلق کئی پرانے نظریات رد کئےآئن سٹائن نے روشنی سے متعلق کئی پرانے نظریات رد کئے
ان سوالات کے جوابات آئن سٹائن نے دیتے ہوئے ایک بالکل ہی نئی بات کہی۔ آئن سٹائن نے ڈبل بیہویر آف لائٹ یا روشنی کی دوہری ماہیت کے نظریہ پیش کیا۔ اس نظریے کے مطابق روشنی کو کوئی واسطہ ملے تو وہ موجوں کی صورت میں جبکہ کوئی واسطہ دستیاب نہ ہو تو وہ فوٹانز یا توانائی کے پیکٹون کی صورت میں سفر کرتی ہے۔
روشنی کے بارے میں آئن سٹائن نے بہت تفصیل سے گفتگو کی۔ آئن سٹائن کا نظریہ اضافیت اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ آئن سٹائن نے اسپیشل تھیوری آف ریلیٹیووٹی یعنی خصوصی نظریہ اضافیت میں کہا کہ روشنی جو کائنات میں سب سے تیز ترین شے ہے، آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت کے مطابق مادے کو توانائی میں تبدیل کیا جا سکتا ہے
اس نظریے کو براہ راست کسی تجربے کی صورت میں نہیں آزمایا جا سکا کیوں کہ آج تک انسان روشنی کی رفتار حاصل نہیں کر پایا لیکن دیگر بالواسطہ تجربات سے بہرحال آئن سٹائن کا نظریہ صحیح ثابت ہوتا چلا گیا۔ اس حوالے سے سب سے اہم مثال ایٹمی گھڑیوں کے تجربے کی دی جاتی ہے۔ ایٹمی گھڑیوں کے ذریعے وقت کے انتہائی کم وقفوں کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ ایسی گھڑیوں میں سے ایک کو تیز رفتار جیٹ پر رکھا گیا اور دوسری کو زمین پر۔پوری رفتار سے پرواز کے بعد واپس لوٹنے پر دیکھا گیا کہ دونوں گھڑیوں کے وقت میں فرق تھا۔ وہ گھڑی جو زمین پر تھی وہ آگے تھے اور وہ گھڑی جسے جیٹ جہاز میں رکھا گیا تھا، پچھے تھی۔
بشکریہ DWD