زمین کے نیچے چھپے پرانی تہذیبوں کے آثار کی تلاش میں مختلف ملکوں میں ماہرین مسلسل مصروف ہیں۔ آثار قدیمہ کے کھنڈرات ختم ہونے والے تمدنوں کا شاندار احوال پیش کرتے ہیں جو آج کے انسان کا ماضی کہلاتا ہے۔
امریکہ اور اردن کے ماہرین آثار قدیمہ نے مسلسل کئی سالوں تک کھدائی کے بعد ایک ایسے قدیم ٹیمپل یا عبادت گاہ کی باقیات کو ڈھونڈ نکالا ہے، جس کے بارے میں ماہرین کا خیال ہے کہ یہ کم از کم بھی تین ہزار سال پرانا ہے اور یہ اس دور کے تمدن کا عکاس ہے جب انسان نے لوہے کا استعمال سیکھ لیا تھا۔ ماہرین کے خیال میں یہ عبادت گاہ قدیمی مؤاب سلطنت کے دور سے تعلق رکھتی ہے۔ اس مقام پر کھدائی دس سال قبل سن 2000 میں شروع کی گئی تھی۔
اس قدیمی تہذیب کے آثار کی تلاش امریکہ کی لاسائیرا یونیورسٹی کے ماہرین اور اردن میں آثار قدیمہ
منزلہ ہے اور اس میں راہبوں کے لئے کئی کمرے بھی بنائے گئے تھے۔ دریافت ہونے والی دوسری اشیاء میں چار ٹانگوں والا ایک جانور بھی ملا ہے، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ حداد دیوتا ہے جو مؤاب قوم کے دیوتاؤں میں سے ایک مقدس دیوتا تھا۔ اس قوم کے عقیدے سے متعلق کچھ اور مذہبی اشیاء بھی کھدائی کے درمیان سامنے آئی ہیں۔ مجموعی طور پر ملنے والے کھنڈرات پر عاشوری اور مصری تہذیب کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔
اس سلطنت کا ذکر مقدس انجیل میں بھی آیا ہے۔ اندازہً بارہ سو سال قبل از مسیح میں یہ تہذیب اپنے عروج پر تھی۔ مؤاب تہذیب بحیرہ مردار کے مشرق میں پروان چڑھی تھی۔ اس دور کا ایک بادشاہ میشا نہایت مشہور ہوا تھا۔ اسی بادشاہ کے دور میں یہودی جنگجو سردار عمریہ کو شکست ہو ئی تھی اور مؤاب قوم نے یہودیوں کو سرنگوں کر لیا تھا۔ مؤاب قوم کو مفقود ہو جانے والے علاقے کنعان کا ایک قصبہ خیال کیا جاتا ہے۔ کنعان میں آباد قبائل سے صحرا نوردی کے بعد یہودی قوم کی برسوں چپقلش رہی تھی۔ اس دوران مسلح یہودیوں نے ہزاروں کنعانیوں کو تہہ تیغ کر دیا تھا۔
اس قدیمی تمدن کے آثار اردن کے دارالحکومت عمان کے جنوب مغرب میں مابادہ نامی قصبے کے قریبی مقام دہبان کے پہلو میں پائے گئے ہیں۔ دہبان سے ملتا جلتا نام دیبون اصل میں مؤاب قوم کا دارالحکومت بھی تھا۔
بشکریہ ڈی دبلیو