کرد تنازعہ پر ترک فلم باکس آفس پر ’سپر ہٹ‘
علٰیحدگی پسند اور مزاحمتی تحریکوں میں شاعری، تھیئٹر اور سنیما بھی اپنا کردار نبھاتے ہیں۔ ’بریتھ: لانگ لِو دی مدرلینڈ‘ یعنی ’سانس: زندہ باد مادر وطن‘ نامی اس فلم نے ہالی وُڈ ’بلاک بسٹرز‘ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اس فلم کی مقبولیت کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسے ترک فوج اور امن پسند گروہوں کی جانب سے بھی پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔
کسی بھی سیاسی تنازعے کے مختلف پہلو اور وجوہات جاننے کے لئے ادب کا ایک اہم کردار ہوتا ہے۔ ترکی کے سنیما نے پہلی مرتبہ ملک میں پچیس سال سے جاری کرد تنازعے پر ایک فلم بنائی، جو ’باکس آفس‘ پر زبردست ’ہٹ‘ ثابت ہوئی ہے۔
علٰیحدگی پسند اور مزاحمتی تحریکوں میں شاعری، تھیئٹر اور سنیما بھی اپنا کردار نبھاتے ہیں۔ ’بریتھ: لانگ لِو دی مدرلینڈ‘ یعنی ’سانس: زندہ باد مادر وطن‘ نامی اس فلم نے ہالی وُڈ ’بلاک بسٹرز‘ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اس فلم کی مقبولیت کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسے ترک فوج اور امن پسند گروہوں کی جانب سے بھی پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔
گزشتہ دوماہ کے دوران ترکی میں اس فلم کو تقریباً 24 لاکھ افراد نے دیکھا ہے۔ اسی لئے اس بات میں کوئی حیرت نہیں کہ اس وقت یہ فلم ترک ’باکس آفس‘ پر تیسری پوزیشن پر قائم ہے۔ فلم ’بریتھ: لانگ لِو دی مدرلینڈ‘ نے چھٹی ’ہیری پاٹر‘ فلم کو بھی پیچھے دھکیل دیا ہے۔
اس فلم کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں نہ ہی حب الوطنی کے جذبے اور نہ ہی فوجیوں کو ہیرو کے طور پر دکھایا گیا ہے بلکہ اس میں گزشتہ پچیس سال سے جاری کُرد تنازعے اور سڑکوں پر روز مرہ کے تشّدد اور اس کے اثرات پر زیادہ دھیان دیا گیا ہے۔ یہ فلم اس گرما گرم بحث کا بھی حصہ ہے، جس میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی ہے کہ آخر غلطی کہاں ہوئی اور کس طرح خون خرابے پر قابو پایا جا سکتا ہے؟
فلم پر تبصرہ کرنے والے بعض ناقدین کے مطابق ’بریتھ: لانگ لِو دی مدرلینڈ‘ ترک سنیما کی پہلی جنگ مخالف فلم ہے۔ ناقد عطیلا دورسے نے کہا کہ لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آخر تنازعے کے دوران ان کے بچوں، بھائیوں، رشتہ داروں اور ہم وطنوں کو کن کن مشکلات سے گزرنا پڑا۔’’یہ فلم لوگوں کے جذبات کو چھورہی ہے۔‘‘
ہدایت کار Levent Semerci کی اس فلم میں سن 1990ء میں ایک فوجی چھاوٴنی کے اندر لوگوں کو درپیش مشکلات کے بارے میں اہم معلومات ملتی ہیں۔ انیس سو نوے کی دہائی میں ترک فوج اور علیٰحدگی پسند کردوں کے درمیان لڑائی اپنے عروج پر تھی۔
انقرہ حکومت اور مسلح کرد علیٰحدگی پسندوں کے درمیان گزشتہ پچیس برسوں سے جاری خونریز جھڑپوں میں اب تک 45 ہزار سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔ شورش کے دوران فریقین کی طرف سے حقوق انسانی کی سنگین خلاف ور زیاں بھی ہوئی ہیں۔
ترک فوج اس فلم کو اپنے نظریے سے دیکھ رہی ہے جبکہ امن کے حامی کارکن اسے اپنی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔
اس فلم میں ایک فوجی دن میں ہی اپنی گرل فرینڈ کے بارے میں خواب دیکھتا ہے اور فوراً اس کے منہ سے یہ جملہ نکلتا ہے:’’میری محبت، تم ہی میری مادر وطن ہو۔‘‘ اپنی محبوبہ کے کانوں کے بالکل نزدیک اس سرگوشی کے ساتھ ہی یہ فوجی بیدار ہوجاتا ہے اور تنازعے کی اصل حقیقت اور تلخی سے واقف ہوجاتا ہے۔
ترکی میں ایک اور فلم "Iki Dil Bir Bavul” بھی بے حد پسند کی گئی ہے۔ گزشتہ آٹھ ہفتوں میں اب تک تقریباً 80 ہزار افراد اس فلم کو دیکھ چکے ہیں۔
ابھی حال ہی میں ترکی کی ایک عدالت نے کردوں کی سیاسی جماعت پر پابندی عائد کر دی۔ اس پارٹی پر مسلح علٰیحدگی پسند کرد تنظیم ’کردستان ورکرز پارٹی‘ کے ساتھ گہرے روابط کا الزام عائد کیا گیا۔ عدالتی فیصلے کے بعد ترکی میں ایک بار پھر تشّدد بھڑک اٹھا۔
ایک اور فلم ہدایت کار ازگر دوگان کے مطابق کرد تنازعے پر روشنی ڈالنے کے لئے غیر جانبدار کوشش رائیگاں نہیں جائے گی تاہم ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ایسی سوچ کہ فلمیں زمینی حقائق کو تبدیل کر سکتی ہیں، گستاخی کی عکاسی کرتی ہے!