جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے چینی دارالحکومت بیجنگ میں جرمن مصوری کے نمونوں کی اب تک سب سے بڑی نمائش کا افتتاح کیا۔ قومی عجائب گھر میں منعقدہ یہ نمائش ایک سال تک جاری رہے گی۔
’نشاۃ ثانیہ کا آرٹ‘ نامی اِس نمائش میں برلن، ڈریسڈن اور میونخ کے عجائب گھروں سے مستعار لیے گئے آرٹ کے 600 سے زیادہ شاہکار رکھے گئے ہیں۔ یہ نمائش بیجنگ کے نیشنل میوزیم میں ہو رہی ہے، جو ابدی امن کے چوک پر واقع ہے۔
یہ وہ چوک ہے، جہاں ایک پارٹی والی اِس کمیونسٹ ریاست کی طاقت سب سے زیادہ نمایاں طور پر دکھائی دیتی ہے۔ اِس چوک میں بے شمار عام لوگوں اور سیاحوں کے ساتھ ساتھ ہر جگہ پولیس اور فوج کے سپاہی بھی سادہ کپڑوں میں موجود ہوتے ہیں۔ یہیں 1989ء میں عوام کے خلاف ٹینک اور دستے صف آراء ہوئے تھے۔ اب اِسی چوک میں یورپی تاریخ کے نشاۃ ثانیہ کے اہم دور کے فنی نمونوں کی نمائش ہو رہی ہے۔ یہ وہ دور تھا، جس نے یورپ میں آزادی کی اَقدار اور انسانی حقوق کی بنیادیں فراہم کی تھیں۔ تاہم ڈریسڈن کے ریاستی میوزیم کے ڈائریکٹر جنرل مارٹن روتھ کہتے ہیں کہ نمائش کا مقصد کوئی کھلے سیاسی پیغام دینا نہیں ہے۔
مارٹن روتھ کے مطابق آرٹ میں کسی بھی موضوع کی دو، تین یا چار جہات ہوا کرتی ہیں۔ کوئی بھی پیغام نمایاں کر کے سامنے نہیں لایا جاتا بلکہ دیکھنے والے کو اُس موضوع کے اندر جانا پڑتا ہے۔
اِس نمائش کے ذریعے چین میں آرٹ کے پرستاروں کو بہرحال خوبصورت تصاویر دیکھنے کو ملیں گی۔ اِس نمائش کو 9 الگ الگ موضوعات مثلاً تاریخ میں نئی دلچسپی، اٹھارویں صدی میں جدید علوم کی دریافت اور اظہارِ رائے کی آزادی وغیرہ کے اعتبار سے ترتیب دیا گیا ہے۔
دورِ حاضر کے معروف ترین چینی مصور آئی وائی وائی کے مطابق اِس بات کا امکان کم ہی ہے کہ یہ نمائش اور اِس میں رکھے فن پارے کسی نئی سماجی بحث کی تحریک کا باعث بنیں گے۔
فلسفی سُو ژُو ژُو کے مطابق چین میں سیاسی بحث مباحثے کی گنجائش آج کل اتنی کم ہو چکی ہے، جتنی کہ گزشتہ تیس برسوں میں کبھی بھی نہیں تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ آج چین کو اپنی نشاۃ ثانیہ کی ضرورت ہے، جس کی اُن کے خیال میں تشریح یہ ہو سکتی ہے کہ انسانی حقوق بحال کیے جائیں اور اُن کا تحفظ کیا جائے۔
بشکریہ ڈی ڈبلیوڈی