جین شارپ کے نام سے بہت ہی کم لوگ واقف ہوں گے۔ شارپ ایک سادہ سی شخصیت کے مالک ہیں لیکن دنیا بھرکے آمر انہیں اپنے لیے ایک خطرہ سمجھتے ہیں۔ اسی طرح متعدد ممالک میں حکومتی ناقدین بھی ان کے خیالات سے بہت متاثر ہیں۔
جین شارپ کے نام سے بہت ہی کم لوگ واقف ہوں گے۔ شارپ ایک سادہ سی شخصیت کے مالک ہیں لیکن دنیا بھرکے آمر انہیں اپنے لیے ایک خطرہ سمجھتے ہیں۔ اسی طرح متعدد ممالک میں حکومتی ناقدین بھی ان کے خیالات سے بہت متاثر ہیں۔ جین شارپ ایک ایسے مؤرخ ہیں، جن کی کتابوں میں تشدد سے پاک مزاحمت کا درس ملتا ہے۔ ان کی ایک کتابFrom Dictatorship to Democracy کو دنیا بھر میں اپنے اپنے ملکوں میں اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے افراد مشعل راہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
83 برس کی عمرمیں جین شارپ آج بھی روزانہ کام کرتے ہیں۔ ان کے دفتر اور گھر کا درمیانی فاصلہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ وہ امریکی شہر بوسٹن کے البرٹ آئن شٹائن انسٹیٹیوٹ کے ایک حصے میں ہی رہتے ہیں۔ اس گھر میں صرف دو ہی افراد ہوتے ہیں وہ اوران کی مینیجر جمیلہ رقیب۔
جین شارپ کی کتابFrom Dictatorship to Democracy یعنی’آمریت سے جمہوریت تک‘ کا اب تک 28 زبانوں میں ترجمہ کیا جا چکا ہے۔ ان کی یہ کتاب بیسٹ سیلرز میں شمار کی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود وہ بلا معاوضہ اس کی ڈسٹری بیوشن جاری رکھے ہوئے ہیں۔ صرف سوصفحات ہونے کی وجہ سے یہ کتاب ضخیم تو نہیں ہے لیکن اس کا فکری وزن دنیا بھر میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔
میانمارسے بوسنیا تک اور مصر سے لے کر زمبابوے تک، اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے اور پرامن انداز میں تبدیلی لانے کے خواہاں افراد اس کتاب کو پڑھ کراس میں سے مشورے لیتے ہیں۔
جین شارپ نے’آمریت سے جمہوریت تک‘ 1993ء میں دورہء میانمار کے بعد تصنیف کی تھی۔ اپنے اس دورے کے دوران انہوں نے مقامی باشندوں کو تشدد کا راستہ اختیار کیے بغیر مزاحمت کرنا سکھایا تھا۔ اس کتاب میں 198 طریقے بتائے گئے ہیں کہ کس طرح انتخابی عمل کا بائیکاٹ کر کے، بھوک ہڑتال کر کے یا دھرنا مار کر حکومت کی مخالفت کی جا سکتی ہے۔
جین شارپ کہتے ہیں کہ انکار کرنے کے بہت سے انداز ہوتے ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک شرمیلے اور خاموش طبیعت مفکر ہیں۔ لیکن ان کے مشوروں کی جھلک ہر پر امن احتجاج میں دکھائی دیتی ہے۔ ان کا اس بات پر کامل یقین ہے کہ ہتھیار اٹھائے بغیر بھی حکومتوں کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ یہی وہ پیغام ہے، جو شارپ دنیا بھر میں پہنچانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ اسی دوران وینزویلا، ایران اور میانمار کی حکومتیں جین شارپ کو امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کا ایجنٹ بھی قرار دے چکی ہیں۔
۔بشکریہ ڈی ڈبلیو ڈی