تحریر: احمد وجیہہ السمائ
قوموں کی زندگی میں آزادی کی حیثیت روح سی ہوتی ہے اور آزاد قومیں جس طر ح سے پلھتی پھولتی ہیں اور ترقی کرتی ہیں مغلوب قوموں کا نصیب نہیں ہوتا جس کی واضح مثال برصغیر پاک و ہند میں مسلم قوم کے انگریزوں کی غلامی کے سو سال کا دور ہے مسلمان اس سو سالوں میں کوئی خاطر خواہ ترقی نہیں کر سکے اور اسی بنیاد پر مسلم لیگی لیڈروں کو قائداعظم کی راہنمائی میں مسلمانوں کے مسائل کا حل صرف اور صرف آ زادی میں نظر آ یا اور قائد کی شاندار قیادت میں مسلمان اپنے لئے علیحدہ وطن حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے
14 اگست 1947ءایک تاریخی دن بن کر دنیائے سیاست جغرافیہ میں رقم ہو گیا اور ہما ر ے لئے 14اگست کی تاریخ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ایک اہم دن بن گیا اس دن کی اہمیت کئی لحاظ سے ہے
ایک تو یہ ہماری جدوجہد کے ثمر کا دن ہے گویا تشکر بجا لانے کا دن ہے اور دوسرا یہ دن ہمارے لئے خوشی کا دن ہے اور ہمارے لئے خوشی منانے اور احساس آزادی کو زندہ کر نے کا دن ہے تیسرا یہ دن تجدید عہد اور اپنے بنیادی نصب والعین کو دہرانے کا دن ہے اور سب سے بڑھ کر یہ دن ہمارے لئے احتساب کا دن ہے بحیثیت فرد اور قوم اپنے اعمال کا احتساب کہ کیا ہمارا قومی سفر شاہراہ زندگی پر اپنی متعین منزل کی طرف ٹھیک طریقے سے جاری و ساری ہے یا نہیں؟ اور آج14 اگست 2010ءمیں جشن آزادی مناتے ہوئے ہمارے لئے سب سے زیادہ اہمیت اسی نکتہ کی ہے یعنی قومی احتساب کی ایک نوجوان سے لیکر ایک بوڑھے عمر رسید ہ بزرگ تک چوکیدار سے لیکر آفسر مجاز تک ، ایک کارکن سے لیکر ایک سیاسی لیڈر تک ، قوم کے ہر طبقہ اور شعبہ زندگی کے ہر فرد کو اپنا احتساب ایک قومی سوچ کے ساتھ کر نے کی ضرورت ہے اگر قوم 2010ء کا جشن آ زادی اس عزم اور جشن کے ساتھ مناتی ہے کہ ہم اپنا احتساب خود کریں گے اور اپنی اصلاح کریں گے تو شاید آ نے والے سالوں میں کسی احتساب بیروز کی ضرورت نہ رہے جن پہلوؤں پر زیادہ غور کر نے کی ضرورت ہے ۔میں ان کی نشاندہی کرنا اپنا اخلاقی فر ض سمجھتا ہوں
جشن آزادی کی تیاریاں کر تے ہوئے ایسے احراف کو رواج دیا جا رہا ہے جو ہماری قومی اور معاشرتی اقدار سے مطابقت نہیں رکھتا ہمیں اس سے پرہیز کرتے ہوئے کفایت شعاری اور خوشی منانے کے مابین ایک مطابقت اور ہم آہنگی پیدا کرنے کی ضرورت ہے ہم جانتے ہیں کہ ہماری قوم بین الاقوامی قرضوں کے دباﺅ تلے کچلی جارہی ہے اگر ہم اس دن کو ان قرضوں سے نجات کے لئے ایک عزم کے طور پر استعمال کریں تو شاید ہماری خوشی حقیقی خوشی کا روپ دھار ے گی ورنہ ہماری قوم کی مثال اس بھٹہ مزدور کی سی ہو گی جو اپنے بچوں کی شادی و بیا ہ کی وقتی خوشی کے لئے ان کی زندگی بھر کی خوشیاں ”گروی“ رکھ کر انھیںقرضوں کے بوجھ تلے دبا دیتا ہے اور وہ زندگی بھر اس سے چھٹکارہ نہیں پا سکتے
ہمارا دوسرا اہم کام اپنے قومی شعار اور علامات کی عزت و تعظیم کا خیال رکھنے کا ہونا چاہیئے اگست کے مہینے میں بنائے اور بیچے جانی والی بے شمار اشیاء14 اگست کے بعد یوں بے وقعت و بے توقیر ہو جاتی ہیں گویاوہ کسی ایسی قوم کی علامات ہوں جس کے آ ثار کسی کھنڈر سے ملے ہیں اس کی مثال آرائشی جھنڈیاں جو قومی پرچم کی شکل میں ہو تی ہیں اور اس پر علامہ اقبال۔ اور قائداعظم کی تصاویر بھی بنی ہوتی ہیں کی بے حرمتی ہوتی ہے جتنے شوق اور محبت سے یہ 13 اور 14 اگست کو آ ویزاں کی جاتی ہیں اس سے کہیں زیادہ بے دردی اور بے حسی سے یہ 15 اگست سے گلی کوچوں، نکاس آب نالیوں ، اور کوڑے کے ڈھیروں پر روندی جاتی ہیں جو کسی بھی طرح سے ایک احساس مند اور زندہ قوم کا وطیرہ نہیں
قومی لیڈروں پر فرض ہے کہ قوم کی راہنمائی صرف سیاسی جلسوں میں مخالفین کے خلاف سیاسی نعروں تک محدود نہ رکھیں بلکہ ایسی چھوٹی چھوٹی با توں پر قوم کی راہنمائی کریں جن کے ملنے سے قوم کوایک بڑا نصب و العین یاد رہ سکے اور قومی لیڈر اکثر 14 اگست کی تقاریر میں قائداعظم کا پاکستان کے نعرے لگاتے ہیں لیکن قوم کو پکار کر ان کی خامیوں کی نشاندہی نہیں کرتے اور نا ہی ان کی خامیوں کو دور کرنے کے لئے ان کی راہنمائی کرتے ہیں کوئی سیاسی لیڈر14 اگست کی تقریر وں میں ملک کے مسائل کو اجاگر کر کے راہنمائی کرتا دیکھائی نہیں دیتا یہی نہیں بلکہ
نوجوانوں کا اپنے قومی تہواروں پر غیر مناسب ، غیر منظم اور غیر ذمہ دارانہ رویہ قائداعظم نے کبھی بھی نوجوانوں سے ایسے رویے کی امید نہیں رکھی تھی ۔ جو قومی تہواروں پر آج کل اختیار کیا جا رہا ہے خوشی منانے کا غیر ذمہ دارانہ انداز روز بروز زور پکڑتا جا رہاہے اور نہ تو حکومت نہ سیاسی راہنماءاور نہ ہی قوم کے بزرگ یعنی والد ین نوجوانوں کو اس سے پرہیز کرنے کی تلقین کرتے نظر آ تے ہیں ۔نہیں کرتے تلقین ۔قومی شاہراہوں پر نوجوان ٹولیوں کی شکل میں موٹرسائیکلوں پر ویلنگ کرتے نظر آ تے ہیں اور گاڑیوں کی چھتوں پر بھنگڑے ڈالتے ہو ئے اکثر میڈ یا پر دکھائے جاتے ہیں جس سے نا صرف ہر سال قیمتی جانیں ضائع ہوتی ہیں بلکہ ہمارے منظم قوم ہونے پر بھی سوالیہ نشان لگ جاتا ہے اور یہ ہم سب کچھ ایسے قومی تہوار کو منانے کی آ ڑ میں کر رہے ہیں جو ہم سے قائداعظم کے بقول نظم باہمی کا شدید مطالبہ کرتا ہے لیکن ہمیں اس کی کو ئی پرواہ نہیں دعا ہے کہ14 اگست 2010ءہماری قوم کو ” ایمان ، اتحاد ، اور نظم “ کا صحیح مطلب سمجھنے اور اس پر آ ئندہ سالوں میں عمل پیرا ہو نے کی توقیق بخشے(آمین)