طارق حسین بٹ(چیر مین پاکستان پیپلز ادبی فورم )
اگر ہم تاریخ کے اوراق کا بغور مطالعہ کریں تویہ حقیقت اظہر من ا لشمس نظر آتی ہے کہ دنیا میں ہر دور میں طبقاتی خلیج نے انسانوں کے درمیان نفرتوں کو جنم دیا۔ باہمی جنگ و جدل کی راہیں ہموار کیں، انقلاب کی بنیادیں رکھنے میں بنیادی کردار ادا کیا اور تخت نشینوں کو خاک نشین ہونے پر مجبور کیا ۔بادشاہوں، راجہ مہاراجوں اور سرداروں کی چیرہ دستیوں اوربے انصافیوں نے مظلوموں کو بغاوت پر آمادہ کیا اور ایک د فعہ جب مجبو رو مہقور لوگ بغاوت کی مشکل اور جان لیوا راہ پر چل نکلے تو پھر ان کے ہاتھوں سے بادشاہت کے سارے بت پاش پاش ہو تے چلے گئے۔ انقلاب کی ان ساعتوں میں نہ زارِ روس بچتا ہے اور نہ شاہِ ایران کی اڑھائی ہزار سالہ بادشاہت کے جاہ و جلال کو کہیں سر چھپانے کو جگہ ملتی ہے ۔ چیانگ
تاریخ کے صفحات اس بات کے گواہ ہیں کہ آہنی زنجیروں میں جکڑے ہوئے بے بس اور مظلوم عوام نے اپنے لہو سے جبا رو قہار حکمرا نوں کے اقتدار کے سورج کا خاتمہ بھی کیا اور انھیں عبرت کی مثال بھی بنا یا۔آزادی ، انسان دوستی اور تکریمِ انسانیت کے سرفروش بڑی بڑی آزمائشوں سے گزرے تب کہیں جا کر آزادی کی وہ صبح انسانیت کا مقدر بنی سکی جس میںا اس کے عزت و احترام سے رہنے کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے۔ میں کارل مارکس کے اس نکتہ نظر سے اتفاق کرتا ہوں کہ ہماری دنیا در حقیقت دو طبقات کے درمیان بٹی ہو ئی ہے اور ان کی باہمی آویزش کی دلخراش داستان ہی اصل میں حقیقی تاریخ ہے۔ ایک طبقہ بے سہاروں کا طبقہ ہے جن کے حقوق کو غصب کیا گیا ہے اور دوسرا طبقہ غاصبوں کا طبقہ ہے جس نے یہ حقوق غصب کئے ۔تاریخ ہمیں انسانی معاشرے میں ایسے حکمرانوں سے متعارف کرواتی ہے جن کا واحد مقصد انسانوں کو اپنے پنجہ¾ِ استبداد میں جکڑنا اور انھیں اپنی غلامی پر مجبور کرنا تھا۔حصولِ اقتدار اورہوسِ زر پرستی میں لتھڑے ہو ئے اس طبقے میں انسانی جذبے یوں مفقود ہوتے ہیں جیسے لاش کے اندر زندگی کے آثار اور جسم کے اندر روح کی عدم موجودگی۔ ان کے لئے اصول و ضوابط اور عدل و انصاف کے سارے نعرے فریبِ نظر کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتے ۔ زندہ انسانوں کو دیواروں میں چنوا دینا اور وحشی درندوں کے سا تھ ان کی موت کے مناظر سے لطف اندوز ہو نے کی داستانیں سفاک اور بے رحم حکمرانوں کے ہاتھوں سے ہی سر انجام پا تی ہیں لیکن عجیب اتفاق ہے کہ ایسے سفاک اور درندہ صفت حکمرانوں کا عبرت انگیزانجام بھی انہی مجبورو مہقور عوام کے ہا تھوں مکمل ہوتا ہے جنھیں وہ ا پنے پاﺅں تلے روند کر مسحور ہوا کرتے تھے۔۔
ان دو طبقات کے درمیان باہمی آویزش کی داستان سے تاریخ کے صفحا ت بھرے پڑے ہیں۔ مختلف مکتبہ فکر اور سوچ کے حامل انسانوں کے درمیان مفا دات کا ٹکراﺅ ہی انسانیت کی پوری تاریخ کو اپنی گرفت میں لئے ہو ئے ہے۔ پرانے زمانوں میں قیصر کی بادشاہت کے تصور نے انسانوں کے بنیادی حقوق کو سلب کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا تھا۔مذہبی پیشوائیت نے بھی قیصر کے تصور کو آگے بڑھانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا کیونکہ قیصر کو ظلِ سبحانی کہنے سے ان کے اپنے مفادات بھی پورے ہو تے تھے۔مذہبی پیشوائیت اور قیصر کے باہمی گٹھ جوڑ نے انسانی آزادیوں کو سلب کرنے اور انھیں ظلم و جبر کی آہنی زنجیروں میں جکڑنے میں کو ئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی اور اگر میں یہ کہوں کہ مذہبی پیشوائیت نے بنیادی انسانی حقوق کو سلب کروانے میں مرکزی کردار ادا کیا تو بے جا نہ ہو گا۔ مذہب کی آڑ میں جورو ستم کی جس بے رحما نہ روش کو رو بعمل لایا گیا اس کے تصور سے انسانیت کا کلیجہ کانپ جاتا ہے ۔سائنسدانوں، حکما، فلاسرز، دانشوروں اور ادبا کو زندانوں کی تنگ و تاریک کوٹھریوں کے حوالے کیا گیا اورانھیں انسانیت سوز سزا ئیں سنا ئی گئیں لیکن ان مشاہیر نے انسانی آزادیوں کے اپنے تصور سے سرِ مو انحراف کرنے سے انکار کر دیا۔انھوں نے اپنے لہو کی سرخی سے آزادی کے جس باب کو رقم کیا بعد میں آنے والی نسلیں ان کے انہی کارناموں پر بجا طور پر فخر بھی کر رہی ہیں اور اس میں انسانیت کی نجات کی راہیں بھی تلاش کر رہی ہیں۔۔
اس میں شک و شبہ کی مطلق کوئی گنجائش نہیں کہ یہ انہی عظیم دانشوروں اور حریت پسندوں کی جدو جہد کا ثمر ہے کہ دنیا جمہو ریت سے روشناس ہو ئی اور قیصر کی بادشاہت کے تصور کو حرفِ غلط کی طرح مٹا یا گیا۔مغرب نے جمہوری قدروں کو اپنانے اور شحصی آزادیوں کے نئے دور کا آغاز کیا۔ ووٹ کی طاقت سے حکومت سازی کے نئے نظام سے دنیا روشناس ہوئی اور عوام کی رائے کی طاقت کو تسلیم کیا گیا۔ یور پی اقوام نے امورِ مملکت میں مذہب کی اجارہ داری کا خاتمہ کر کے نئے جمہوری تجربے سے فائدہ اٹھا تے ہوئے اپنے سارے معاملات کو درست کر کے علم و آگہی اور ترقی کی نئی بنیادیں رکھیں اور سائنس کی حیرت انگیز قوت سے پوری دنیا پر اپنا تسلط قائم کر لیا ۔توہمات کا شکار قومیں آج بھی تذبذب کا شکار ہیں اور دو راہے پر کھڑی اب بھی کسی غیبی اشارے کی منتظر ہیں۔ کچھ قو میں مذہبی پیشن گوئیوں پر یقین کی عمارت تعمیر کر کے کسی آنے والے کے انتظار میں فکرو عمل سے عاری ہو چکی ہیں ۔ زندگی کی حرارت ان کی روح سے مفقود ہو چکی ہے اور وہ صرف پتھر کے ایسے مجسمے ہیں جو دلکش تو ہو سکتے ہیں لیکن جو حرکت کرنے سے معذور ہو تے ہیں کاش کوئی ان اقوام کو بتا سکے کہ زندگی انتظار کی بھول بھلیوں سے نہیں بلکہ عمل کے بیلچے سے د ھر تی کا سینہ چیر کر اس میں چپھے خزانوں کی مالک بنا کرتی ہے۔
آتی ہے دمِ صبح صدا عرشِ بریں سے۔۔کھویا گیا کس طرح تیرا جوہرِ ادراک
مہرو مہ و انجم نہیں محکوم تیرے کیوں۔۔کیوں تیری نگاہوں سے لرزتے نہیں افلاک (ڈاکٹر علامہ محمد اقبال)
اسلامی ممالک کی اکثر حکومتیں آج بھی اسی ملوکیت کی تراشیدہ راہوں پر گامزن ہیں اور شخصی آزادیوں کے حوالے سے رجعت پسندانہ خیا لات کی حامل ہیں جو قدیم زمانے میں بادشا ہوں کا طرہِ امتیاز ہوا کرتا تھا۔مذہب کے نام پر استحصال کی نئی راہیں کھول کر لوگوں کو بنیادی حقوق سے محروم رکھا ہوا ہے اور ان کا قائم کیا ہوا اقتدار نسل در نسل منتقل ہو تا رہتا ہے۔۔کسی کو آزادیِ اظہار کا حق حاصل نہیں ہے اورجو کوئی بھی ان کے اندازِ حکمرانی پر تنقید کرتا ہے ریاست کی طاقت اسے ملیا میٹ بھی کر تی ہے اور اسے اذیت ناک انجام سے بھی دوچار کرتی ہے۔عجیب اتفاق ہے کہ یہ سب کچھ مذہب کے نام پر روا رکھا جاتا ہے حالانکہ اسلام نے بحیثیتِ دین کبھی بھی ملوکانہ اندازِ فکر کی حمائت نہیں کی اور نہ ہی اس طریق کو جائز قرار دیا ہے، اسلام تو برابری اور مساوات کا مذہب ہے انسانی رواداری اور برداشت کا مذہب ہے ۔ عدل و انصاف کا مذہب ہے اور تکریمِ انسانیت کا سب سے بڑا داعی ہے جس کے ہاں فقرو فاقہ،توکل اور قناعت کو بڑا بلند مقام عطا کیا گیا ہے ۔قیصر و کسر ی کے جس استبداد کو اسلام نے اپنے سنہری اصولوں اور آفاقی پیغام سے ملیا میٹ کیا تھا مذہبی پیشوائیت نے اسی اندازِ حکمرانی کو جائز قرار دے کر اسلام کے اجلے دامن کو داغدار کر رکھا ہے۔۔
خود طلسمِ قیصری و کسری شکست۔۔خود سرِ تختِ ملو کیت نشست
تا نہالِ سلطنت قوت گرفت۔۔دینِ او از ملوکیت گرفت (ڈاکٹر علامہ محمد اقبال)
وہ مسلمان ممالک جہاں پر ملوکیت نہیں ہے وہاں پر فوجی ٹولے نے اقتدار پر قبضہ کر کے عوام کو اپنا یرغمال بنا ر کھا ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک اور پاکستان ایسے فوجی شب خون کی کھلی مثا لیں ہیں۔پاکستان جس نے ایک شاندار جمہوری جدو جہد سے تخلیقِ پاکستان کا معجزہ سر انجام دیا تھا اس کے ہاں فوجی شب خون کی داستان بڑی عجیب و غریب لگتی ہے لیکن سچ یہی ہے کہ پاکستان میں فوجی حکومتیں اور شب خون معمول کے واقعات ہیں اور فوج کی حاکمیتِ اعلی سب سے فائق مقدم اور بلند مقام پر متمکن ہے۔ جس کسی نے بھی فوج کی اتھا رٹی کو چیلنج کرنے کی کوشش کی اسے عبرت انگیز انجام سے دوچار کیا گیا۔ سرِ دار کھیچ دیا گیا ، سرِ عام قتل کر دیا گیا اور عوام کے جمِ غفیر کے درمیان موت سے ہمکنار کر دیا گیا کس میں اتنی ہمت ہے کہ وہ قتل کی ان سازشوں کے سرغنوں کا نام سرِ منبر لے سرِ محفل لے۔ آنکھیں قاتلوں کو روز اپنے سامنے دیکھتی ہیں روز ان سے دوچار ہو تی ہیں ہر روز ان سے اظہارِ نفرت کرتی ہیں ہر روز ان سے انتقام کی خو پالتی ہیں اور ہر روز سر بستہ راز وں سے پردہ اٹھانے کی قسم کھاتی ہیں لیکن پھر سب کچھ مصلحتوںکی اندھی کھائی میں گر جاتا ہے اورذا تی مفادات سچائی کی کھوج پر مقدم ہو جاتے ہیں یہی روزِ اول سے ہو تا آرہا ہے اور یہ اسی طرح جاری و ساری رہے گا تا وقتیکہ کو ئی بڑا قائد موت سے بے پرواہ ہو کر اس روائت سے بغاورت کرکے مخصوص فوجی ٹولے کی قوت کو للکارے اور سچی ،کھری اور اصلی جمہوریت کا تحفہ عوام کو دے لیکن ہنوز دہلی دور است کے مصداق ایسا ہو نے کے امکانات معدوم نظر آتے ہیں ۔۔
پاکستان میں مارشل لا آتے رہے مخصوص سیاستدان اس کے ساتھی بنتے گئے اقتدار کے مزے لوٹتے رہے اور ہر آمر کے جانے کے بعد نئے آمر کے خوشہ چین بن کر جمہوریت سے اپنی وابستگی بھی قائم رکھتے رہے۔۵ جولائی ۷۷۹۱ پاکستانی تاریخ میں ایک ایسا دن ہے جس دن جنرل ضیالحق نے آئینی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا لیکن عوامی امنگوں کے ترجمان اور امین ذولفقار علی بھٹو نے اس مارشل لا کے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کر دیا۔ذولفقار علی بھٹو پرسیا ست سے دست برداری اور جلا وطنی کے لئے دباﺅ ڈالا گیا لیکن اس نے کسی بھی دبا ﺅ کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس نے آئین کی دفعہ چھ کے تحت جنرل ضیا الحق پر آئین سے بغاوت کا مقدمہ دائر کرنے کی دھمکی دے دی جس کے جواب میں جنرل ضیا الحق نے اسے قتل کے ایک مقدمے میں ملوث کر کے ۴ اپریل ۹۷۹۱ کو سپریم کورٹ سے بزورِ قوت اس کی پھانسی کا حکم صادر کروا کے اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنے را ستے سے ہٹا دیا۔
ذولفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ سورج مشرق کی بجا ئے مغرب سے طلوع ہو سکتا ہے لیکن ذولفقار علی بھٹو عوام کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتا۔ اس نے اپنے وعدے کی صداقت پر اپنی جان کو نچھاور کر دیا لیکن عوامی حا کمیت کے اپنے فلسفے سے رو گردانی نہیں کی۔ اس نے سرِ دار جھول جانے کو ترجیح دے کر ایک آمر کے ساتھ سمجھوتہ کرنے سے انکار کر دیا اور تا یخ کے سینے میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے امر ہو گیا ۔ عوام کو اس کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ آج اس کی شہادت کہ بتیس سال گزر جانے کے باوجود بھی اس سے عوام کی محبت اور چاہت میں رتی برابر بھی کمی نہیں آئی اور سیاست کا چمن آج بھی اسی کے نام سے آباد ہے۔ کیا کوئی ہے جو اس قائم کردہ روائت کا علم تھام کر خفیہ ہاتھوں کی کارستانیوں کو روکے اور عوامی امنگوں کا حقیقی ترجمان بنے اور شہیدِ جمہو ریت کے نقشِ قدم پر چل کر عوامی حاکمیت کے اجلے تصور کو عملی تعبیر عطا کرے تاکہ پاکستان میں فوجی شب خون کے دروازے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند ہو جائیں اور پاکستانی قوم جمہوریت کے ان ثمرات سے بہرہ ور ہو جو وجہِ تخلیقِ پاکستان بنی تھی۔۔
میرے بغیر کون تھا منصورِ عصرِ نو۔۔رسمِ وفا کا اور طلب گار کون تھا
بھٹکا ہوا تھا قافلہ صحرائے درد میں۔۔دیکھو ذرا تو قافلہ سالار کون تھا
(ڈاکٹر مقصود جعفری )
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،