۔۔۔آ خر کب تک۔۔۔
تحریر: طارق حسین بٹ( چیر مین پاکستان پیپلز ادبی فورم )
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس میں ہر سال با قاعدگی سے سیلاب آتے ہیں کئی علاقے زیرِ آب آجا تے ہیں گا ﺅ ں کے گا ﺅ ں با رش کے طو فانی ریلو ں کی نذر ہو جا تے ہیں اور سینکڑو ں لوگ لقمہِ اجل بن جا تے ہیں لیکن ہماری روش میں سرِ مو فرق نہیں آ تا ۔پاکستان جغرا فیا ئی طور پر جس خطے میں وا قع ہے وہاں پر شدید بارشو ں کا ہو نا ایک فطری عمل ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے با رشو ں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب سے نپٹنے کے لئے کو ئی منصوبہ بندی کر رکھی ہے یا کہ نہیں ۔مون سون کے موسم میں تو با رشیں کئی کئی دن تھمنے کا نام نہیں لیتیں اور اس کثرت سے ہو تی ہیں کہ سارا نظامِ موا صلات اور ٹرانسپورٹ بے اثر ہو کر رہ جا تا ہے۔ منہ زور طوفان حدود فرا موش ہو کر بستیوں کو نگل جا تے ہیں اور ہم کھڑے تماشہ دیکھتے رہتے ہیں ۔سائنسی ایجادات سے دنیا نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ اب کئی کئی دن پہلے یہ بتا دیا جا تا ہے کہ فلاں علا قے میں فلاں دن اتنے گھنٹے با رش ہو گی اور کم و بیش ایسے ہی ہو تا ہے ۔ لوگ پیشگی اطلا ع سے حفا ظتی تدا بیر ا ختیار کر لیتے ہیں اور یو ں نقصا نات سے محفوظ ہو جاتے ہیں۔ سرد علا قوں میں جہا ں بر ف با ری کی وجہ سے راستے اور سڑکیں بند ہو جا تی ہیں قبل از وقت اطلاع عوام کو حفا ظتی فیصلے کر نے میں ممد و معاون بنتی ہے لیکن ہم ہیں کہ ہر سال سیلاب کے آنے کا انتظار کرتے ہیں اورجب طو فانِ بادو باراں قوم کو تباہ کر کے گزر جا تا ہے تب ہماری آنکھیں کھلتی ہیں ۔با رشوں کے نتیجے میں ہو نے وا لے نقصا نا ت کو مشیعتِ ایز دی، نوشتہِ تقدیر اور مقدر کا کھیل کہہ کر کر اپنی ذمہ داریو ں سے صرفِ نظر کر جا تے ہیں او ر طو فان کی تبا ہ کا ر یوں کو بھگتنے کے بعد اپنے بچا ﺅ اور حفا ظت کےلئے کو ئی انتظا مات نہیں کرتے بلکہ ویسے ہی غیر محفو ظ اور غیر ذ مہ دار بن جا تے ہیں جیسے طوفان سے قبل تھے اور یہ درد ناک کہا نی ہر سال بلا ر وک ٹوک دہرا ئی جاتی ہے۔
حا لیہ سیلابوں نے جو تبا ہی مچا رکھی ہے وہ کسی سے پو شیدہ نہیں ہے۔ گا ﺅں کے گا ﺅ ں پانی کے ریلو ں کی نذر ہو گئے ہیں سینکڑوں انسان اپنی زندگیو ں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔ مویشی جا نور اور ڈھو ل ڈنگر سیلا بی ریلو ں کا لقمہ بن چکے ہیںاور تبا ہی کا یہ سلسلہ ہنوز جا ری ہے ۔ کثیر تعداد میں لوگ اس وقت بھی پانی میں گرے ہو ئے ہیں بھو ک اور پیا س سے بچے بلک رہے ہیں اور روٹی کے ایک ایک نوا لے کو ترس رہے ہیں۔عفت ماب بیٹیا ں خیمہِ افلاک کے نیچے بے آسرا پڑی ہو ئی ہیں اور کو ئی انکا پر سانِ حا ل نہیں ایک قیامتِ صغری ہے جسنے پو رے ملک کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے اور ہمیں اس سے نپٹنے کا کو ئی را ستہ نظر نہیں آرہا ۔ موجو دہ تبا ہ کن صورتِ حال ہما ری کو تا ہیو ں کا منہ بو لتا ثبوت ہے ۔سب سے تشویش ناک صورتِ حال سندھ ،پنجاب اورخیبر پختو نخوا ہ کی ہے۔ پختو نخوا ہ پچھلے کئی سا لو ں سے دھشت گردی کا نشا نہ بنا ہو ا ہے۔ اس جنگ میں پختو نوں نے اپنے پیا رو ں کی قربا نیا ں دےکر دھشت گردی کے مہلک وار کو نا کام بنا یا وطن کی یکجہتی، مضبو طی اور سلامتی کی خا طر اپنے گھر پار چھو ڑے تا کہ و طنِ عز یز کی بقا پر کو ئی حرف نہ آ سکے۔ ا بھی وہ ان تمام مرا حل سے گزر رہے تھے کہ سیلاب نے ان پر ایک اور وار کر دیا اور آجکل وہ اسی کی تبا ہ کا ریو ں کا نشا نہ بنے ہو ئے ہیں حکو مت اپنے طور پر انھیں اس مشکل سے بچا نے کی اپنی انتہا ئی کو شش کر رہی ہے لیکن معاملات اسکے بس میں نہیں ہیں۔ تاریخ ہمیں بتا تی ہے کہ جب دشمن بہت طاقتور ہو اور کھلے میدان میں ا سکی قوت کا مقا بلہ کرنا ممکن نہ ہو تو شہر کے باہر خندق کھو دکر اسکی بے پنا ہ طاقت کو ر وک لگا دی جا تی ہے اور حالتِ محا صرہ میں ہی اسے شکست سے دوچار کر دیا جا تا ہے ۔ دشمن جب طاقت کے نشے میں اپنے ناپاک قدموں سے پاک دھرتی کو رھو ندنے کا قصد کر لے تو وطن کی حفا ظت کےلئے بی آر بی نہر کھود لی جاتی ہے تا کہ اسکی پیش قدمی کو ر وکا جا سکے یہ الگ با ت کہ پاک دھرتی کے جانبا زوں نے اپنے لہو سے اس دھرتی کی حفا ظت کر کے اس حصاری لا ئن تک دشمن کو آنے نہیں دیا بلکہ اپنی جا نو ں کا نذرانہ دےکر دشمن کو شکست سے دوچار کر کے اسکے نا پاک عزا ئم کو خاک میں ملا کر وطن کی حرمت اور پاک د ھر تی کی بیٹیو ں کی عصمت اور عزت و آبرو کو محفوظ کر دیاجس پر دنیاآج تک انگشت بد ندان ہے۔ اگر فطرت کی قوتیں بپھر کر ا نسانی بستیوں اور ان میں رہنے وا لے افراد کےلئے وبالِ جان بن جا ئیں تو انکی روک تھام کےلئے مالکِ ارض وسما نے تسخیرِ کا ئنات کا اعلان فرما رکھا ہے اور ایسی بلا ﺅں سے حفاظت کی منصوبہ بندی کا فن بھی انسان کو ودیعت کر رکھا ہے جو کہ دریا ﺅ ں پر بند باندھ کر اور ڈیم بنا کر پورا کیا جا سکتا ہے لیکن ہم ہیں کہ اپنے اسلاف کی دانش ، اعمال اور تجربے سے کچھ نہیں سیکھ رہے بلکہ اپنی نا ا ہلی سے اپنے پیا روں کو موت کی آغوش میں دھکیل کر انکی لا شو ں پر ماتم کناںہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ شا ہین صفت ہو نے اور ایمان کی دولت سے سرفراز ہو نے کے با و جود ہم تسحیر فطرت سے پہلو تہی کر کے معصوم شہر یوں کی ہلا کت کا ساما ن کر رہے ہیں۔
کئی عشرے قبل کا لا باغ ڈیم کے نام سے ایک منصوبے کا ّغاز کیا گیا تھا تا کہ پاکستان میں بجلی اور پانی کے روز افز و ں بڑ ھتی ہو ئی ضروریات کو منا سب انداز میں حل کیا جا سکے لیکن ہم نے اس مسئلے کو بھی سیا سی رنگ دے کر سرد خا نے میں ڈا ل دیا اگر کا لا با غ ڈیم کا منصو بی پایہ تکمیل کو پہنچ چکا ہو تا تو با ر شو ں کے نتیجے میں ضا ئع ہو نے وا لے پا نی کو سٹو ر بھی کیا جا سکتا تھا اور اس سے بجلی کی کمی جیسے مسئلے سے بخیر و خو بی نپٹا بھی جا سکتا تھا اور اسی منصو بے کے نقشِ قم پر چلتے ہو ئے ملک کے دو سرے حصو ں میں اسی طرح کے بہت سے دوسرے ڈیم بنا کر سیلاب کی تبا ہ کا ریو ںں سے بچنے کی صورت بھی پیدا کی جا سکتی تھی اور بجلی کی کمی جیسے عفریت سے بھی نمٹا جا سکتا تھا لیکن ہما رے ہا ں تو سیاسی سکو رنگ کا ایک ایسا کلچر رواج پا چکا ہے جو کو ئی بھی مثبت قدم اٹھا نے نہیں دیتا ۔ کو ئی اسے بم سے اڑا نے کی دھمکی دیتا ہے تو کوئی اسکے خلاف لشکر کشی کی دھمکی دیتا ہے اور یو ں ایک انتہا ئی مفید منصو بہ کھٹا ئی میں پڑ جا تا ہے۔ اگر کا لا با غ ڈیم کے تکنیکی پہلو ﺅ ں پر غو ر کیا جا ئے تو اس کی تعمیر میں کو ئی خرا بی نہیں ہے ضرو رت اس امر کی ہے کہ حکومت حالات کی نزا کت کا احساس کرتے ہو ئے کا لا باغ ڈیم کی تعمیر کے لئے جرات مندانہ فیصلے کرے کیو نکہ مو جو دہ مخدوش اور ابتر دور سے جرات مندا نہ فیصلو ں سے ہی با ہر نکلا جا سکتا ہے دھو نس ، دھاندلی اور ہٹ دھرمی سے دوسرو ں کو روکنا ہو تو پھر ملکی مسائل کا حل تلاش کرنا انتہائی دشوار ہو جا تا ہے لہذا ضرو رت اس امر کی ہے کہ قوم اپنی غلطیو ں سے سبق سیکھ کر باہمی اتحاد ،اتفاق اور یگانگت سے آگے بڑ ھے تا کہ دیرینہ مسا ئل کا حل ممکن ہو سکے
صورتِ شمشیر ہے دست ِ قضا میں وہ قوم۔۔ کرتی ہے جو ہر زمان اپنے عمل کا حساب
اس بات کا سب کو علم ہے کہ صو بو ں کے درمیان پا نی کی تقسیم پر ہمیشہ غلط فہمیاں اور شکو ے شکا ئیت ر ہے ہیں جو بڑھتے بڑھتے الزام ترا شی کی شکل اختیار کر جا تے ہیں چند یوم قبل تک یہی صورتِ حال تھی جس میں پنجاب اور سندھ کے درمیان الزاماتی جنگ پو رے زو روں پر تھی یہ تو بھلا ہو با رشو ں کا جس نے اس جنگ کو روک دیا ہے وگرنہ کو ئی کچھ نہیں کہہ سکتا کہ یہ الزا ما تی جنگ کیا رخ اختیار کر جا تی اور ہم الزا مات میں کتنی دور نکل جا تے۔ بہر حال با رشیں ہو رہی ہیں اور ہر سو پا نی ہی پا نی ہے لیکن اسے ذخیرہ کر نے اور اس سے فوا ئد حا صل کر نے کےلئے ہم نے کو ئی منصو بہ بندی نہیںکی ہو ئی لہذا سا را پانی ضا ئع ہو رہا ہے اور جب با ر شیں تھم جا ئینگی اور خشک سا لی کا موسم آئےگا تو وہی الزا مات ہو نگے ہم ہو نگے اور ہما ری بد حا لی ہو گی۔پاکستان ایک ایسا ملک ہے جسے ربِ کریم نے قدرتی دو لت سے ما لا مال کیا ہوا ہے۔ دریا سمندر ،پہاڑ، صحرا، معدنیات اور جنگلات کی دولت سے نوازا ہو ا ہے۔ چا روں موسمو ں کی دولت اور با رشو ں کی نعمت اور زمین کی زر خیزی عطا کی ہو ئی ہے۔ اس نے ہر وہ چیز جو اس ملک کی بقا کے لئے ضر وری ہے ہمیں مفت عطا کر دی ہے تا کہ یہ ملک قائم اور دائم رہے لیکن ہم ہیں کہ با ہمی منا قشت ، اویزش ،عداوت، رسہ کشی اور سر پھٹو ل سے اسکی سا لمیت کے در پہ ہیں لیکن وہ پھر بھی اسکی حفا ظت کئے جا رہا ہے۔۔ آخر کب تک۔۔