مرکز میں وفاقی کابینہ تحلیل کئے جانے کے بعد ذرا کم حجم کی کابینہ بنائی جائے گی اور بعض وزارتیں اور اختیارات صوبوں کو تفویض کردیئے جائیں گے۔۔۔۔ کراچی میں کے ای ایس سی سے نکالے گئے ملازمین کے حوالے سے حکومتی فیصلہ تو درست تھا لیکن کراچی کے مخصوص سیاسی حالات میں اس فیصلے پر نظرثانی کی جارہی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم حقائق کا سامنا کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ ہم اپنے سیاسی مفادات پر ملکی مفادات کو قربان کرسکتے ہیں اور کر رہے ہیں۔ یہ
قارئین! لاہور میں ہوں، جہاں بہار کی آمد آمد ہے، سردی آہستہ آہستہ رخصت ہو رہی ہے۔۔۔۔لیکن پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں محمد شہبازشریف جانتے ہیں کہ لاہوریوں نے بسنت منانی ہی منانی ہے لہٰذا انہوں نے جناب ذوالفقار کھوسہ کی سربراہی میں خواجہ سعدرفیق، میاں مجتبیٰ شجاع اور یوسف صلاح الدین پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کر دی ہے۔۔۔۔یہ تینوں پکے لاہوریئے ہیں بلکہ اندرون لاہور والے ہیں۔ یوسف صلاح الدین نے اگر جشن بہاراں اور بسنت کے فیصلے پر اثرانداز ہونا ہے تو وہ یقیناً خوبصورت فیصلے کرے گا۔۔۔۔میں نے یوسف صلاح الدین سے بسنت اور جشن بہاراں پر گھنٹوں گفتگو کی اور سنی ہے۔ یوسف چاہے گا کہ ایسا ماحول Create کرے کہ اس موقع پر دنیا بھر سے مہمان آئیں۔ ہوٹلوں اور گیسٹ ہاﺅسز میں جگہ نہ رہے۔۔۔۔ لیکن دوسرے ملکوں کے علاوہ بھارت سے بھی لاکھوں مہمان لاہور آ سکیں اور لوگ اپنے گھروں میں پے انگ گیسٹ ٹھہرائیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس سال وہ اس حوالے سے اپنا Vision کہاں تک لوگوں کے سامنے رکھ سکتے ہیں۔ لیکن مجھے یقین ہے وہ جو کریں گے زبردست ہوگا۔۔۔۔ اور پھر خواجہ سعد رفیق اور مجتبیٰ شجاع بھی لاہوریئے ہیں اور لاہور کے کلچر کو خوب جانتے ہیں۔ سمجھتے ہیں۔۔۔۔ لہٰذا کوئی سیاسی ایشو نہ ہوا تو بہترین ریزلٹس سامنے آئیں گے۔
قارئین! لاہور کو داتا کی نگری بھی کہا جاتا ہے، جہاں ان دنوں حضرت داتا گنج بخشؒ کا عرس مبارک جاری ہے۔۔۔۔ دعا کریں کہ اس سال کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔
اور آخر میں دو اموات کا ذکر، لاہور ہی میں کل ہم سے رخصت ہونے والے مولانا عبدالرحمن اشرفی کی نماز جنازہ تھی۔۔۔۔ تا حدنگاہ لوگ ہی لوگ تھے۔۔۔۔ میں جب لاہور میں جنگ کا چیف رپورٹر تھا۔۔۔۔ تو خود میری Beats میں سے ایک بیٹ مذہبی رہنماﺅں اور مذہبی جماعتوں کی تھی۔۔۔۔ سالہاسال ایسا رہا کہ شاید ہی کوئی دن ہو کہ میری ان سے بات نہ ہوئی ہو۔۔۔۔اگر عبدالرحمن اشرفی صاحب سے بات نہیں ہوتی تھی تو اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ میری مولانا محمد مالک کاندھلوی سے بات ہوئی ہے۔ بہرحال زبردست انسان تھے۔ اُس سالہا سال کے Interaction میں میں نے انہیں بھلا انسان پایا جس کی مذہب سے کمٹمنٹ تھی اور وہ تبلیغ و اشاعت کے ساتھ طلباءکی جو تربیت اور تعلیم کر رہے تھے۔۔۔۔ اس کا اجر انہیں صرف رب العزت ہی دے سکتا ہے۔
میرے پڑھنے والے یہ بھی جانتے ہیں کہ کرنل امام سے میں نے الیکٹرانک میڈیا پر کئی کئی گھنٹے کے انٹرویوز کئے۔۔۔۔ یقین نہیں آتا کہ وہ ہم میں نہیں رہے۔