ہر ناانصافی انصاف کے لیے خطرہ ہے۔۔۔

ہر ناانصافی انصاف کے لیے خطرہ ہے۔۔۔

مارٹن لوتھر کنگ جونیئر نے کہا تھا ” کسی بھی شکل میں موجود ناانصافی انصاف کے لیے خطرہ ہے“۔ مارٹن لوتھر ا فریقین امریکن شہری حقوق تحریک کا نوبل پیس انعام یافتہ راہنما تھا ۔ اُس نے اپنی مختصر 39سالہ زندگی انسانی حقوق اور انصاف کے حصول کی جدوجہد میں گزار دی۔ اُس کے قول میں الفاظ کی گہرائی پوشیدہ ہے ۔ شکر ہے کہ وہ حساس طبع کا مالک امریکن تھا۔ اگر پاکستانی ہوتا، اور پاکستان میں ناانصافیوں کی موجودہ صورت حال دیکھتا، تو شاید حالیہ حالات کی ستم ظریفی دیکھ کر شرم سے ہی مرجاتا۔کسی بھی معاشرے میں انصاف کی عام دستیابی تمام شعبہ جات زندگی کے لیے حساس ترین اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ لوگوں کو اگر انصاف نہ ملے تو پھر معاشرتی توازن بگڑ نے لگتاہے۔ کمزور اور غریب لوگ عدم حصول انصاف پر دلبرشتہ ہوکر خودکشیاں کرنے لگتے ہیں بالخصوص اگر انصاف کی فراہمی کا مسئلہ کسی شخص کے روزگار سے وابستہ ہو تو پھر اُس کی نوعیت اور بھی زیادہ حسا س ہوجاتی ہے۔ عام کہاوت ہے کہ روزگار کی تنگی و پریشانی خدا دشمن کو بھی نہ دے۔ملک کے موجودہ گھمبیر حالات میں جہاں معاشی بحرانوں اور روز بروز بڑھتی مہنگائی نے ہر پاکستانی کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔وہاں اگر کسی سے اُس کا روزگار ناانصافی کی بنا پر زبردستی چھین لیا جائے تو اِس سے بڑھ کر اور کیا ظلم ہو سکتا ہے؟۔ رزق کی تنگی کا اندازہ الفا ظ کی بناوٹ سے نہیں لگایا جاسکتا بلکہ یہ ایک ایسا نشتر ہے جو متاثرہ فرد کے جسم وجان میں نہ صرف پیوست ہوتا ہے بلکہ لمحہ لمحہ جاگتی محرومیوں کے سنگ روح کو بھی گھائل کرتا رہتا ہے۔ ایسی ہی مشکل سے دو چار ،1993ءسے تاحال انصاف کی اُمید لگائے اور کسی معجزہ کے منتظر، پوسٹ آفس مظفر گڑھ کے سکیل نمبر 7کے لاچار، بے بس اور غربت کی زندہ تصویر بنے تین ملازمین اصغرمنصور ، نثار احمد اور مینر احمد ناصرنے اپنے روزگار چھن جانے کا احوال سُنایا تو پاﺅں سے زمین سرکرتی ہوئی محسوس ہونے لگی۔عقل یہ حقیقت تسلیم کرنے کو تیار نہ تھی کہ کہ بغیر جرم کیے گذشتہ سترہ سال سے یہ لوگ فقط اِس لیے مجرم بنا دیے گئے ہیں کہ اِن کے پاس اپنی سچائی ثابت کرنے کے لیے نہ ہی کوئی بڑی سفارش ہے اور نہ ہی عدالتوں کے بھاری اخراجات کے لیے رقم، اپنے محکمہ کے افسران بالا کی ضد کی بھینٹ چڑھنے والے یہ ملازمین خودکشی اِس لیے نہیں کررہے کہ یہ ایم اے پاس باشعور مسلمان ہیں خوفِ خدا انہیں ڈراتا ہے اور زندگی اِس لیے گزار نہیں پا رہے کہ ہماری معاشرتی بے حسی اور ناانصافی اِن بے گناہوں کو اِن کا حق واپس نہیں کرر ہی۔ قصہ یوں ہے کہ 1993میں نواز شریف کا دور حکومت تھا۔ حکومت کی جانب سے غریبوں کے لیے بیت المال فوڈ سیٹمپ سکیم بذریعہ ڈاک خانہ شروع کی گئی۔ طریقہ کار یہ تھاکہ غرباءکو زکوة کمیٹیاں فارم جاری کرتی تھیں اِ ن فارموں کی تصدیق ضلعی چیرمین زکوة کمیٹی اور متعلقہ زکوة کمیٹیوںکے ارکان کرتے تھے۔ فارم مکمل کوائف کے بعد ڈاک خانہ میں جمع کروا دیا جاتا تھا۔ اِس فارم کی جانچ پڑتال ڈاک خانہ کے افسران کرتے تھے۔ بعدازاں وہ فارم متعلقہ کلرکوں کے پاس آتاتھا ۔ کلرک اِس فارم پر منظور شدہ مالیت 50,20,10اور100 روپے کے فوڈ سٹیمپ سکیم کے کوپن برائے خریداری اشیاءخوردونویش جاری کردیتے تھے۔ یوں فی کنبہ400روپے تا 550روپے تک کی اشیاءخورد و نویش کی خریداری مقررہ دکانوں سے کرلیتا تھا۔ جبکہ دکاندار حضرات اِن کوپنوں کو واپس ڈاک خانہ میں جمع کروا کر حسب مالیت کوپن اپنی جتنی رقم بنتی ، وہ رقم وصول کرلیتے تھے ۔ اِس پوری کا روائی کا اہم پہلو یہ تھا کہ اِس سکیم میں فارم اور کوائف کی تصدیق بذمہ چیرمین ضلعی زکوةکمیٹی تھی جبکہ ڈاک خانہ میں فارم کی جانچ پڑتال اور منظوری کی ذمہ داری سینئر افسران پوسٹ آفس کی تھی۔ یوں اِن تمام مراحل میں کلرک کی ڈیوٹی بطور معاون تھی اور اُس کی حیثیت اِس سکیم میں انتہائی محدود تھی یعنی کلرک اِس میں اپنی بادشاہی نہیں دیکھا سکتا تھا۔یہ سکیم احسن طریقے سے چل رہی تھی کہ اچانک انکشاف ہوا کہ فارم بوگس بن رہے ہیں اور کرپشن ہور ہی ہے۔ ڈپٹی کمشنر مظفر گڑھ کے حکم پر FIA کرائمز سیل ملتان نے چیرمین ضلعی زکوة کمیٹی اور پوسٹ آفس مظفر گڑھ کے پانچ افسران سمیت سات متعلقہ کلرکوںکے خلاف مقدمہ درج کرکے سپیشل سنٹرل جج ملتان کی عدالت میں کیس کی سماعت شروع کروادی۔ دوسری جانب محکمہ ڈاک نے فوری طور پر ساتوں کلرکوں کو معطل کردیا لیکن جب کلرکوں نے اپنی بے گناہی پر احتجاج کیا تو پھر متعلقہ پانچ افسران کو بھی معطل کردیا۔ اب ایک طرف کیس عدالت میں زیر سماعت تھا تودوسری طرف محکمانہ کاروائی شروع ہوگئی ۔ عدالتی فیصلہ سے قبل محکمانہ کاروائی میں ایک ایک کرکے تمام افسران اپنی با اثری کی بنا پر بری ہوگئے اور سارا ملبہ کلرکوں پر ڈال دیا گیا۔ ظلم کی انتہا اُس وقت ہوگئی جب محکمانہ منصفی کے فرائض اُن افسران نے سنبھال لیے جو خود اِس کیس میں معطلی سے بحال ہو ئے تھے۔ یوں عدالتی فیصلہ سے قبل ہی ساتوں کلرکوں کو بغیر پرسنل ہیرنگ کیے نوکری سے ہمیشہ کے لیے نکال دیا گیا۔ پانچ سال بعد ایف آئی اے کی عدالت نے اپنے فیصلے میں تمام کلرکوں کو بے گناہ قرار دیا تواِن بے چاروں نے محکمانہ انکوئری کے خلاف اپیل کی لیکن اُن بحال شدہ افسران کی ضد نے انہیں قانونی امور کی گرداب میں پھنسا دیا۔ محکمہ ملازمین کے خلاف اور ملازمین محکمہ کے خلاف اپیلیں کرنے لگے۔ ایک عدالت سے دوسری عدالت ، دوسری سے تیسری عدالت میں کیس چلنے لگا ۔ہر جگہ افسران کی ملی بھگت اور اَ
نا پرستی کی کوشش ہوتی کہ اِن کلرکوں کو بحال نہ ہونے دیا جائے لیکن اِن سات کلرکوں میں سے چارکلرک ذاتی اثر ورسوخ اور وکیلوں کی بھاری فیسوں کی ادائیگی اور اپنی اپیلوںکی بروقت پیروی کی بناپر مختلف عدالتوںسے بحال ہوگئے جبکہ بقیہ تین کلرک اصغر منصور ، منیر احمد ناصر اور نثار احمد جوکہ ڈیوٹی فرائض کی نوعیت کے لحاظ سے اُن بحال ہونے والے چار ساتھیوں جیسے ہی تھے آج تک ا پنی اپیلوں پر غربت اور عدالتی امور کے اخراجات کی عدم دستیابی کی بناپر بحال نہیں ہوسکے۔ صدر پاکستان ، وزیر اعظم پاکستان، پوسٹ ماسٹر جنرل لاہور اور چیرمین پاکستا ن پوسٹل سروسز اسلام آباد کو متعدد اپیلیں اور درخواستیں ارسال کرنے کے باوجود یہ تینوں بے قصور ابھی تک بحال نہیں ہوسکے۔ اِن تینوں کا غم فقط اتنا ہے کہ اگر انہوںنے کرپشن کی ہے تو انہیں پاکستان کی عدالتیں سزا کیوں نہیں دیتیں؟وہ اپنی کرپشن کے بدلے میں اِس اذیت بھری غربت زدہ زندگی سے پھانسی پر چڑھنا زیادہ آسان خیال کرتے ہیں۔ اگر وہ بے گناہ ہیں تو پھرسترہ سالوں سے انہیں کیوں جیتے جی زندہ درگور کر دیاگیا ہے؟ ملک میں اربوں کھربوں کی کرپشن میں ملوث بااثر افراد تو نیب سے ڈیل کرکے باعزت بری ہوجاتے ہیں ۔ صدر پاکستان اپنے اختیارات کے استعمال سے رحمان ملک کی سزا بھی معاف کردیتے ہیں۔ لیکن یہ بے چارے جن کے پاس اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے دال روٹی کے پیسے بھی نہیں ہیں وہ کہاں سے بھاری رقم برائے رشوت یا فیس وکیل لائیں؟ کہ جس کی بدولت وہ بحال ہو جائیں۔ تین چار ہزار روپے ماہوارتنخواہ وصول کرنے والے اِن تین ملازمین نے سترہ سال جس کرب میں گزارے ہیں وہ فقط سُنے اور لکھے جاسکتے ہیں اُس کرب کو عملی طور پر محسوس کرناکسی دوسرے کے لیے ممکن نہیں۔ کیونکہ جہاں آگ جلتی ہے تپش وہی جگہ محسوس کرتی ہے۔ اِن تینوں ملازمین کا مدعا عرض اِس قدرہے کہ مزدورں کے حقوق کی دعوی دار یہ حکومت یا چیف جسٹس آف پاکستان از خود نوٹس لیتے ہوئے اُن کے سارے کیس کی ازسر نو تفتیش کریں، اگر وہ گنا ر گار ثابت ہوں تو اپنی سزا پانے کو تیارہیں ۔ اگر بے قصور ثابت ہوں تو پھر انہیں بھی دیگر بحال ہونے والے افسروں اور کلرکوں کی طرح نوکری پر بحال کیا جائے تاکہ اپنی بقیہ زندگی کے چند دن تو وہ اپنے بچوں کو سُکھ کی روٹی کھلا کر اوراپنے دامن پر لگے داغ کودھوتے ہوئے چین سے مر سکیں۔

urdusky
Comments (0)
Add Comment