کراچی بارود کے ڈھیر پر تحریر :۔اعثمان حسن زئیuhasanzai@yahoo.comشہر کراچی، شہروں کی دلہن، روشنیوں کا شہر ، غریب اور متوسط طبقے کی محنت، ریاضت،جہد مسلسل اور عزم و ہمت کا مرکز، مختلف نسلوں، قبیلوں، برادریوں، علاقوں اور زبانوں کے حامل انسانوں کی جولانگاہ، قدرت نے اسے کشادگی اور وسعت سے نوازا۔ جب ہی گوادر تاخیبر تک کے لوگ اس کی جانب کشاں کشاں چلے آتے ہیں۔ وقت کوئی سی کروٹ کیوں نہ لے رہا ہو۔ یہاں آنے والوں کے قدم نہیں رکتے یہاں علم کے پیاسوں کے لیے بھی گھاٹ ہیں اور ایک مزدور کے لیے بھی روزگار کے مواقع۔ دینی مدارس کا پھیلا جال بھی ہے اور مختلف مصنوعات کی تیاری کے لیے کارخانے اور فیکٹریاں بھی ملک کے باقی شہروں کے مقابل یہاں تعلیم و آگہی، شعور اور پختگی زیادہ ہے۔ کسی نے اسے روشنیوں کا شہر کہا اور خلق خدا نے اسے قبولیت تامہ عطا کردی۔یہ سب درست، صحیح اور مبنی برحق، مگر اس تلخ حقیقت سے نظریں چرانا بھی ممکن نہیں کہ اب اس شہر کی فضاﺅں میں امن کی فاختہ اڑان بھرنے کے لیے تیار اور آمادہ نہیں ۔ کراچی میں حالیہ ضمنی انتخاب سے ایک روز قبل دہشت گردی کی ایک اور تندو تیز لہر دیکھنے میں آئی، جس میں تادم تحریر 90 کے قریب افراد مارے جاچکے ہیں۔ محض 6 دنوں میں اتنے بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کا ضیاع شہر میں خانہ جنگی کی کیفیت ظاہر کرنے پر دال ہے۔ اب اگرچہ کراچی میں حالات معمول پر آگئے ہیں مگر اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ کب اور کس لمحے بدامنی کی نئی لہر شہر قائد کو اپنی لپیٹ میں لے لے۔ کیونکہ یہ ایک معمول بن چکا ہے کہ ٹارگٹ کلرز کسی نہ کسی بہانے سے پولیس، رینجرز اور خفیہ اداروں کی موجودگی میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کردیتے ہیں اور درجنوں لاشیں گرانے کے بعد آسانی سے فرار بھی ہوجاتے ہیں۔ پھر وزیر داخلہ صاحب ”سخت نوٹس“ لے کر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی ہدایات جاری کرنے کے بعد خود کو بری الذمہ سمجھ لیتے ہیں۔ سندھ کی اتحادی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشیاں شروع کردیتی ہیں۔ ہر جماعت کے رہنما دوسری جماعت کے قائدین کو موردالزام ٹھہراتے ہیں۔ پھر اتحادی جماعتوں کے اجلاس منعقد ہوتے ہیں۔ یوں وقتی طور پر دہشت گردی کی لہر ختم ہوجاتی ہے اور حالات معمول پر آجاتے ہیں۔ مگر اس مسئلے کا کوئی مستقل حل نہیں نکالا جارہا۔پاکستان پیپلزپارٹی، متحدہ قومی موومنٹ اور عوامی نیشنل پارٹی حکومت میں اتحادی ہونے کے باوجود امن و امان کے قیام میں ناکام ہوچکی ہیں۔ اگر یہ سب مل کر شہریوں کو تحفظ فراہم نہیں کرسکتے تو ان کے حکومت میں رہنے کا کیا جواز ہے۔ پھر انہیں اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے حکومت سے باہر آجانا چاہیے۔ وزیر داخلہ سندھ ایک طرف تو کہہ رہے ہیں کہ دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کا نہ رکنا افسوس ناک ہے جس کی ذمہ داری پی پی سمیت تمام اتحادی جماعتوں پر ہے۔ تو دوسری طرف ارشاد فرمارہے ہیں کہ شہریوں کوتحفظ دینا ہماری ذمہ داری ہے اور کوئی نہ ڈرے کیونکہ ڈرنے سے معاملات حل نہیں ہوتے۔ گویا ایک جانب دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام میں اپنی ناکامی کا اعتراف کیا جارہا ہے اور اتحادی جماعتوں کو ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے اور اگلی ہی سانس میں دہشت گردوں کی کارروائیاں روکنے میں ناکامی کے باوجود شہریوں کو نہ ڈرنے کا دلاسا دینا بھی ضروری سمجھا گیا ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔کراچی میں وحشیوں اور درندوں کا ایک ہجوم ہے جو بے گناہوں کو رولتا، ، مسلتا، کچلتا اور روندتا ہوا آگے ہی آگے نکلتا چلا جارہا ہے۔ اس کے متحرک ہاتھ کتنے ہی گھروں کو گہری تاریکی میں دھکیل چکے ہیں اور کتنے ہی گھرانوں کے سہاروں کو چھین چکے ہیں۔ ان کے ہاتھوں کتنی ہی سہاگنوں کے سہاگ اجڑ چکے۔ کتنی ہی ماﺅں کے سینے چھلنی چھلنی اور آنچل تربتر ہیں۔ اس شہر کے گلی کوچوں میں موت کا برہنہ پا رقص حساس دلوں کو بے چین، مضطرب اور بے کل کیے دیتا ہے۔ جوان لاشوں پر پڑھے جانے والے نوحے اور کہے جانے والے مرثیے پتھر سے پتھر دل کو رونے پر مجبور کردیتے ہیں مگر افسوس وحشتوں کے خوگر اس قبیلے کے دل ہیں کہ موم ہونے کا نام نہیں لیتے۔افسوس ناک بات یہ ہے کہ ایک غیر ملکی اخبار رپورٹ شائع کررہا ہے کہ کراچی میں موجودہ سال کے دوران ہونے والی ہلاکتیں خود کش حملوں سے بڑھ گئیں۔ پاکستان میں اس سال 335 خودکش دھماکوں میں 1208 افراد جاں بحق ہوئے جبکہ کراچی میں اسی عرصے میں ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے 1300 سے زاید افراد قتل کیے جاچکے۔ گزشتہ 15 سے 20 برس کو ایک جانب رکھ دیجیے اور گزشتہ ماہ و سال کے اعداد و شمار کو بھی جانے دیجیے۔ حاشیہ تصور سے بھی محو کردیجیے۔ ابھی چند دنوں میں ہونے والی قتل و غارت گری کے اعداد و شمار کو ہی دیکھ لیجئے تو اندازہ ہوجائے گا کہ حالات کس نہج پر جارہے ہیں۔ گزرے تلخ لمحے کتنی صدیوں پر گراں ہیں۔ اس دھرتی نے کتنے بے گناہوں سے لہو کا خراج وصول کیا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں خود امن و امان اور اس بھیانک سلسلے کی روک تھام میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔ جب بھی کوئی دہشت گرد گرفتار ہوتا ہے تو سیاسی وابستگی کی بناءپر سفارشیں شروع ہوجاتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا سیاسی جماعتیں امن کے قیام کے لیے خلوص نیت کے ساتھ اقدامات کرنے کے لیے تیار ہیں؟ اور کیا یہ جماعتیں اپنی صفوں سے جرائم پیشہ افراد کو نکالنے پر تیار ہوجائیں گی؟ اگرچہ حکومت نے عوام دشمن عناصر اور مجرموں کے خلاف سخت کارروائی کا فیصلہ کرلیا ہے اور کہا جارہا ہے کہ اس ضمن میں حکمت عملی خفیہ رکھی جائے گی۔ لیکن دوسری طرف پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے رہنماﺅں نے گورنر ہاﺅس میں منعقدہ اجلاس میں مفاہمتی پالیسی جاری رکھنے پر اتفاق کیا جس نے ان سارے حکومتی اقدامات کو مشکوک بنادیا ہے۔ جبکہ وزیر اعلیٰ سندھ کے زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں وہی روایتی فیصلہ کیا گیا کہ صورت حال بہتر بنانے کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں گے اور مجرموں کو کسی بھی صورت نہیں بخشا جائے گا۔سیاسی مفادات کی زنجیر میں کسے یہ شہ دماغ آخر یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ان کی غفلت، سستی، کاہلی اور دانستہ اعراض سے نفرتوں، دشمنیوں، عداوتوں اور اختلافات کی ایسی فصل کاشت ہورہی ہے جو وقت آنے پر ایسا اناج مہیا کرے گی جسے نہ نگلتے بنے گی نہ ہی اگلتے۔ کراچی کے عوام قبضہ مافیا، حکومتی جماعتوں کی سیاسی لڑائی اور اس کے بعد وفاقی وزیر کی طفل تسلیاں سن سن کر عاجز آچکے ہیں۔ خدارا! اب تو گروہی مفادات کے لیے شہر میں بے گناہوں اور غریبوں کا خون بہانے کا سلسلہ بند کردیں۔ کیا اب بھی شہر کراچی کا امن برباد کرنے والے دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنے کا وقت نہیں آیا؟ کیا خون کی ہولی کھیلنے والے عناصر یونہی کھلے عام دندناتے پھرتے رہیں گے؟ بدقسمتی سے ہم اس ملک کے باسی ہیں جہاں لاشوں کے گرائے بغیر انتخابات مکمل نہیں ہوتے۔ جہاں غریبوں کے معاشی قتل عام کے بغیر کسی احتجاج کی کامیابی کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ جہاں دنیا کو طاقت کا مظاہرہ دکھانے کے لیے بے گناہوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا جاتا ہے۔ جہاں کے حکمران خود تو بلٹ پروف گاڑیوں اور سیکورٹی اہلکاروں کے حصار میں ”سیر“ کرتے ہیں اور عوام کو درندوں کے رحم و کرم پر چھوڑدیاجاتا ہے۔ جہاں بے گناہوں کے قاتل کو صرف اس لیے چھوڑ دیا جاتا ہے کہ اس کے پاس کسی بااثر جماعت کی سیاسی وابستگی ہوتی ہے۔ جہاں قتل عام کرنے والے عناصر کی سرکوبی کی بجائے حکمران انہیں تحفظ فراہم کرنے پر اپنی توانائیاں صرف کرتے ہوں۔ ایسے ملک میں امن کا قیام کیونکر ممکن ہوسکتا ہے؟ اس لیے ہمارے مسئلے کا حل یہی ہے کہ گریز اور فرار کی راہ اختیار کرنے کی بجائے چیلنجوں کا سامنا پوری دیانت داری، کامل بہادری، یکسوئی اور خلوص نیت سے کیا جائے۔ بے رحم موجوں کا رخ موڑنے کی سعی تو کی جائے، شکستہ دل انسانوں کو تحفظ کا سائبان بھی مہیا کیا جائے۔ ایسا سائبان جس کے سائے میں بیٹھ کر ٹھنڈک کا احساس ہو۔ اس کے لیے کسی عظیم فلسفے یا فارمولے کی ضرورت نہیں۔ بس اپنی ذمہ داری کا ادراک کافی ہے۔ یہ سمجھ لیا جائے کہ ریاست کا کیا کام ہے۔ اس کی ذمہ داریوں کی فہرست کن کن امور کو محیط ہے۔ اور سرد و گرم ہر دونوع کے حالات میں اس کے فرائض کا حدود اربعہ اور ہئیت کیا ہونی چاہیے۔ اور اسے یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ جرم صرف جرم ہے اور مجرم صرف مجرم ہوتا ہے۔ اس کا کوئی قبیلہ نہیں ہوتا نہ ہی کوئی حسب و نسب۔ غلطی قابل مواخذہ ہے اور قابل گرفت۔ جو آدمی بھی خلق خدا کو اذیت میں مبتلا کرے وہ قابل تعزیر ہے خواہ وہ کسی وزیر کا بیٹا ہو یا کسی غریب کا۔ اس کا تعلق کسی سیاسی قوت سے ہو یا کسی جرام پیشہ گروہ سے۔ جن لوگوں کے ہاتھ میں قانون ہے جب وہ اپنی مصلحتوں اور مفادات کے باعث خود اس سے کھیل رہے ہوں تو پھر شہریوں کے جان و املاک اور عزت و آبرو کی حفاظت کون کرے گا؟ کیا کراچی کو بارود کے ڈھیر پر چھوڑ کر غفلت کی نیند سونے والے اس قوم سے مخلص ہیں؟
کراچی بارود کے ڈھیر پر
کراچی بارود کے ڈھیر پر
تحریر :۔اعثمان حسن زئی
یہ سب درست، صحیح اور مبنی برحق، مگر اس تلخ حقیقت سے نظریں چرانا بھی ممکن نہیں کہ اب اس شہر کی فضاﺅں میں امن کی فاختہ اڑان بھرنے کے لیے تیار اور آمادہ نہیں ۔ کراچی میں حالیہ ضمنی انتخاب سے ایک روز قبل دہشت گردی کی ایک اور تندو تیز لہر دیکھنے میں آئی، جس میں تادم تحریر 90 کے قریب افراد مارے جاچکے ہیں۔ محض 6 دنوں میں اتنے بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کا ضیاع شہر میں خانہ جنگی کی کیفیت ظاہر کرنے پر دال ہے۔ اب اگرچہ کراچی میں حالات معمول پر آگئے ہیں مگر اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ کب اور کس لمحے بدامنی کی نئی لہر شہر قائد کو اپنی لپیٹ میں لے لے۔ کیونکہ یہ ایک معمول بن چکا ہے کہ ٹارگٹ کلرز کسی نہ کسی بہانے سے پولیس، رینجرز اور خفیہ اداروں کی موجودگی میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کردیتے ہیں اور درجنوں لاشیں گرانے کے بعد آسانی سے فرار بھی ہوجاتے ہیں۔ پھر وزیر داخلہ صاحب ”سخت نوٹس“ لے کر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی ہدایات جاری کرنے کے بعد خود کو بری الذمہ سمجھ لیتے ہیں۔ سندھ کی اتحادی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشیاں شروع کردیتی ہیں۔ ہر جماعت کے رہنما دوسری جماعت کے قائدین کو موردالزام ٹھہراتے ہیں۔ پھر اتحادی جماعتوں کے اجلاس منعقد ہوتے ہیں۔ یوں وقتی طور پر دہشت گردی کی لہر ختم ہوجاتی ہے اور حالات معمول پر آجاتے ہیں۔ مگر اس مسئلے کا کوئی مستقل حل نہیں نکالا جارہا۔
پاکستان پیپلزپارٹی، متحدہ قومی موومنٹ اور عوامی نیشنل پارٹی حکومت میں اتحادی ہونے کے باوجود امن و امان کے قیام میں ناکام ہوچکی ہیں۔ اگر یہ سب مل کر شہریوں کو تحفظ فراہم نہیں کرسکتے تو ان کے حکومت میں رہنے کا کیا جواز ہے۔ پھر انہیں اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے حکومت سے باہر آجانا چاہیے۔ وزیر داخلہ سندھ ایک طرف تو کہہ رہے ہیں کہ دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کا نہ رکنا افسوس ناک ہے جس کی ذمہ داری پی پی سمیت تمام اتحادی جماعتوں پر ہے۔ تو دوسری طرف ارشاد فرمارہے ہیں کہ شہریوں کوتحفظ دینا ہماری ذمہ داری ہے اور کوئی نہ ڈرے کیونکہ ڈرنے سے معاملات حل نہیں ہوتے۔ گویا ایک جانب دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام میں اپنی ناکامی کا اعتراف کیا جارہا ہے اور اتحادی جماعتوں کو ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے اور اگلی ہی سانس میں دہشت گردوں کی کارروائیاں روکنے میں ناکامی کے باوجود شہریوں کو نہ ڈرنے کا دلاسا دینا بھی ضروری سمجھا گیا ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔
کراچی میں وحشیوں اور درندوں کا ایک ہجوم ہے جو بے گناہوں کو رولتا، ، مسلتا، کچلتا اور روندتا ہوا آگے ہی آگے نکلتا چلا جارہا ہے۔ اس کے متحرک ہاتھ کتنے ہی گھروں کو گہری تاریکی میں دھکیل چکے ہیں اور کتنے ہی گھرانوں کے سہاروں کو چھین چکے ہیں۔ ان کے ہاتھوں کتنی ہی سہاگنوں کے سہاگ اجڑ چکے۔ کتنی ہی ماﺅں کے سینے چھلنی چھلنی اور آنچل تربتر ہیں۔ اس شہر کے گلی کوچوں میں موت کا برہنہ پا رقص حساس دلوں کو بے چین، مضطرب اور بے کل کیے دیتا ہے۔ جوان لاشوں پر پڑھے جانے والے نوحے اور کہے جانے والے مرثیے پتھر سے پتھر دل کو رونے پر مجبور کردیتے ہیں مگر افسوس وحشتوں کے خوگر اس قبیلے کے دل ہیں کہ موم ہونے کا نام نہیں لیتے۔
افسوس ناک بات یہ ہے کہ ایک غیر ملکی اخبار رپورٹ شائع کررہا ہے کہ کراچی میں موجودہ سال کے دوران ہونے والی ہلاکتیں خود کش حملوں سے بڑھ گئیں۔ پاکستان میں اس سال 335 خودکش دھماکوں میں 1208 افراد جاں بحق ہوئے جبکہ کراچی میں اسی عرصے میں ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے 1300 سے زاید افراد قتل کیے جاچکے۔ گزشتہ 15 سے 20 برس کو ایک جانب رکھ دیجیے اور گزشتہ ماہ و سال کے اعداد و شمار کو بھی جانے دیجیے۔ حاشیہ تصور سے بھی محو کردیجیے۔ ابھی چند دنوں میں ہونے والی قتل و غارت گری کے اعداد و شمار کو ہی دیکھ لیجئے تو اندازہ ہوجائے گا کہ حالات کس نہج پر جارہے ہیں۔ گزرے تلخ لمحے کتنی صدیوں پر گراں ہیں۔ اس دھرتی نے کتنے بے گناہوں سے لہو کا خراج وصول کیا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں خود امن و امان اور اس بھیانک سلسلے کی روک تھام میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔ جب بھی کوئی دہشت گرد گرفتار ہوتا ہے تو سیاسی وابستگی کی بناءپر سفارشیں شروع ہوجاتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا سیاسی جماعتیں امن کے قیام کے لیے خلوص نیت کے ساتھ اقدامات کرنے کے لیے تیار ہیں؟ اور کیا یہ جماعتیں اپنی صفوں سے جرائم پیشہ افراد کو نکالنے پر تیار ہوجائیں گی؟ اگرچہ حکومت نے عوام دشمن عناصر اور مجرموں کے خلاف سخت کارروائی کا فیصلہ کرلیا ہے اور کہا جارہا ہے کہ اس ضمن میں حکمت عملی خفیہ رکھی جائے گی۔ لیکن دوسری طرف پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے رہنماﺅں نے گورنر ہاﺅس میں منعقدہ اجلاس میں مفاہمتی پالیسی جاری رکھنے پر اتفاق کیا جس نے ان سارے حکومتی اقدامات کو مشکوک بنادیا ہے۔ جبکہ وزیر اعلیٰ سندھ کے زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں وہی روایتی فیصلہ کیا گیا کہ صورت حال بہتر بنانے کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں گے اور مجرموں کو کسی بھی صورت نہیں بخشا جائے گا۔
سیاسی مفادات کی زنجیر میں کسے یہ شہ دماغ آخر یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ان کی غفلت، سستی، کاہلی اور دانستہ اعراض سے نفرتوں، دشمنیوں، عداوتوں اور اختلافات کی ایسی فصل کاشت ہورہی ہے جو وقت آنے پر ایسا اناج مہیا کرے گی جسے نہ نگلتے بنے گی نہ ہی اگلتے۔ کراچی کے عوام قبضہ مافیا، حکومتی جماعتوں کی سیاسی لڑائی اور اس کے بعد وفاقی وزیر کی طفل تسلیاں سن سن کر عاجز آچکے ہیں۔ خدارا! اب تو گروہی مفادات کے لیے شہر میں بے گناہوں اور غریبوں کا خون بہانے کا سلسلہ بند کردیں۔ کیا اب بھی شہر کراچی کا امن برباد کرنے والے دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنے کا وقت نہیں آیا؟ کیا خون کی ہولی کھیلنے والے عناصر یونہی کھلے عام دندناتے پھرتے رہیں گے؟ بدقسمتی سے ہم اس ملک کے باسی ہیں جہاں لاشوں کے گرائے بغیر انتخابات مکمل نہیں ہوتے۔ جہاں غریبوں کے معاشی قتل عام کے بغیر کسی احتجاج کی کامیابی کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ جہاں دنیا کو طاقت کا مظاہرہ دکھانے کے لیے بے گناہوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا جاتا ہے۔ جہاں کے حکمران خود تو بلٹ پروف گاڑیوں اور سیکورٹی اہلکاروں کے حصار میں ”سیر“ کرتے ہیں اور عوام کو درندوں کے رحم و کرم پر چھوڑدیاجاتا ہے۔ جہاں بے گناہوں کے قاتل کو صرف اس لیے چھوڑ دیا جاتا ہے کہ اس کے پاس کسی بااثر جماعت کی سیاسی وابستگی ہوتی ہے۔ جہاں قتل عام کرنے والے عناصر کی سرکوبی کی بجائے حکمران انہیں تحفظ فراہم کرنے پر اپنی توانائیاں صرف کرتے ہوں۔ ایسے ملک میں امن کا قیام کیونکر ممکن ہوسکتا ہے؟ اس لیے ہمارے مسئلے کا حل یہی ہے کہ گریز اور فرار کی راہ اختیار کرنے کی بجائے چیلنجوں کا سامنا پوری دیانت داری، کامل بہادری، یکسوئی اور خلوص نیت سے کیا جائے۔ بے رحم موجوں کا رخ موڑنے کی سعی تو کی جائے، شکستہ دل انسانوں کو تحفظ کا سائبان بھی مہیا کیا جائے۔ ایسا سائبان جس کے سائے میں بیٹھ کر ٹھنڈک کا احساس ہو۔ اس کے لیے کسی عظیم فلسفے یا فارمولے کی ضرورت نہیں۔ بس اپنی ذمہ داری کا ادراک کافی ہے۔
یہ سمجھ لیا جائے کہ ریاست کا کیا کام ہے۔ اس کی ذمہ داریوں کی فہرست کن کن امور کو محیط ہے۔ اور سرد و گرم ہر دونوع کے حالات میں اس کے فرائض کا حدود اربعہ اور ہئیت کیا ہونی چاہیے۔ اور اسے یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ جرم صرف جرم ہے اور مجرم صرف مجرم ہوتا ہے۔ اس کا کوئی قبیلہ نہیں ہوتا نہ ہی کوئی حسب و نسب۔ غلطی قابل مواخذہ ہے اور قابل گرفت۔ جو آدمی بھی خلق خدا کو اذیت میں مبتلا کرے وہ قابل تعزیر ہے خواہ وہ کسی وزیر کا بیٹا ہو یا کسی غریب کا۔ اس کا تعلق کسی سیاسی قوت سے ہو یا کسی جرام پیشہ گروہ سے۔ جن لوگوں کے ہاتھ میں قانون ہے جب وہ اپنی مصلحتوں اور مفادات کے باعث خود اس سے کھیل رہے ہوں تو پھر شہریوں کے جان و املاک اور عزت و آبرو کی حفاظت کون کرے گا؟ کیا کراچی کو بارود کے ڈھیر پر چھوڑ کر غفلت کی نیند سونے والے اس قوم سے مخلص ہیں؟