مصلحتوں کی وجہ سے سیکورٹی اداروں کے افسران کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں
ہر فریق اپنے سیاسی اثر و رسوخ میں اضافہ چاہتا ہے ،غریبوں کی لاشیں مُہرے کے طور پر استعمال کی جارہی ہیں۔
حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں نے میرٹ کی دھجیاں اڑاتے ہوئے پولیس کی نوکریاں آپس میں بانٹ لیں
عثمان حسن زئی
uhasanzai@yahoo.com
حکمرانوں کے تمام تر بلند بانگ دعوﺅں کے باوجود کراچی میں بدامنی اور لاقانونیت کا بازار گرم ہے۔ شہر قائد کے باسی کشیدگی کے ماحول اور خوف کی فضا میں سانس لینے پر مجبور ہیں۔ یہاں کے شہری دہشت گردی کی بڑھتی وارداتوں سے تنگ آگئے ہیں، مگر حکمران تاحال ان واقعات کے آگے بند باندھنے میں مکمل طور پر ناکام نظر آرہے ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے ہماری سیاسی جماعتوں کو مسئلے کا صحیح ادراک ہی نہیں یا پھر وہ جانتے بوجھتے کراچی میں امن و امان کے مسئلے کو نظر انداز کررہی
ڈیڑھ کروڑ کی آبادی والے شہر میں صورت حال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2010ءمیں ملک بھر کے خود کش دھماکوں کی نسبت کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہونے والوں کی تعداد زیادہ تھی۔ گزشتہ برس 1900 کے لگ بھگ افراد کراچی کی سڑکوں پر قتل کیے گئے۔ 1995ءکے بعد سب سے زیادہ ٹارگٹ کلنگ کی وارداتیں گزشتہ برس ہوئیں، کیونکہ 1995ءکو کراچی میں 1742 افراد موت کے گھاٹ اتارے گئے تھے۔ کراچی میں امن و امان کی بگڑتی صورت حال پر حکومتی اتحاد اور اپوزیشن جماعتوں میں تشویش تو بڑھ رہی ہے لیکن افسوس تو اس بات پر ہے کہ ملک کو سب سے زیادہ ریونیو دینے والے شہر میں امن کے قیام اور مسئلے کے پائیدار حل کے لیے کسی کے پاس کوئی منصوبہ ہے اور نہ ہی فی الوقت کوئی عملی قدم اٹھانے کو تیار ہے۔ سیاسی جماعتوں کی مصلحت پسندی حالات کو ٹھیک کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ نظر آتی ہے۔ دوسری بڑی وجہ مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے کراچی پر اپنی اپنی سیاسی جاگیرداری قائم کرنے کی خواہش ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی، متحدہ قومی موومنٹ اور عوامی نیشنل پارٹی جو حکومتی اتحاد کا حصہ ہیں ان سمیت دیگر جماعتوں کے اپنے اپنے مفادات ہیں اور ہر فریق اپنے سیاسی اثر و رسوخ میں اضافہ چاہتا ہے ۔ ان جماعتوں کی آپس کی لڑائی اور رسّہ کشی میں عوام پس رہے ہیں اور غریبوں کی لاشیں مُہرے کے طور پر استعمال کی جارہی ہیں۔ حکومت کی سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے سیکورٹی اداروں کے افسران کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور وہ صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے کوئی بھی کردار ادا نہیں کرپارہے۔ نہ ہی وہ اس گتھی کو سُلجھانے کی پوزیشن میں ہیں۔ آپ غور تو کریں! پولیس کی بطور ادارہ حالت پہلے ہی خراب تھی لیکن موجودہ حکمرانوں نے مبینہ طور پر پولیس میں اپنے ہزاروں کارکن بھرتی کروائے ہیں۔ حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں نے میرٹ کی دھجیاں اڑاتے ہوئے پولیس کی نوکریاں آپس میں بانٹ لی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کو حالیہ دنوں بیان دینا پڑا کہ ”سندھ پولیس میں متحدہ قومی موومنٹ کے 7 ہزار کارکن بھرتی کیے جارہے ہیں۔“
ملک کے معاشی حب میں جب بھی تشدد کی لہر اٹھتی ہے تو وفاقی وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک فوری طور پر یہاں کا دورہ کرتے ہیں، اتحادی جماعتیں مل بیٹھتی ہیں، معاملہ وقتی طور پر ٹل جاتا ہے لیکن حکومت اس مسئلے کے مستقل حل کے لیے کوئی پیشرفت نہیں کرتی۔ اس بار وزیر داخلہ کراچی میں جزوی کرفیو کے نفاذ کا اعلان کرکے چلے گئے۔ بعدازاں رینجرز کی جانب سے اورنگی ٹاﺅن کی 5 آبادیوں میں مبینہ ٹارگٹ کلرز کے خلاف آپریشن کیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق آپریشن کے دوران دہشت گردوں کی گرفتاری کی بجائے منشیات فروش گروپوں کے خلاف کارروائی کی گئی۔ 350 افراد کو حراست میں لیا گیا جن میں سے بیشتر کو رہا کیا جاچکا ہے۔
صوبائی وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا نے آپریشن پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کراچی میں ہونے والے آپریشن کے بارے میں مجھ سمیت وزیراعلیٰ، آئی جی اور کراچی پولیس کے سربراہ لاعلم رہے۔ دوسری جانب عبدالرحمن ملک نے بھی یہ کہہ کر سب کو حیران کردیا کہ کراچی آپریشن سے وہ لاعلم تھے اور یہ انتظامی غلطی تھی۔
وزیراعلیٰ سندھ نے بھی کہہ دیا ہے کہ میں نے کسی آپریشن کا حکم نہیں دیا۔ اگر تمام اعلیٰ حکومتی عہدیدار آپریشن کی ذمہ داری قبول کرنے سے ہچکچارہے ہیں اور وہ بے خبر تھے تو پھر اتنی بڑے پیمانے پر کارروائی کیوں اور کس کے کہنے پر کی گئی؟ حکومتی عہدیداروں کی بیان بازی سے شکوک و شبہات میں اضافہ ہورہا ہے ۔
آپ ان حکومتی ذمہ داران کے بیانات کے ساتھ ساتھ وزیر مملکت برائے جہاز رانی و بندرگاہ کے عہدے سے استعفیٰ اور وزیراعظم سے ملاقات کے بعد استعفیٰ واپس لینے والے پیپلزپارٹی کے رہنما نبیل گبول کے معاملے کو دیکھیں تو محسوس ہوتا ہے، پی پی اندرونی اختلافات کا شکار ہوگئی ہے اور وہ انتشار کی طرف بڑھ رہی ہے۔ بعض مبصرین کے مطابق نبیل گبول کے استعفیٰ کا معاملہ پی پی کی صفوں میں دراڑوں کی نشاندہی کررہا ہے۔ اس حوالے سے پی پی رہنما فوزیہ وہاب نے خود تسلیم کیا ہے کہ ”عبدالرحمن ملک سولوفلائٹ کررہے ہیں۔“ پارٹی کے اجلاس میں مذاکرات یا کسی اور معاملے میں انہیں کوئی ذمہ داری نہیں سونپی گئی۔ یہاںیہ بات قابل ذکر ہے کہ نبیل گبول کے بقول انہوں نے اپنی وزارت میں سابق وفاقی وزیر پورٹس اینڈ شپنگ کے احکامات چلنے کے باعث استعفیٰ دیا ہے اور یہ کہ بے اختیار ہونے کی وجہ سے عوامی مسائل حل نہیں کرپارہے تھے۔ بابر غوری کا تعلق متحدہ قومی موومنٹ سے ہے، انہوں نے گزشتہ دنوں ایم کیو ایم کی وفاقی حکومت سے علیحدگی کے بعد استعفیٰ دیدیا تھا۔
اس قضیے سے واضح ہوتا ہے کہ ایم کیو ایم کے وزراءمستعفی ہونے کے باوجود عملاً اپنی وزارتوں کے کنٹرول اور چارج سنبھالے ہوئے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اگر یہی سب کچھ کرنا تھا تو وفاقی حکومت سے علیحدگی، اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے اور وزارتوں سے استعفوں کا ڈھونگ رچانے کی کیا ضرورت تھی۔ اور تاحال متحدہ کے مستعفی وزراءاپنی وزارتوں کے باقاعدہ چارج سنبھالنے کے اعلان میں ہچکچاہٹ کا شکار کیوں ہیں؟ اب وقت آگیا ہے کہ سیاسی جماعتیں دورنگی سیاست کو خیر باد کہہ دیں اور قوم کے مسائل کے حل کے لیے خلوص نیت کے ساتھ اپنا کردار ادا کریں۔
حکومت سندھ نے 26 جنوری کو کراچی کے مسئلے پر آل پارٹیز کانفرنس طلب کرلی ہے لیکن یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ کراچی میں اس وقت تک امن قائم نہیں ہوسکتا جب تک اس شہر کو اسلحے سے مکمل طور پر پاک نہ کردیا جائے۔ کراچی کی بگڑتی صورتحال کا علاج یہ نہیں کہ کسی ایک اتحادی جماعت کی فرمائش پر مخصوص افراد اور گروہوں کے خلاف آپریشن کیا جائے وہ بھی محض اس لیے کہ اس کے مطالبات نہ مانے گئے تو وہ حکومت سے علیحدہ ہوجائے گی۔ پیپلزپارٹی کی مفاہمتی پالیسی بجا سہی مگر یہ بھی سچ ہے کہ یہ قوم کو بڑی مہنگی پڑرہی ہے۔ کراچی میں قیام امن کے لیے پیپلزپارٹی کو اتحادیوں کی بلیک میلنگ سے نکلنا ہوگا۔ آج کا سب سے بڑا سوال! کیا پی پی اتحادیوں کی بلیک میلنگ سے نکلے بغیر اور دہشت گردوں پر ہاتھ ڈالے بغیر کراچی میں کبھی امن و امان قائم کرسکے گی اور کیا یہ صورتحال اس بات کی غمازی نہیں کرتی؟ کہ روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والی جماعت اپنے ووٹروں کو دھوکا دے رہی ہے؟؟؟