محمداعظم عظیم اعظم
آج ایک عرصے بعد یوں ہی سرے راہ بابارفیق احمدسے اتفاقاََ ملاقات ہوگئی تو یہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور سلام ودعاکے فوراََ بعداُنہوں نے حسب عادت ملکی سیاسی اور عالمی حالات واقعات پر باتوں کا ایک ایسا لمباسلسلہ چھیڑ ڈالا کہ ہم خاموشی سے سُنتے رہے اور وہ اپنے دل کی بھڑاس یوں نکالتے رہے کہ جیسے یہ اِسے نکالنے کے لئے کافی دنوں سے ہماری ہی تلاش میں تھے اور آج اللہ نے قسمت سے یہ موقع اِنہیں دے دیاہے اِس دوران ہم نے دیکھاکہ بابارفیق احمددورانِ گفتگو اپنے اُسی انتہائی جذباتی لہجے میں (جو اِن کی ایک خاص پہچان ہے )کہنے لگے کہ میاں صاحبزادے! پاکستان کی بدنصیبی یہ رہی ہے کہ اِسے میرے قائداعظم محمد علی جناح کی وفات کے بعد کوئی بھی ایسا رہنماآج تک نصیب ہی نہیں ہواہے جو اِس سرزمینِ پاکستان کے ساتھ اُس طرح مخلص ہوتاجس طرح میرے قائد محمد علی جناح تھے ،خدا!کی قسم اگر گزشتہ 63سالوں کے دوران کوئی ایک بھی ایسا لیڈر میرے وطن پاکستان کو نصیب ہوجاتاجیسامیراقائد تھاتو میں یقین سے کہہ سکتاہوں کہ آج ہمارا یہ وطن اپنوں اور اغیار کے ہاتھوںمیں یوں کھلونا ہرگز نہ بنتاجیسا آج یہ بن چکا ہے، جس سے اپنے پرائے سب ہی کھیل رہے ہیں ….اور اِسے لوٹ لوٹ کر یوں کھارہے ہیں جیسے دیمک لکڑی کو کھاجاتی ہے یعنی آج میرے اِس وطن پاکستان کی مثال لکڑی اور دیمک جیسی ہوگئی ہے ۔
اُنہوں نے کہاکہ میاں صاحبزادے!ملک کی یہ حالت دیکھ کر بہت دُکھ ہوتاہے،کیوںکہ ہم نے اِس سرزمین پاکستان کے حصول کے خاطر صرف اپنے قائد محمد علی جناح کی ایک آواز پر لبیک کہااور اپنا بنا،بنایا گھر بار ، نوکرچاکر، چلتاہواکاروبار اور اپنی اربوں کی جائیدادیں ہندوستان میںہندو¿ںکی عیاشی کرنے کو چھوڑکراوراپناسب کچھ قربان کرکے پاکستان اِس لئے آئے تھے کہ یہاں ہمیں وہ سب کچھ حاصل ہوگا جس کا ہم نے اُس وقت ایک حسین خواب دیکھ رکھاتھامگر افسو س ہے کہ آج تک ہمیں اُس خواب کی وہ حسین تعبیر نصیب ہی نہیں ہوسکی جس کے بارے میں ہم نے اِس اَن دیکھے وطن کی آزادی کے وقت اپنے ذہنوں میں بیٹھارکھی تھی مگر پھر بھی ہم اپنے اِ س ملک اور اِس کی سرزمین سے اَب بھی مایوس نہیں ہوئے ہیں اِس سے ہمیں آج بھی اتنی ہی محبت ہے کہ جتنی اُس وقت تھی جب ہم ہندوستان چھوڑ کر اپنے اِس آزاد وطن پاکستان کی جانب چل پڑے تھے ۔
ہم دیکھ رہے تھے کہ جیسے جیسے بابارفیق پاکستان سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے جارہے تھے ویسے ویسے اِن کے جذبات میں شدت آتی جارہی تھی حتیٰ کہ ایک وقت ایسابھی آیاکہ یہ اتنے جذباتی ہوگئے تھے کہ یہ خود بھی اپنے آپ پر قابونہ رکھ سکے اور عالم ِ جذبات میں بولے کہ کبھی کبھی تو دل یہ چاہتاہے کہ اُن لوگوں کا منہ توڑ ڈالوں جو میرے پاکستان سے متعلق اپنی ایسی اُلٹی سیدھی بکواس کررہے ہوتے ہیں ، کہ جنہیں سُن کر اور پڑھ کر ایک سُوت خون جل کر رہ جاتاہے، مگر پھر میں یہ سوچ کر خود ہی خاموش ہوجاتاہوں کہ ممکن ہے کہ یہ لوگ جو میرے وطن کے بارے میں اِس طرح کی کھلم کھلا بکواس کرتے پھر رہے ہیں یہ صحیح ہوں اور میں اپنی حب الوطنی کے جذبات میں بہہ کراور انجانے میں کوئی ایساویساکچھ غلط کرجاوںجو بعد میں خودمیرے لئے ہی باعث ندامت ہو،اور میں اپنے کئے پر لوگوں سے منہ چھپاپھروں،اور معاشرے کا ہر فرد میری اِس حب الوطنی پر مجھے خراج تحسین پیش کرنے کے بجائے اُلٹا مجھے ایک جنونی اورور پاگل قرار دے کر مجھ سے کنارہ کشی اختیار کرجائے تو یہ میری برداشت سے باہر ہوگا۔اور میں جیتے جی اپنے ہاتھوں خود ہی مرجاوںگا۔
مگر چوںکہ میں ایک کمزورسا شخص ہوںجس کی نہ تو پیچھے کوئی بیک مضبوط ہے ،اور نہ مجھے کسی کی آشیرباد حاصل ہے ،کہ میں اِس کے بل بوتے ہی وہ کچھ کرجاو¿ںجو میرے من میں آئے،اِس نکتے کو سامنے رکھتے ہوئے جب میں اپنا محاسبہ کرتاہوں تو پھر مایوسیوں کے اُس سمندر میں غرق ہوجاتاہوں جو میری حب الوطنی کے جذبات سے کہیں زیادہ وسعی اور گہرائی رکھتاہے۔اور کفِ افسوس مل کر رہ جاتاہوں ،اور اِسی دوران اِنہوںنے پلک جھپکتے ہی ملک کا ایک کثیرالاشاعت روزنامہ ہماری جانب بڑھاتے ہوئے کہااَب اِسی کو ہی دیکھ لو آج کے ہی اخبار میں گیلپ سروے….کی آڑ میں اغیار نے جھوٹ پر مبنی یہ کیسی رپورٹ شائع کی ہے جس میں کہیں سے بھی سچ کا گمان نہیں ہورہاہے ….لوتم بھی پڑھو….اورہم نے ذراتکلف سے اخبار اُن کے ہاتھ سے لیااور پڑھنے لگے وہ رپورٹ جس نے بابارفیق احمد کو اتنااموشنل کردیاتھاکہ جس کی انتہانہیںرہی تھی وہ کچھ اِس طرح سے تھی کہ” جنوبی ایشیا میں پاکستانی وہ واحد قوم اُبھرکرسامنے آئی ہے جو اپنے حکمرانوں کے ریوں اور اِن کی نااہلی کے باعث سب سے زیادہ غم و غصے کا شکار ہوچکی ہے۔
اگر چہ اِس رپورٹ میں یہ بات ضرور تسلیم کی گئی ہے کہ پاکستانی قوم کی یہ کیفیت گیلپ سروے کے مطابق مئی2010 میں تیار ہونے والی اُس رپورٹ کے بارے میں ہے جب پاکستان میں اِس کی تاریخ کا ایسا بدترین سیلاب نہیں آیاتھا اُس وقت بھی پاکستانی قوم اپنے حکمرانوں کی نااہلی اور اِن کے غیر تسلی بخش اقدامات پر عدم اعتماد کرتی تھی اور اِن سے سخت پریشان اور ناراض تھی جبکہ یہ گیلپ سروے جو مئی 2010میں کیا گیا تھا اِس کی رپورٹ کے مطابق34فیصدپاکستانیوں نے معاشی و سیاسی عدم استحکام پر بے چینی ظاہر کی ہے جس کی شرح گزشتہ برسوں سے بہت زیادہ ہے اور اِس کے ساتھ ہی اِس رپورٹ میں واضح اور دوٹوک الفاظ میںیہ بھی بتایاگیاہے کہ جنوبی ایشیامیں پاکستانی خطے کی اپنے حکمرانوں ، سیاستدانوں اور حزب اختلاف کی جماعتوں سے سب سے زیادہ پریشان اورناراض رہنے والی قوم بن گئی ہے۔
جبکہ یہ حقیقت ہے کہ یہ رپورٹ پڑھنے کے بعد ہم خود بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ گیلپ سروے کی اِس رپورٹ پر بابارفیق احمد کا جذباتی ہونا اِس لحاظ سے درست لگتاہے کہ اُن کے نزدیک یہ رپورٹ محض جھوٹ اور فریب اور مفروضوں پر مبنی ہے اِن کا کہنایہ ہے کہ پاکستانی قوم اپنے حکمران سے 34فیصد سے تین گنا زیادہ ناراض اور پریشان ہے اورجس کی وجہ سے ملک میں سیاسی عدم استحکام کاہونا،عوام میں بے یقینی کابڑھنا،افراط زر، بیروزگاری کا تسلسل سے بڑھنا ایک بڑاسبب ہے۔ابھی ہم یہ سوچ ہی رہے تھے کہ ایک لمحہ ضائع کئے بغیر بابارفیق احمد نے اپنا ایساکڑواسامنہ بنایاکہ یہ جیسے کچکے کریلے چبارہے ہوں اور پھر بولے کہ گیلپ سروے جو بعض مرتبہ بوکس سروے کی روشنی میںاپنی رپورٹ تیار کرتاہے اِسے ایسانہیں کرنا چاہئے جبکہ اُن حقائق کو پوری ایمان داری اور نیک نیتی کے ساتھ من وعن اپنی رپورٹوں میں شامل کرلیناچاہئے جو درست ہوں ۔اور اِس کے ساتھ ہی بابارفیق احمد کا یہ کہنابھی ٹھیک ہے کہ اِن کا ایسے لوگوں پر بس نہیں چلتاجو پاکستان سے متعلق اصلاحی کم مگر تنقیدی سروے رپورٹیں زیادہ شائع کرکے پاکستان کا امیج تودنیابھر میں بگاڑ کر پیش کرتے ہیںاور اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرتے ہیں مگر اِن رپورٹوں کی روشنی میں یہ میرے ملک پاکستان کو کوئی ایساحل پیش نہیں کرتے جس سے پاکستان کوکوئی سیاسی اور معاشی فائدہ حاصل ہو۔اور یہ مسائل کی دلدل سے نکل کر کسی تعمیری راہ پر چل پڑے۔
اگرچہ گیلپ سروے مئی2010پر اِن محب وطنی پاکستانی بابارفیق احمد کا یہ کہناتھا کہ اِسے اُلتی سیدھی اور بے مقصد سروے اور رپورٹوں سے کوئی پاکستان کاکوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا کیوں کہ یہ ملک ہمیشہ قائم رہنے کے لئے بناہے اور ہمیشہ قائم رہے گا اِس لئے کہ اِس میں آج بھی بابارفیق احمد جیسے کڑوروںایسے بھی موجود ہیں جو اِس سے محبت اور اِس کی بقاو سالمیت پر اپنی جانیں قربان کردینے کا عزم رکھتے ہیں اور ایسے بھی محب وطن لوگ بستے ہیں جو اِس کے ایک ایک زرے اور ایک ایک انچ سے محبت کرتے ہیں ۔جس کی حفاظت یہ دن رات اپنی جانوں سے زیادہ بڑھ کرکرتے ہیں۔
مگر افسو س کہ ایسے محب وطن پاکستانیوں کے لئے نہ تو سابقہ حکمرانوں نے کچھ کیااور نہ ہی موجودہ حکمران ہی کچھ کرسکے ہیں یعنی یہ اپنے عہدے اور منصب کی لاج رکھتے ہوئے بھی ملک اور قوم کے لئے ایساکچھ بھی اچھاعمل نہیں کررہے ہیں کہ جس سے ملک کے ساڑھے سترہ کڑورعوام کے وہ درینہ مسائل حل ہوں جن سے آج ملک اور قوم کا ایک ایک فرد دوچار ہے۔
اور اِن تمام باتوں کے علاوہ یہاں افسوس کا ایک مقام تو یہ بھی ہے کہ ہمارے یہاں ہر دور میں حکمرانوں نے مسنداقتدار پر اپناقدم رنجافرمانے کے بعد اُس عوام کو دیدہ و دانستہ بھلادیاجس نے اِنہیں اِس بلند مقام تک پہنچایااور پھر یہی حکمران پہلے ہی روز سے ہرسوراخ سے اپنے فائدے کی سوچتے رہے اور ملکی اور قومی دولت اپنے وطن اور قوم پر خرچ کرنے کے بجائے اپنی عیاشیوں پر اِس طرح لٹاتے رہے جیسے کہ قومی دولت اِن ہی کے لئے اور اِن کی عیاشیوں کے لئے ہے ۔
اِس موقع پر مجھے یہ بھی کہنے دیجئے کہ جب ملک میں حکمران خود ایسے حالات پیداکردیں تو پھر ایک بابارفیق احمد ہی کیا ہر محب وطن پاکستانی بابارفیق احمد کی طرح جذباتی ہوکر اپنے حکمرانوں اور سیاستدانوں سے کھلم کھلانفرت کااظہارکرنے لگے گااور گیلپ سروے اور اُن رپورٹوں کو غلط تصور کرنے لگے گا جن میں کم اورغلط اعدادوشمار پیش کئے گئے ہوں گے۔