تحریر : منظور قادر کالرو
یوں محسوس ہوتا ہے جیسے قدرت نے زمانے کو پر لگا دئیے ہوں۔ کل تک رینگ رینگ کر چلنے والا زمانہ اچانک پَرمل جانے سے اُڑنے لگا ہے۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ گھر تار آجانے سے اہلِ خاندان کی آہ وبکا اُس وقت تک بند نہ ہوتی جب تک کوئی پڑھا لکھا شخص یہ نہ آکر بتا دیتا کہ آپ کے ماموں کانجن والے رشتہ داروں کے ہاں لڑکا ہوا ہے اور یہ تار لڑکے کی پیدائش کا تار ہے۔ اب خاندان کے ہر فرد کے ہاتھ میں اپنا اپناتار گھر ہے اور وہ جابجا تاریں دیتا پھر رہا ہے۔ اب کبوتروں کو اس طر ح کی منتیں کرنے کا دو ر گیا۔کہ چٹھی میرے ڈھول نوں پہنچاویں وے کبوترا۔ واسطہ ای رب دا توں جاویں وے کبوترا ۔ اب تو کبوتر آپ کے ہاتھ میں ہر وقت پھڑ پھڑاتا پھر رہا ہے۔ آپ اچھے بھلے خوش و خرم گھر میں بیٹھے ہیں کہ خالہ کی سردی کے بخار کا ایس ایم ایس آ جاتا ہے کہ تمہیں اٹھکیلیاں سوجھی ہیں ہم بے زار بیٹھے ہیں۔ تیمارداری کے تقاضے نبھانے کی خاطرتندرستی میں بھی آپ کو بخار کی تکلیف سہنا پڑتی ہے۔ساتھ والے کمرے میں بیٹھے آپ اس بات سے بے خبر ہیں کہ ہمارے باورچی خانے میں کیا کچھ تیار ہو رہا ہے لیکن کوسوں دور بیٹھا آپ کا رشتہ دار اس بات سے با خبر ہوگا کہ آپ پکوڑے بنا رہے ہیں اور اِن کی لپٹیں سنگار پور پہنچ رہی ہیں۔سائنس دانوں نے اس جادو کے کھلونے میں کیا کچھ ڈال دیا ہے۔ جی چاہے تو ٹیپ ریکارڈر بنالیں ، جی چاہے تو سینما گھر۔ جی چاہے کیلکولیٹر بنا لو جی چاہے کمپیوٹر۔جی چاہے تو فوٹو شاپ بنالیں جی چاہے تو ٹیلی فون ایکسچینج۔ جی چاہے تو ریڈیو بنالیں جی چاہے تو ٹی وی۔ ایک وقت تھا کہ بزرگ نوجوانوں کے کردار کی چوکیداری کیا کرتے تھے۔خاص طور پر سینما پلٹ نوجوانوں کی پٹائی میں بزرگ ایک دوسرے کا ہاتھ بٹاتے تھے۔اس کارِ خیر کے لئے بزرگ اپنے پرانے جوتوں کو سرسوں کا تیل لگا کر رکھتے تھے اور گرین سگنل ملتے ہی اِن کے جسم میں توانائی دوڑ جاتی تھی۔ان کو اپنی کمر درد بھول جاتی اور نوجوانوں کی کردار سازی کے لئے ایک دم چوکس ہو جاتے۔اب وقت آ گیا ہے کہ ابا لاکھ جوتے کو سرسوں کا تیل لگا کر رکھے لیکن بیٹے کے رضائی کے اندر رکھے ہوئے سینما گھر کے سامنے بے بس ہوتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ شیطان کو محلے کے بزرگوں سے بچا کر نوجوانوں کو گھر تک لے جانا خاصا کٹھن کام تھا۔ اب تو وہ مائیکل جیکسن کورضائیوں کے اندر نچوا رہا ہے۔خود بزرگوں کی دست برد سے دور بیٹھا اپنا کام دکھا رہا ہے۔وقت کی بات ہے کبھی لوگ کال بک کروا کر نیند کی آغوش میں چلے جاتے تھے اور اُس وقت تک خراٹے لیتے رہتے جب تک کہ دفتر بند ہونے پر پی ٹی سی اہل کا عملہ جگا نہ دیتا تھا کہ کل دوبارہ آکر قسمت آزمائی کر لینا آج آپ کی کال نہیں مل سکی ۔اگر کہیں کال مل جاتی تو درمیان میں کوئی صاحب منڈیوں کے بھاﺅ بھی بتا رہا ہوتا اور کوئی صاحب اپنی ڈوبی ہوئی رقم کا بھی تقاض کر رہا ہوتا۔اگر درخواست کی جاتی کہ آپ ذرا فون بند کر دیں تو جواب ہوتارقم آپ دے دیں۔ وقت وقت کی بات ہے ،نہ جانے اس اللہ دین کے چراغ میں سائنس دانوں نے کیا کیا چھپا دیا ہے۔ بات کرتے کرتے روک کر کوئی صاحب کسی دوسری طرف سے آنے والی کال سے بھی دو دو ہاتھ کر لیتا ہے۔ مجھے اچھی طرح یا د ہے کہ کالج کے زمانے میں ایک دوست نے کہا تھا کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ ہم ٹیلیفون کرنے والے کی تصویر بھی دیکھیں گے اور وہ بھی ہمارے طرح تصویر دیکھے گا۔ اس پر دوسرے دوست اُسے لعن طعن کرنے لگے کہ اتنا بڑا جھوٹ مت بولو جس سے آئے ہوئے بادل واپس پلٹ جائیں اور وہ بیچارہ جھینپ سا گیا تھا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ موبائل پر انٹرنیٹ چل رہا ہے اور انٹرنیٹ کے ذریعے بولنے والے کی تصویر بھی آ رہی ہے۔اب وائی فائی کا زمانہ آ گیا ہے۔لوگ چلتے چلتے موبائل پر گوگل پر سرچ کرتے جا رہے ہوتے ہیں،پیں پاں کر کے متوجہ کرنا پڑتا ہے کہ جناب آپ ٹریفک کے درمیان جا رہے ہیں۔دوسری طرف پی ٹی سی ایل کا بڑھاپا شروع ہو گیا ہے۔محکمہ ٹیلیفون والے اسے گاہے بگاہے بڑھاپے میں مقوی ادویات دیتے رہتے ہیں لیکن اب شاید اُن کی خواہش ،خواہش ہی رہے کیونکہ گئی جوانی کبھی لوٹ کے نہیں آتی۔ ایک وقت تھا کہ کوئی ایسا شخص کنکشن کے لئے درخواست دے دیتا جس کا نہ تو ماما چاچا ایم این اے ہوتا اور نہ کوئی بیوروکریٹ تایا ہوتا تو محکمہ ٹیلیفون والے اُس پر طنزیہ ہنسی ہنس کر کہتے،ہونہہ، یہ منہ اور مسور کی دال۔اب ان کے اشتہاروں کی زبان ایسی ہوتی جیسے کاسہ گدائی لئے کہہ رہے ہیں نہ دے سخا لائن رینٹ پر ہاتھ تو تھام لے۔یا پھر پھیری والے کی طرح کی زبان لے لوجی لائن رینٹ میں ٹی وی کے بل ، لے لوجی لائن رینٹ میں انٹر نیٹ۔اوپر سے اللہ رسول کی قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں ہم بہت اچھی سروس مہیا کرنے والے ہیں۔اللہ رسول کی قسمیں اپنی جگہ اب بھلا کون اس عمر میں اس محکمے کی شرافت اور دینداری پر یقین کرے، جب عمر ہی مونچھوں کو تاﺅ دیتے گزری ہو۔ایک وقت ایسا تھا کہ پی ٹی سی ایل میں جس برادری کا افسر چھوڑ ٹیکنیشن بھی ہوتا وہ ایم این اے کے الیکشن کے لئے کھڑی ہو جاتی تھی اور اگر ٹیکنیشن ورکر ہوتا تو جیت بھی جاتی تھی۔لائن مین بگھی میں بیٹھ کر علاقے کا دورہ کرتے۔ بگھی میں اگر ایک گھوڑا بھی کم ہوتا تودورہ کےنسل کر دیتے۔ بگھی سے اترنے کے بعد اگر بچے پھولوں کا گلدستہ لے کر نہ کھڑے ہوتے تو بھی لینڈ کرنے سے انکار کر دیتے۔یہ لائن مین ایک خرابی نکالتے تو دو ڈال دیتے تاکہ گلشن کا کاروبار چلتا رہے۔اگر دو چار ہوا کے تیز جھونکے آ جاتے توسارے علاقے کے ٹیلیفون جامِ شہادت نوش کرجاتے۔اگر دو چار بوندیں بارش کی پڑ جاتیں تو ایک عرصے تک علاقے کے ٹیلیفونوں کی روحیں عالمِ ارواح ہی میں قیام پذیر رہتیں۔کئی کئی دن تک محکمہ کے لائن مین Fault تلاش کرنے کے لئے علاقے کا دورہ کرتے رہتے اگر خدانخواستہ یہ ٹیلیفون ٹھیک کرنے میں کامیاب ہو جاتے تو معاوضے کے طور پر دودھ دینے والے بھینس یا گائے مانگتے۔ لائن مین کو گائے یا بھینس دینے کے بعد بھی صارف کی گلو خلاصی نہ ہوتی۔ٹیلیفون چالو ہونے کے بعد علاقے کے مبارکیں دینے والوں کا ہجوم شروع ہو جاتا جو کراچی کی مبارک کی پانچ سات کالیں کر کے ہی ٹلتے تھے۔آنے والا بل صارف کو کوئی نہ کوئی چیز گروی رکھ کر ادا کرنا پڑتا تھا۔اب اگر چاہے گھر میں دال ساگ کے لئے بھی خرچہ نہ ہوتا لیکن سفید پوشی قائم رکھنے کے لئے مقررہ تاریخ سے پہلے ٹیلیفون کے بل کے لئے صارف رقم اکٹھی کر لیتا۔اندر سے صارف کی یہ کیفیت ہوتی کہ جہاںمحکمہ ٹیلیفون کے عملے کو غلیظ گالی دینے کا موقع ہوتا صارف وہاں مسکرا کر خوشامد کرتا۔ جہاں تھپڑ کا مقام ہوتا صارف دانت بھینچے ہوئے مصافحہ کے لئے جھک جاتا۔زمانے بدل گئے ہیں۔اب تو ریڑھی پر سبزی بیچنے والا آوازیں لگاتے لگاتے آلو، بھنڈی، پیاز، ٹماٹر لو جی ، درمیان میں موبائل پر گھر والی سے بھی یہ کہہ لیتا کہ بادشاہو آج کیا پکا ہے۔ پی ٹی سی ایل والے اس نوبت کو پہنچنے کے بعد بھی اپنے پچھلے گناہوں پر توبہ استغفار کرتے ہوئے ٹیلی فون کو چالو حالت میں رکھنے سے قاصر ہیںاس حال میں پہنچنے کے بعد بھی عالم یہ ہوتا ہے کہ فون ملائیں چاچا فتح محمد کے گھر تو فون جا ملتا ہے بِلو یا نرگس کے گھراور نرگس کے گھر والے ڈنڈا بردار جلوس لے کر عشق عاشقی کا بھوت نکالنے آ جاتے ہیں کہ تو ہماری غیر موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہماری لڑکی سے معاشقے کرنے کے لئے کالیں ملاتے ہو۔دکھڑا بیان کریں محکمہ والوں سے تو جواب ہوتا ہے جناب ہمارا ماڈول کھلا ہوا ہے ۔ اگر پوچھا جائے کہ ماڈول کیوں کھلا ہوا ہے تو جواب ہوتا ہے کہ اس پر ہمارے انجینئر بیٹھ کر انجینئرنگ سیکھ رہے ہیں۔ اس لئے فا لحا ل جو غلط نمبر ملتے ہیں اس پر ہی گفتگو کا سلسلہ جاری رکھیں۔ اللہ رحمان و مہربان ہے غلط نمبروں پر درست گفتگو کا اجر اپنی جناب سے دے گا اور غلط نمبروں پر درست گفتگو کرنے والوں کو سزا دینے والے کو آخرت میں دردناک عذاب دے گا۔