ممتاز امیر رانجھا
بھائی صاحب ابھی تو اس میچ کا سیمی فائنل شروع ہوا چاہتا ہے۔ریمنڈ ڈیوس کیس کی وجہ سے امریکہ اور پاکستان کے درمیان فائنل بھی ہوگا۔یہ سیمی فائنل فی الحال میاں نواز شریف اور وفاقی حکومت کے درمیان جاری ہے۔ وفاقی حکومت فی الحال بیٹنگ کا مزہ لے رہی ہے۔میاں نواز شریف کو نہ جانے کیا سوجھی کہ اچھا بھلا ٹاس جیت کر فیلڈنگ کا فیصلہ کر لیا۔عوام فیلڈنگ کرکے کے تھک چکی ہے۔کئی بار حکومتی ارکان بولڈ اور رن آﺅٹ ہو چکے ہیں لیکن عوام کے لئے بیٹنگ کا کوئی اوور باقی نہیں بچا۔ ریمنڈ ڈیوس کو بچانے کے لئے امریکی میڈیا سمیت تمام امریکن تھینک ٹینک اکٹھے ہو گئے ہیں۔جان کیری تو اپنا کیری ڈبہ خالی لیکر واپس وطن لوٹ گئے۔اب ہنری کلنٹن پاکستانی حکومت کو اپنے دباﺅ میں لینے کے لئے تمام تر حربے استعمال کر رہی ہیں۔امریکن صدر جناب اوباما صاحب بھی ریمنڈ ڈیوس کے ”ماما“بن کے سامنے آئے ہیں۔ یقین کریں اب تمام پاکستانی قوم اس کشکمکش میں ہے کہ کہیںپاکستانی متاثرین کا خون رائیگاں نہ جائے اور پاکستانی حکمران جنہوں نے اس حکومت کے آغاز پر پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا اب کہیں یہ نہ کہ دیں کہ ”ریمنڈ ڈیوس “ کھپے؟۔
امریکیوں کے کھیلنے کے لئے فی الحال نہ تو موسم ٹھیک ہے اور نہ ہی گراﺅنڈ میں ان کے داخل ہونے کی کوئی گنجائش باقی ہے۔ہماری پاکستانی عوام امریکہ سے کتنی متنفر ہے اس بات کا اندازہ امریکہ کو بخوبی ہو چکا ہے اور ہمارے نام نہاد سیاستدان امریکہ کے سامنے کس طرح گھٹنے ٹیکتے رہے ہیں اس ادا کی جھلکیاں بھی سب کے سامنے ہے۔اس وقت شاہ محمود قریشی صاحب مردِ بحران بن کے سب کے سامنے آئے ہیں۔انہوں نے نہ صرف جان کیری کے ساتھ اپنی ذاتی دوستی کو پسِ پشت ڈال دیا بلکہ ان کے بقول وہ عوام کی خاطر عدالت میں جا اس بیان پر قائم رہیں گے کہ ریمنڈ ڈیوس کو کوئی استثا حاصل نہیں۔امریکی پریشر سے آزاد اور اپنی حکومت کی ناانصافی کے سامنے ڈٹ جانے والا یہ پاکستانی مرد شاہ محمود قریشی ہی نکلا۔شاہ صاحب نے امریکہ کی ناراضگی کیساتھ ساتھ اپنی پارٹی کی ناراضگی بھی تہہ دل سے قبول کی حالانکہ وہ ہر دم پارٹی کے وفادار رہے ، انہوں نے اپنی ”ناں“ دکھا کر ایک فقیر،درویش اور ایمانی خاندان کی دستار بندی کی لاج رکھی۔
بے ایمان لوگ ایک نہ ایک دن اوندھے منہ گر جاتے ہیں اور ایماندار اپنی ناکامیوں میں بھی اللہ تعالیٰ کے دربار میں ہر دم سر خرو رہتے ہیں۔بے ایمان بے برکتی کی زندگی کو اپنے لئے کامیاب اور حرفِ آخر سمجھتے ہیں اور ایماندار مشکل مگر معاشرے کی طرف سے ناروا رویہ کو بھی اللہ تعالیٰ کی منشا سمجھ کر اپنا اعلیٰ کردا ر اداکرتے رہتے ہیں۔دوسری طرف فوزیہ وہاب کو دیکھئے جس نے جھٹ سے ریمنڈ ڈیوس کی خالہ کا کردار اد اکرکے اس کی حمایت کر دی۔پھر اس کے ساتھ بھی تقدیرِ الٰہی سے بُرا ہوا۔سب نے دیکھا کہ خاتون سے وزارت چھِن گئی۔مگر پوزیشن واضح ہے شاہ محمود قریشی ریمنڈ ڈیوس کو گناہ ثابت کر کے ہیرو بن گئے اور فوزیہ وہاب ریمنڈ ڈیوس کی حمایت میں بیان دیکر نہ صرف اپنی وزارت بلکہ عوام سے بھی کافی دور ہو گئیں۔
ہم مانتے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی اور دہشت گردوں کے اختتام کے لئے امریکہ کی خدمات پاکستان کے لئے قابلِ قدر ہیں۔بے شک امریکہ کے ڈرون حملے، ہماری ملی بھگت یا ہماری اجازت کے بغیر ہو جاتے ہیں لیکن ہماری عوام کو بھی تو کوئی خواہ مخواہ (ریمنڈ ڈیوس کی طرح)کسی ٹارگٹ کِلنگ جیسے خوف میں مبتلا ہر گز نہیں کر سکتا۔اس بات سے قطع نظر کہ مرنے والے امریکہ کے بقول” ڈاکو یا دہشت گرد “تھے ،پاکستانی عوام کو تو ا س بات کا انصاف چاہیئے کہ مرنے والے پاکستانی تھے اور مارنے والا ظالم امریکن شہری۔یونہی جا کے بغیر کسی کی اجازت کے ،کسی کے ملک میں کسی کو مار دینا کہاں کا انصاف ہے صاحب؟
ہماری قوم پچھلے کئی سالوں سے غربت، معاشرتی بے راہ روی،مہنگائی اور نا انصافی کے بوجھ تلے کیا کم دبی ہوئی تھی جو ریمنڈ ڈیوس نے ہمارے ملک میں ٹارگٹ کلنگ کرنے اور کروانے کی کوئی نئی روایت نکالی۔معاملہ ابھی ہماری عدالتوں میں ہے اور انشاءاللہ ہماری عدالتیں ہمیشہ کی طرح عوام اور دین کی ٹھیک ترجمانی کریں گی۔
ہاں تو بات چلی تھی سیمی فائنل کی؟اب اگر وفاقی حکومت امریکہ کے کسی دباﺅ میں یا سیاست میں پریشرائز ہوگئی تو اس کے لئے بھی عوامی ردِعمل بہت خوفناک ہو گا۔حالات و واقعات سے لگتا یہی ہے کہ میاں نواز شریف حکومت کی من و عن خواہشات پوری کرنے سے بھی معذرت کر لیں گے اور عوامی خواہشات کے لئے امریکہ اور وفاقی حکومت کے سامنے ڈٹ جانے کی پریکٹس کریں گے۔فائنل میں ایک طرف امریکہ اور دوسری طرف عوام ایک دوسرے کا براہِ راست مقابلہ کریں گے۔ امریکہ نے گاڑی کے ذریعے کچل کر بھاگنے والے ڈرائیور کو تو خفیہ طریقہ سے بھگا لیا مگرریمنڈ ڈیوس پاکستان سے بچ کر یا فرار ہو کے چلے گئے تو پھر سمجھیں کہ ہم14اگست1947کو خدانخواستہ انگریزوں کے چنگل سے آزاد ہی نہیں ہوئے۔اور اب پاکستانی عوام کبھی بھی نہیں چاہے گی کہ ایک آزاد قوم کسی بھی وجہ سے ”غلام “ کہلائے۔