طارق حسین بٹ(چیر مین پاکستان پیپلز ادبی فورم)
انسان اپنے ہاتھوں سے بہت سے بت تراشتا ہے اور پھر ان بتوں کو بڑا عزیز بھی رکھتا ہے کیونکہ ان بتوں کے اندر اسکی اپنی محبت جھلک رہی ہوتی ہے۔ اکثر وبیشتر بت تراش بت کی کامیابیوں میں اپنی کامیابیوں کا عکس د یکھتا ہے لہذا اس بت کو مقبولِ عام بنانے میں جٹ جاتا ہے۔ یہ ہمارا روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ احسان کرنے والوں اور احسان مند ہو نے والوں میں آخر کار ایک بڑا یُدھ برپا ہو تا ہے جس میں سے ایک کی پسپائی یقینی ہو تی ہے۔ در اصل ایک خاص مقام پر جا کر دونوں اپنی اپنی ا ہمیت، عظمت اور طاقت کے زعم میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ بت تراش اس زعمِ باطل میں مبتلا رہتا ہے کہ اس بت کا موجودہ عروج میری کاوشوں کی بدولت ہے لہذا وہ اسے اپنے زیرِ نگین رکھنے کی سعیِ لا حاصل میں مگن رہتا ہے۔ بت کو یہ وہم دامن گیر ہو جاتا ہے کہ بت تراش کا وقت لدھ چکا ہے اور اب وہ میری نگاہِ التفات کا مرہونِ منت ہے اور میری وجہ سے وہ مقامِِ بلند پر فائز ہے میں چاہوں تو اسے بیک جنبشِ قلم اس کی موجودہ حیثیت سے حرفِ غلط کی طرح مٹا ڈالوں سوچ کا یہی انداز ہے جہاں سے انکی باہمی مخاصمت کا آغاز ہو تا ہے۔ انانیت کا جن بوتل سے باہر نکل آتا ہے اور اپنی برتری کا ورد پوری شدت سے شروع کر د یتا ہے اور ذاتی برتری اور عظمتوں کی یہی سوچ فساد کی ایسی فضا کو جنم دیتی ہے جس میں ٹکراﺅ سے بچنا ممکن نہیں رہتا۔۔
امریکہ نے بھی اسامہ بن لادن کا ایک بت تراشا تھا اور اسے افغانستان کی جنگ میں استعمال بھی کیا تھا ۔ امریکہ کی نگاہیں اسامہ بن لادن کی صور ت میں اپنے مفادات کے حصول پر جمی ہو ئی تھیں اوروہ اسامہ کی وساطت سے روس کے خلاف مذہبی گروہوں کی حمائت حاصل کرناچاہتا تھا اور روس کو شکست دینے کےلئے انکی مدد کا طلبگار تھا۔لیکن مذکورہ جنگ میں کامیابی کے بعد جب بت کو اپنی اہمیت کا احساس ہوا او ر اسکی محبت مذہبی حلقوں میں مزید گہری ہوتی چلی گئی تو بت نے آنکھیں دکھانی شروع کیں لہذا بت تراش نے اس بت کو چکنا چور کرنے کے منصوبے بنانے شروع کر د ئے کیونکہ اسے اس بت سے اپنے بے رحم تسلط کو ٹھیس لگنے کی بو آنی شروع ہو گئی تھی۔ جب کبھی بھی کسی بت میں یہ احساس جا گزین ہونا شروع ہو جاتا ہے کہ اب وہ بت تراش سے زیادہ مقبول اور با اثر ہے تو وہ اپنے تراشنے والے کے سامنے ڈٹ جاتا ہے ۔ کہتے ہیں کہ بت تراشنا اتنا مشکل کام نہیں ہے جتنا بڑا کام اپنے بنائے ہوئے بتوں کو توڑنا ہوتا ہے اور یہی امریکہ کے ساتھ بھی ہوا تھا ۔ اپنے مفادات کے حصول کے بعد اامریکہ کی نظرمیں اسامہ بن لادن اب غیر اہم ہو گیا تھا لہذا اس نے اس بت سے گلو خلاصی کرنے کا فیصلہ کر لیا او ر یہیں سے پندارِ نفس کی قوت نے ٹکراﺅ اور مخاصمت کی ایسی فضا کو جنم دیا جس کا ہم اس وقت شکار بنے ہو ئے ہیں۔ ۔
بت تراشنے کا یہ عمل کوئی پہلی بار نہیں کیا گیا پاکستان میں بھی ا سٹیبلشمنٹ نے بہت سے بت تراشے اورپھر ان بتوں کی ا سٹیبلشمنٹ سے ٹھن گئی ۔ بت تراشے ہی اس لئے جاتے یں کہ انھیں توڑا جائے لیکن یہ کام بہر حال بہت کٹھن اور نقصان دہ ہوتا ہے۔ میا ں محمد نواز شریف کی صدرِ پاکستان غلام اسحاق خان کے خلاف جنگ اسکی سب سے نمایاں مثال ہے جس میں دونوں کو اقتدار سے ہاتھ دھونے پڑے تھے۔ فاروق احمد لغاری اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے درمیان معرکہ اس کی انتہا ہے۔ فاروق احمد لغاری کو پی پی پی نے مسندِ صدارت پر فائز کیا لیکن اس نے پی پی پی کی حکومت کو ختم کر کے آصف علی زرداری کو قیدی بنا لیا۔ذاتی عناد اور بغض کی اس سے گھٹیا مثال ملنا ناممکن ہے ۔ اسی ٹکراﺅ کی وجہ سے آصف علی زرداری نے اپنی زندگی کے ۹ قیمتی سال زندانوں کی نذر کئے ،بڑی سختیاں جھیلیں،طویل آزمائشوں سے گزرے محترمہ بے نظیر بھٹو کو جلا وطنی کا زہر پینا پڑا اور ۸ سال تک دعرتی ماں سے دور رہنا پڑا ۔ ابھی تو کل کی بات ہے کہ بھارتی وزیرِ اعظم مسز اندرا گاندھی نے ا پنے اقتدار کے دوام کی خاطر جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کاایک بت تراشا تھا لیکن وقت آنے پر وہی بت اسکے سا منے اکڑ کرکھڑا ہو گیا جسے ایک انتہائی بے رحم بلو سٹار اپریشن کے ذر یعے ملیا میٹ کیا گیا یہ الگ بات کہ اس سے پیدا ہونے والے اثرات آج بھی محسوس کئے جا سکتے ہیں۔
اسامہ بن لادن نے مذہب کے نام پر چند سالوں میں اپنے کئی حما ئتی پیدا کر لئے تھے اور بہت سی ریاستوں اور حکمرانوں سے ا سکے براہِ راست اور ذاتی تعلقات قائم ہو چکے تھے لہذا روس کی شکست کے بعد وہ اپنی مرضی کی وکٹ پر کھیلنا چاہتا تھا لیکن امریکہ اسے یہ اجازت د ینے کےلئے تیار نہیں تھا اور یہی سے ان دونوں کے درمیاں نفرتوں کی آگ بڑھکنا شروع ہوئی۔امریکہ پر اپنی دھاک بٹھا نے اور اپنی اہمیت دو چند کرنے کےلے اس نے تشدد کی راہ کا انتخاب کیا اور امریکی ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کا آغاز کر دیا۔ نائن الیون کو ٹریڈ سنٹر پر حملہ اس کی انتہا تھا ۔ تشدد پسند تنظیمیں پہلے ہی کسی ایسی شخصیت کی منتظر تھیں جو کہ با اثر ہو دولت مند ہو تعلیم یافتہ ہو اور امریکہ دشمنی میں ان کا آلہ کا ر بننے کےلئے تیار ہو۔ انھیں اسامہ بن لادن کی شکل میں ایک ایسا جنگجو ہیرو مل گیا جو ان کی فکر اور سوچ کا نمائندہ تھا ۔ وہ اس کے گرد جمع ہو گئے اور اپنے مقاصد کےلئے اسامہ بن لادن کی دولت، شہرت اور اثرو رسوخ کو استعمال کرنے لگے اور اسلام جس فلسفے اور نظریات کا علمبردار تھا اپنی پر تشدد حرکتوںسے اس کا جنازہ نکالتے رہے۔۔
نائن الیون کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر القاعدہ کے حملوں کے بعد ا مریکہ نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ افغانستان پر چڑھائی کر دی اورپورے افغانستان کو روند کر رکھ دیا۔ کارپٹ بمبنگ کی نئی اصطلاح پہلی دفعہ سننے کو ملی۔ تارا بورا کے پہاڑ وں پر اتنی بمباری کی گئی کہ وہ چٹیل میدانوں کی شکل اختیار کر گئے۔ طالبان کی ساری قیادت ملک چھوڑ کر فرار ہو گئی اور امریکہ نے کابل کا تخت حامد کرزئی کے حوالے کر دیا ۔ اس زمانے میں پاکستان پر جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکومت تھی اور اس نے اس جنگ میں امریکہ کا دستِ راست بننے کا فیصلہ کیا جو کہ پاکستان میں مذہبی حلقوں کو ایک آنکھ نہ بھایا اور یوں مذہبی حلقوں اور جنرل پرویز مشرف کے درمیان اختلاف کی خلیج گہری ہوتی چلی گئی مذ ہبی شدت پسندوں نے جنرل پرویز مشرف کو ختم کرنے کےلئے اس پر پہ در پہ حملے کئے لیکن وہ حادثاتی طور پر ان حملوں میں زندہ سلامت بچ گیا۔ امریکہ کی دشمنی چونکہ مذہبی شدت پسند گروہوں کی تر جیحات میں شامل تھی لہذا ہر وہ شخص جو امریکہ سے دوستی کا دم بھرتا شدت پسندوں کا اس کے خلاف ردِ عمل فطری تھا۔ جنرل پرویز مشرف چونکہ دھشت گردی کی جنگ میں امریکہ کا بڑا حلیف تھا لہذا مذہبی جماعتیں اس کے خون کی پیاسی ہو گئیں۔ شدت پسندوں نے دھشت گردی کی فضا میں سوات پر قبضہ کر کے پاکستان کے اتحاد پر کاری ضرب لگائی لیکن یہ تو پاکستانی فوج کی جراتیں تھیں جنھوں نے دھشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملے کر کے ان نھیں مار بھگایا اور سوات پر دوبارہ پاکستان کی پر چم لہرایا وگرنہ وہ تو پورے پاکستان پر قبضے کےلئے نظریں جمائے ہو ئے تھے۔۔
اپنے مخا لفین کو مٹانے کےلئے القاعدہ اور طالبان نے خود کش حملوں کا ایک دھشت ناک سلسلہ شروع کیا اور پورے ملک میںخوف و ہراس کی فضا قائم کر دی۔ ان کے حملوں کے نتیجے میں پاکستان کے اندر ۰۰۰۵۳ افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیںلیکن ابھی تک ان حملوں کا سلسلہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ ہر پاکستانی کو علم ہے کہ اسامہ بن لادن، طالبان اور ان کے حواری ان حملوں کی پشت پناہی کرتے ہیں جس کی وجہ سے پاک دھرتی لہو رمگ ہو چکی ہے۔ بم د ھماکے اور خود کش حملے روز مرہ کا معمول ہیں اور شدت پسندوں کی نظر میں انسانی جان کی کو ئی قیمت نہیں ہے۔ کتنی ما ﺅں کے لختِ جگر موت کی آغوش میں اتر گئے۔ کتنی عورتوں کے سہاگ اجڑ گئے، کتنے بچے یتیم ہو گئے کتنے گھر مسمار ہوئے اور کتنے خاندان تباہ و برباد ہو گئے لیکن شدت پسند ہیں کہ اس روش سے رک جانے کےلئے تیار نہیںہیں۔ القاعدہ، طالبا ن اور شدت پسند گروہ دنیا کے امن کے لئے سنگین خطرہ ہیں لہذا ان کا قلع قمع ضر وری ہے اور ایبٹ آباد میں ۲ مئی کو یہی کچھ ہوا ۔ اس اپریشن کے مختلف پہلووں پر اختلافِ رائے ہو سکتا ہے۔ پاکستام کی خود مختاری اور سالمیت کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا جا سکتا ہے اور امریکہ کی پاکستان کی حدود میں دخل اندازی پر اس سے باز پرس کی جا سکتی ہے لیکن اس میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ ا لقاعدہ ایک شدت پسند تنظیم ہے جس نے دھشت گردی کو ہوا دے کر پاکستان کا امیج پوری دنیا میں مسخ کیا ہوا ہے۔وہ پاکستان کی سالمیت، مضبوطی ، خوشخالی اور امن کی دشمن ہے لہذا اس تنظیم کا خاتمہ ضروری ہے تا کہ لوگ اس تنظیم کے خود کش حملوں سے محفوظ ہو کر ایسی پر امن زندگی گزار سکیں جس میں خوف و ہراس اور ڈر نہ ہو بلکہ امن اور محبت کی فضا ہو۔ مجھے پاکستان سے بڑھ کر کوئی شہ عزیز نہیں ہے لہذا ہر وہ شخص اور تنظیم جو پاکستان کی سالمیت اور خو شخا لی کی دشمن ہے میری اس سے کھلی جنگ ہے۔ میری د شمنی اور دوستی کا معیار پاکستان ہے جو اس کا دوست ہے وہ مجھے جان سے عزیز تر ہے اور جو اس کے وجود کا دشمن ہے اور اسے میلی آنکھ سے دیکھتا ہے وہ میرا اولین دشمن ہے ۔آئیے اسی معیار پر القاعدہ اور طالبان کی سرگرمیوں کا جائزہ لیں اور یہ فیصلہ کریں کہ کیا ان دونوں تنظیموں کی سر گرمیوں سے پاکستان میں امن کا راج ہوا ہے ، دودھ کی نہریں بہی ہیں ، خو شخالی کو دور دورہ ہوا ہے، ،معیشت توانا ہوئی ہے بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے ، نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا ہوئے ہیں اور اسلام کا حسین چہرہ مزید درخشاں ہوا ہے تو جواب نفی میں ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ ان دونوں تنظیموں کی سر گرمیوں نے پاکستان کو تباہ حال کر دیا ہے اور اگرحقا ئق وہی ہیں جو اوپر بیان کئے گئے ہیں تو پھر مقامِ فکر ہے کہ مذہبی جماعتیں دھشت گرد وں اور شدت پسندوں کی حمائت کیوں کر رہی ہیں ؟
باعثِ حیرت ہے کہ اسامہ بن لادن کی موت پر پاکستان کے مذہبی حلقوں میں صفِ ماتم بچھی ہو ئی ہے حالانکہ انھیں بخوبی علم ہے کہ اسامہ بن لادن اس ملک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ تھا۔ اس نے پاکستان میں امن و امان کو تہہ و بالا کر رکھا تھا اور کوئی بھی گھر ا لقاعدہ اور طالبان کی دھشت گردی سے محفوط نہیں تھا ۔ ہماری مذہبی قیادت کابھی عجیب حال ہے کہ اس میں سچ کو سچ کہنے کی جرات نہیں ہے۔ پاکستانی عوام نے کسی مذہبی جماعت سے خود کش حملوں کے بارے میں قراردادِ مذمت منظور ہوتے ہوئے نہیں دیکھی۔انکا سارا زور صرف ایک نقطے پر مرکوز ہے اور وہ بار بار ایک ہی گردان دہرا تے جا رہے ہیں کہ جب تک ڈرون حملے بند نہیں ہو تے خود کش حملے ہوتے رہینگے۔ بھئی ڈرون حملے کرنے والے تو امریکہ سے آتے ہیں اور طا لبان پرخچے اڑا رہے ہیں معصوم اور نہتے پاکستانیوں کے۔ اگر اتنا دم خم ہے تو ڈرون حملہ کرنے والوںسے جنگ کرو اور اپنی سر زمین سے کرو پاکستان کو کیوں اسکی سزا دے رہے ہو ۔ پاکستان کا قصور صرف اتنا ہے کہ جب روس نے افغانستان پر چڑھائی کی تھی تو اس وقت پاکستان نے مصیبت زدہ افغانیوں کو پناہ دی تھی اور انھیں اپنا مہمان بنایا تھا ۔ اس احسان کا بدلہ شائد یہی ہے کہ پاکستان کو تباہ حال کر کے اس پر قبضہ کر لیا جائے۔لیکن ایساہونا نا ممکن ہے کیونکہ پاکستان کے بیٹے اسکی حفاظت کےلئے ا بھی زندہ ہیں۔
مذہبی قیادت اسامہ بن لادن پر ایسے وارے نیارے ہو رہی ہے جیسے وہ پاکستانیون میں زندگی کی سوغات بانٹ رہا تھا۔خوشیوں کے پھول نچھاور کر رہا تھا ، ان میں عمل کی برقی رو دوڑا رہا تھا، کامیا بیوں کی نوید لے کر آرہا تھا،ترقی کا سر بستہ راز بتا رہا تھا اور وفا کی قندیلیں روشن کر رہا تھا۔ موت کے سوداگروں کو اگر پھولوں کے ہار پہنانے کی رسم عام ہو جائے تو سمجھ لو قوم مردہ ہو چکی ہے اور اسکی ترقی کی راہیں مسدود ہو چکی ہیں ۔ایک وقت تھا کہ یہی امریکہ جو آجکل مذہبی قوتوں کی نفرت کا سب سے بڑا ہدف بنا ہوا ہے کبھی ان مذہبی قوتوں کا محبوب (ڈار لنگ ) ہوا کرتا تھا، سچ کا نقیب بنا ہوا تھا ، حق و انصاف کا داعی بنا ہوا تھا اور دنیا میںکمزوروں اور نہتوں کا ان داتا بنا ہوا تھا ۔ اس وقت امریکہ کی دوستی اسلام سے دوستی کے مترادف تھی، اسلام کی سربلندی امریکی دوستی سے مشروط تھی اور حق وصداقت کا دوسرا نام امریکہ تھا۔
یہ وہ وقت تھا جب مذہبی قوتیں امریکہ کی گود میں بیٹھی ہو ئی تھیں اورا س سے بے تحاشہ ڈالر وصول کر رہی تھیں لہذا انھوں نے امریکہ کو دنیا میں انسانی حقوق کا چیمپین بنا یا ہوا تھا کیونکہ امریکہ سے ملنے والی اربوں ڈالروں کی امداد جنرل ضیا ا لحق اور مذہبی قیاد توںنے باہم مل کر ہضم کی تھی تبھی تو امریکہ زندہ باد کے نعرے ہر سو سنائی دیتے تھے۔ نہ دین کی حرمت یاد تھی نہ امریکہ کی اسلام دشمنی راستے میں آڑے آرہی تھی، نہ ہی غیر ملکی مداخلت کا کوئی شور تھا، نہ ہی ملکی سلامتی کا کوئی خوف تھا، نہ ملکی خود مختاری کا کوئی تصور تھا اور نہ ہی غیرت و حمیت کا کہیں پر نام و نشان تھا ڈالر تھے اور اور ان ڈالروں پر محوِ رقص مذہبی قیادت تھی وہ وقت اور تھا آج وقت اور ہے اس وقت مفادات کی نوعیت دوسری تھی لہذا فیصلہ بھی مفادات کی روشنی میں ہی ہونا تھا سو ہوا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ دولت ایک قوت ہے جو بولتی بھی ہے ناچتی بھی ہے نچاتی بھی ہے اور اپنے ہونے کا احساس بھی دلاتی ہے لہذا جب امریکہ نے فنڈز دینے سے ہاتھ روک لیا اور جنرل پرویز مشرف ان فنڈز کے اکیلے حقدار قرار پائے تو مذ ہبی قیادت تلملا کر رہ گئی اور امریکہ کی مخالفت میں سا منے آ گئی اور امریکہ مردہ باد کے نعرے ایک دفعہ پھر ہر سو سنائی دینے لگے۔اسلام پھر خطرے میں پڑ گیا کیونکہ ڈالر اپنی جیب میں جانے کی بجائے اب کسی اور کے خزانے میں جا رہے تھے لہذا اسلام کا خطر ے میں ہونا لازم تھا۔ پتہ نہیںوہ کونسا اسلام ہے جو ہمہ وقت خطرے میں رہتا ہے حالانکہ اسلام کو کبھی خطرہ لاحق نہیں ہوا یہ ضرور ہے کہ کچھ لوگوں کے مفادات کو خطرہ ہوتا ہے تو وہ اسلام خطرے میں کا نعرہ لگا دیتے ہیں۔
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق۔۔نے آبلہ مسجد ہو ں نہ تہذیب کافر زند
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی نا خوش ۔۔میں ز ہرِ ہلا ہل کو کبھی کہہ نہ سکا کند
(ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ)
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،