عثمان حسن زئی
uhasanzai@yahoo.com
جوں جوں عاشورہ کا دن نزدیک آتا جارہا ہے ملک بھر باالخصوص کراچی کے شہریوں میں خوف و ہراس بڑھتا جارہا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ کے مطابق دہشت گردی کے واقعات کا خطرہ ابھی بھی موجود ہے۔ جبکہ میڈیا رپورٹوں کے مطابق خفیہ اداروں نے ملک بھر میں محرم کے دوران خود کش حملوں اور دہشت گردی کی دیگر وارداتوں کے حوالے سے حکومت کو خبر دار کیا ہے خصوصاً کراچی میں ایام عزاداری کے دوران سبوتاژ کی کارروائیوں کے خطرات سے آگاہ کرتے ہوئے سخت سیکورٹی
حکومت عوام کی سیکورٹی کے لیے فول پروف انتظامات ضرور کرے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ سیکورٹی کے نام پر عوام کو ہراساں کیا جائے، انہیں تنگ کیا جائے اور انہیں خصوصی فارم دے کر ان سے پوچھ گچھ کا سلسلہ شروع کردیا جائے، مہمانوں پر گھر کے دروازے بند رکھنے کا حکم دیا جائے۔ سیکورٹی کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ضرور ہے مگر اس کی آڑ میں شہریوں کی زندگی عذاب کردینا کہاں کا انصاف ہے؟ کراچی میں سیکورٹی ہائی الرٹ، جگہ جگہ رینجرز اور پولس اہلکاروں کی تعیناتی اور سخت چیکنگ کے باوجود ڈکیتی اور سیاسی کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ کی وارداتیں مسلسل جاری ہیں۔ ان کارروائیوں نے حکومتی فیصلوں اور فول پروف سیکورٹی کے دعوﺅں کی قلعی کھول دی ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک محرم میں دہشت گردی کے خطرہ کی موجودگی کی دہائی دینے کے علاوہ کچھ کرتے نظر نہیں آرہے۔ صوبائی وزیر داخلہ سندھ ذوالفقار مرزا کا کہنا ہے کہ سیکورٹی انتظامات سخت کردیے مگر حالات کی ضمانت نہیں دے سکتا۔
اتنے اہم منصب پر فائز شخصیت اتنا غیر ذمہ دارانہ بیان دے اور اگروہ عوام کو تحفظ فراہم کرنے کی گارنٹی نہیں دے سکتے تو پھرشہریوں کی سیکورٹی کا ذمہ دار کون ہے؟ اس وقت ہمارا ملک آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے قرضوں کے سہارے چلایا جارہا ہے، معیشت دگرگوں حالت میں ہے ان حالات میں اور مہنگائی کے اس دور میں تین روز تک کاروبار بند رکھنے کا فیصلہ پہلے سے تباہ حال معیشت پر ایک مہلک وار ہوگا۔ کیونکہ اس فیصلے سے تاجروں کے ساتھ ساتھ 2 لاکھ سے زاید مزدور بھی متاثر ہونگے۔ اس سال محرم میں حملوں کے خدشے کے پیش نظر پہلی بار چھوٹے چھوٹے شہروں اور قصبوں میں بھی موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی اور شاہراہوں کی بندش کا فیصلہ کیا گیا ہے جس سے ہر طرف مزیدخوف و ہراس پھیل گیا ہے۔ یہ حکومتی اقدامات ہمارے مسائل کا حل ہیں اور نہ ہی ان سے قوم کی کوئی خدمت ہورہی ہے۔ اس سلسلے میں ہماری رائے یہ ہے کہ اگر حکمران دہشت گردی کے واقعات روکنے میں واقعتاً مخلص ہیں تو سیکورٹی کے نام پر لاکھوں شہریوں کی زندگی عذاب بنانے اور انہیں پریشان کرنے کی بجائے دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ کریں اس حوالے سے قومی سلامتی کی لاتعداد ایجنسیاں ہیں انہیں فعال کرکے دہشت گردی کے منصوبوں کو ناکام بنائیں۔ دوم، صرف سیکورٹی کافی نہیں بلکہ مذہبی رہنماﺅں اور منتظمین کو اعتماد میں لے کر اس طرح کے اجتماعات کو محدود اور ان کا دورانیہ کم کرناچاہیے۔ اس حوالے سے عوام میں شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے جس میں میڈیا اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
تیسری اور آخری تجویز تمام مسالک کے ماننے والوں باالخصوص رہنماﺅں سے متعلق ہے کہ وہ عوام کو ذہن نشین کرائیں کہ اصل چیز سڑکوں اور بازاروں کو کئی کئی روز بند رکھ کر جلسے جلوس کرکے عام شہری کو اذیت میں مبتلا کرنا نہیں بلکہ ان مقدس شخصیات کی تعلیمات پر عمل کرانا ہے جن کے بابرکت ناموں پر یہ سب کچھ کیا جاتا ہے۔ کیونکہ ان شخصیات کی تعلیمات عوام کو دکھ نہیں، سکھ دینے کے لیے ہیں۔