کسی یورپ کے ملک کی بات ہے کہ ایک آ دمی نے ایک صحافی سے فون پر کہا کہ سر!میں آ پ سے ملنا چا ہتا ہوں تو اس صحافی نے کہا کہ ٹھیک ہے آ پ مجھے بتا دیں کہ مجھے کہاں آ نا ہوگاتو اس شخص نے ایک بہت بڑے ہو ٹل میں آ نے کی دعوت دے دی۔ جب صحافی ہو ٹل پہنچا تو ٹیبل کھانوں سے بھری ہو ئی تھی تقریبا ہر قسم کے
یہ الفا ظ کہنے تھے کہ آدمی کے پا ﺅں تلے سے زمین نکل گئی اور وہ حیران پر یشا ن صحا فی کا منہ تکنے لگا اور اسے ہو ٹل کے گیٹ کی بجا ئے گاڑی تک چھوڑنے آ یا۔ آدمی نے نہا یت ادب و احترام سے گزارش کی سر! ”آپ نے مجھے بل ادا کر نے دینا تھا اس میں کو ئی حر ج نہیں تھا “ یہ سن کر صحا فی نے کہا کہ ”یہ بات آ پ کے لئے معمولی ہو سکتی ہے لیکن میرے لئے نہیں کیو نکہ اگر میں آ پ سے کھا نے کی بجا ئے صرف چا ئے کا ایک کپ بھی پی لیتا توشاید میرا ضمیر کبھی مطمئن نہ ہو تا “کیو نکہ جب بھی آ پ کو ئی غلط کام کرتے تو آپ سے چا ئے کا ایک پیا ہوا کپ میرے سا منے آ جا تا اور میں اپنے ضمیر کا سودا کر کے آ پ کے متعلق وہ کچھ نہ لکھ سکتا جو آ پ نے کیا ہوگا“یہ تو ان ممالک کی بات ہے جو ٹائم میںہم سے دو چا ر گھنٹے پیچھے ہیں لیکن ترقی میں سے دو چا ر نہیں بلکہ چا لیس ، پچا س سا ل آ گے ہیں لیکن اگر ہم اپنے ملک کی بات کر یں تو یہاں آ ج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو کسی بھی نئی پوسٹ پر تعینات ہو نے والے آفیسر سے سب سے پہلے ملاقات کا” شرف“ حاصل کر نا اپنے لئے ایک بہت بڑا” اعزاز“ سمجھتے ہیں اور نہ صرف ملا قات بلکہ آ فیسر سے چا ئے پینے میں بھی فخر محسوس کر تے ہیں ۔ اور اسی ایک چا ئے کا شا ید ان کے نز دیک یہی مطلب ہوتا ہے کہ ہمارے افسران سے بہت تعلقات ہیں اور ہم ان تعلقات کی بنیاد پر ہر جا ئز و نا جا ئز کام کروا سکتے ہیں اور اگر ایسا کبھی مو قع آ بھی جا ئے تو وہ آ گے بڑھنے میں کو ئی کسر نہیں چھوڑتے اور بلاوجہ افسران کے دفاتر میں ما سوائے گپ شپ کے کوئی کام نہیں کر تے اور ان لوگوں کی اسی گپ شپ کی وجہ سے نجا نے کتنے غریب ، خاص طور پر مزدور طبقہ کے افراد اپنی شکا یات کر نے سے پہلے ہی گھروں کو واپس لو ٹ جا تے ہیں
کاش ہمارے ملک میں بھی ایسے لو گ آ جا ئیں جو سرکاری افسران کی پیش کش کو ٹھکرا دیں کہ” مجھے چا ئے نہیں پینی “بلکہ آ پ کو جودرخواست ہم نے گزشتہ دنوں اپنے مسا ئل کے حل کے لئے دی تھی آ پ ان مسا ئل کو حل کر نے کے احکامات جا ری کر یں اور ان مسا ئل کے حل کرنیوالی ٹیم کو فورا روانہ کر یں کیو نکہ ہمارے سر کاری اداروں میں کام کر نے والے لوگ حقیقت میں عوامی ٹیکسوں سے اپنی تنخواہیں لیتے ہیں اور معا شرے کے بعض کر پٹ لوگوں نے ان سر کاری افسروں کی کچھ اس طر ح خا طر مدارت کی کہ یہی سر کاری افسر مچھلیوں کی بجا ئے مگر مچھ بن گئے ہیں جو غریب آ دمی کو دیکھتے ہی اسے دفتر سے با ہر نکال دیتے ہیں کہ ٹھیک اے جناب، ٹھیک اے بزرگو، ٹھیک اے لالہ جی، ! تسی جا ﺅ اسی اس مسئلے نوں ویکھ لاں گئے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بے لو ث عوامی خدمات سر انجا م دینے والے لوگ سرکاری افسران کی بجا ئے عوامی تعلقات پر زور دیں اسی میں ہم سب کی بہتری ہے کیو نکہ ہمیں اچھا پاکستان بنا نے کے لئے پہلے پاکستانی بننا ہو گا تب ہی ہم ترقی یا فتہ ممالک کی صف میں کھڑے ہو سکتے ہیں ورنہ قا ئد اعظم تو پہلے ہی”اﷲ،۔۔۔پاکستان“ کہہ کر اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں ۔