ضامن

تخلیقِ پاکستان کے ابتدائی ایام میں پاک دھرتی کا ایک ایک فرد ایثار و قربانی کی چلتی پھرتی تصویر بنا ہوا تھا۔ پاکستان کے ہر شہری کا دکھ درد ا نھیں اپنا دکھ درد محسوس ہو تا تھا۔ تحر یکِ پا کستان میں اپنے مہاجر بھا ئیوں کےلئے انھوں نے جسطرح دیدہ و دل فرشِ راہ کئے وہ ایک علیحدہ داستان ہے اور ایک مکمل کالم کی متقاضی ہے۔ایسا محسوس ہو تا تھا کہ پوری قوم ایک جسدِ واحد کی مانند ہے اور کسی ایک کی تکلیف انکے پورے پیکر کو بے چین کرنے کےلئے کافی ہے۔ انسا نیت کی فلاح و بہبود اور اسکی نجات ہی انکی پہلی ترجیح تھی اور اس میں کسی فردِ خاص کوکوئی تخصیص حا صل نہیں تھی بلکہ سب کو ایک ہی نظر سے دیکھے جانے کی روش کا کھلے عام اظہار ہو تا تھا نئے وطن کے حصول کی خوشیوں نے حر ص و طمع اور مفادِ عاجلہ کے سارے بتوں کو بڑی ہی بے رحمی سے پاش پاش کر کے رکھ دیا تھا۔ نفرت کی دیوی کہیں دور منہ چھپا ئے محوِ گریہ تھی اور اس مملکتِ نو زائیدہ میں اسے داخلے کی اجازت نہیں تھی کیونکہ یہاں پر ہر سو چا ہتوں کے پھول کھلے ہو ئے تھے اور خوشبو ﺅ ں کا دور دورہ تھا۔ محبت و یگانگت اور انسان دوستی کے اعلی اور ارفع جذبے ایک جنت نظیر معاشرے کی تشکیل کا علم تھامے ہو ئے تھے اور مسرتوں اور کامرا نیوں کی ان دیکھی قوت انکے رگ و پہ میں سرائیت کر کے ایک ایسی مثالی ممکت کے قیام میں جٹی ہو ئی تھی جو اپنی تشکیل میں سب سے منفرد اور جدا تھی ۔۔
حسنِ اتفاق دیکھئے کہ اس قوم کی قیادت کا فریضہ سر انجام دینے کی سعادت ایک ایسی شخصیت کے حصے میں آئی جو آئین و قانون کی چلتی پھرتی تصویر تھی اورامانت و و دیانت میں بے مثل تھی۔ اسکی فہم و فراست اسے دوسروں سے ممتاز بھی کرتی تھی اورسب سے منفرد بھی کرتی تھی۔ اسکی فہم و فراست اور معاملہ فہمی کے سا منے کسی کا چراغ نہیں جلتا تھا۔قائد کی بے لوث قیادت میں پاکستانی قوم نے شاہراہِ ترقی پر اپنا پہلا قدم رکھا تو اتحاد تنظیم اور ایمان اسکا دل پذیر نعرہ بنا اور اسی نعرے کے پرچم تلے انھوں نے اقوامِ عالم میں اپنے وجود کی شناخت کےلئے اپنی کاوشوں کا آغاز کیا تھا۔کبھی کبھی سوچتا ہوں تو محوِ ِ حیرت رہ جاتا ہوں کہ وہ قوم جس نے اپنے قوتِ بازو ، جرات و بسالت، حریت و جانباز ی، شمشیر زنی، جنگ و جدل اور فوجی طاقت کے بل بوتے پر برِ صغیر پا ک و ہند پر ایک ہزار سال تک حکومت کی تھی وہی قوم پر امن جمہو ری جدو جہد سے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کے قیام کا معجزہ سر انجام دے ڈالے گی۔ تیر و کمان کے دھنی اور تیغوں کے سائے میں پل کر جواں ہو ئے ہیں کے نغمے الا پنے والی قوم کے افراد ووٹ کی قوت سے مخالفین کو زیر کر لیں گے باعثِ حیرت ہے ۔ شائداعلے قیادت کا یہی کما ل ہوا کرتا ہے کہ وہ نا ممکن کو ممکن بنا نے کے اوصاف سے مزین ہو تی ہے اور یہی سب کچھ قائدِ اعظم کی فقید المثال قیادت سے بھی متر شع ہو تا ہے۔
عجیب اتفاق ہے کہ وہ قوم جس کے خمیر میں انسان دوستی اور تکریمِ انسا نیت کے اعلی و ارفع جذبے تھے وہی قوم چند سالوں کے بعد ایک ایسی ڈگر پر چل نکلی جس میں شدت پسندی اور دھشت گردی کے جذبوں نے اسکی امن پسندی کے جذ بوں کو نگل لیا۔اقوامِ عالم آج اس کے فلسفہِ تخلیق اور جذبہِ آزادی پر سوال اٹھا رہے ہیں اور پاکستان کو امنِ عالم کےلئے خطرہ قرار دے رہے ہیں ۔ کیا کسی کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ قوم کے نئے اندازِ فکرکو کھنگا لے،اسکی نئی روش کا تجزیہ کرے اس کے اسباب کا جائزہ لے، اس کی وجو ہات کا کھوج لگا ئے اور اس کی علت میں عرق ریزی کرے اور پھر کسی ایسی راہ کا تعین کرے جس میں دھشت گردی کا خاتمہ ہو سکے اور قوم پھر اسی سمت اپنا سفر شروع کر سکے جس کا آغاز اس قوم نے قائدِ اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں کیا تھا۔وہی قوم ہے لیکن ایک قائد نہ ہو نے سے بھٹکتی پھر ر ہی ہے۔
علامہ محمد اقبال تو اس نئی مملکتِ پاکستان کی تشکیل سے ان داغوں کو جو عربی ملوکیت نے ا سلام کے اجلے دامن پر لگا رکھے تھے د ھونا چا ہتے تھے اور ایک ایسا انصاف پسند اور ترقی پسند معاشرہ تشکیل دینا چا ہتے تھے جس پر دنیا عش عش کر اٹھے۔وہ اسے اسلام کی ایسی تجربہ گاہ بنا نا چاہتے تھے جس سے اقوامِ عالم راہنما ئی حا صل کر سکیں ۔وہ اسلام کے امن محبت اور سلامتی کے تصور سے مملکتِ خدا داد کے دامن کو بھرناچا ہتے تھے۔ا فرا ق و تفریق ،جنگ و جدل، نفرتوں اور مصائب میں ڈوبی اس دنیا کو جنت نظیر بنا نا چاہتے تھے۔پاکستان ان کے سارے تصورات کا نچوڑ تھا اور انکی ساری فکر کی عملی تجربہ گاہ تھی ۔۔۔
سبق پڑھ پھر صداقت کا عدالت کاشجا عت کا ۔۔لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا  (ڈاکٹر علامہ محمد اقبال)
قائدِ اعظم محمد وعلی جناح مملکتِ خدا داد کے قیام سے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے مستقبل کو محفوظ بنا نا چا ہتے تھے۔ وہ ا نھیں حریت و جانبا زی کے ایسے اوصافِ حمیدہ سے لیس کرنا چا ہتے تھے جو اپنی تہذیب، کلچر ثقافت کی طاقت سے اہلِ جہاں کو اپنی خوبیوں سے متاثر کر کے نئی دنیا کی صورت گری میں لیڈنگ رول ادا کرسکیں۔ وہ پاکستان کو دنیا کےلئے ایک ایسی مثال بنا نا چا ہتے ہیں جو آ ئین و قانون کی حکمرا نی پر یقین رکھتی ہو گی ۔ اس میں برابری اور تکریمِ انسانیت کے سنہری اصول جھلمل جھلمل کرتے ہو ئے نظر آئیں گے۔ہلِ جہاں انکی عظمتوں سے خود میں عظمتوں کا سراغ لگا یا کریں گے اور انکی جمہوری جدو جہد سے خود میں نئی طا قت اور توا نا ئی محسوس کیا کریں گے۔ تخلیقِ پاکستان اس روئے ار ضی کا کو ئی معمولی وا قعہ نہیں ہے اور جب یہ واقعہ معمولی نہیں ہے تو اسے پرپا کرنے والے افراد کے اعمال و کردار بھی تو غیر معمولی ہونگے ۔
آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش ۔۔اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جا ئے گی
اس قدر ہو گی ترنم آفریں بادِ بہار۔۔ نگہتِ خوا بیدہ غنچے کی نو ا ہو جا ئے گی   (ڈاکٹر علامہ محمد اقبال)
آج جب میں مڑ کر پیچھے دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں توایسے محسوس ہو تا ہے کہ وہ خواب جو وجہ¾ِ تخلیقِ پاکستان بنا تھا ہم نے اسے چکنا چور کر دیا ہے۔ ہم نے انسانی اقدار اور انکی عظمت کو خاک میں ملا دیا ہے اور اپنے قائدین کی آرزﺅں کا خون کر دیا ہے۔وہ مقاصد جن کےلئے لاکھوں انسانوں نے اپنی جا نوں کا نذرانہ دیا تھا انھیں فراموش کر دیا گیا ہے۔اپنی ماﺅں بہنوں اور بیٹیوں کی قربانیوں سے صرفِ نظر کر لیا گیا ہے۔اپنے ابا ﺅ اجداد کی لہوسے رقم کی گئی داستان کو بھلا یا جا رہا ہے۔ اور ان کی قربا نیوں کو مذاق بنایا جا رہا ہے۔اس وقت پاکستان ایک ایسی ریا ست ہے جس میں آئین و قانون مذاق بن کر رہ گئے ہیں جس میں طاقت ور افراد کے ہاتھوں میں پاکستان کا مقدر رکھ دیا گیا ہے۔جس میں غنڈہ گردی، سفاکیت اور دھشت گردی نے معاشرتی قدروں کا جنا زہ نکال دیا ہے۔ حرص و ہوس نے ہر طرف ڈیرے ڈال رکھے ہیں، دولت کا حصول اور اس کا ارتکاز مقصودِ بالذات بن چکا ہے۔ریا کاری اور کرپشن نے معاشرے کو کھو کھلا کر کے رکھ دیا ہے اور ریاست زبوں حالی اور تنزلی کی جانب بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
افغانستان کی ۹۷۹۱ کی جنگ نے موجودہ صورتِ حال کی تخلیق میں اہم رول ادا کیا ہے۔ یہی وہ سال تھا جس میں سو ویت یونین ( روس) نے افغانستان پر اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کی خا طر دھاوا بول دیا تھا۔ پاکستان امریکہ یورپ اور سعودی عرب کے اتحاد نے سو ویت یو نیں (روس) کی اس یلغار کو روکنے کےلئے حکمتِ عملی ترتیب دی اور دس سالہ جنگ کے بعد سو ویت یونین (روس) کو ذلت امیز شکست کے بعد افغانستان سے واپس جا نا پڑا لیکن ان دس سالوں میں افغانستان سے جس کلا شنکوف کلچر نے پاکستانی معاشرے میں چڑھا ئی کی اس نے پاکستانی معاشرے کی بنیا دوں کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔ گھر گھر میں اسلحے کے ڈھیروںنے معاشرے سے رحم اور برداشت کے سارے جذبوں کی بیخ کنی کر دی۔ جہاد کے نام پر مذہبی شدت پسند وں نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔قتل و غارت گری اور منشیات کا ایک ایسا سلسلہ چل نکلا جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔جنرل ضیا الحق نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کےلئے مدرسہ کلچر کو فروغ دیا اور شدت پسندوں نے ان مدرسوں سے ایسی کھیپ تیار کر نی شروع کر دی جو صرف لاشیں گرانا جا نتی ہے ۔ خود کش حملوں اور تحریب کاری نے معاشرے کے اندر حوف و حراس کی کیفیت کو جنم د ینے میں کلیدی کردار ادا کیا ۔ ریاست کی پشت پناہی اور ملکی خزانے کے بے دریغ ا ستعمال نے ایک ایسے طبقے کو جنم دیا جو مذہب کے نام پر مخالفین کے قتل کو اسلام کی خدمت سمجھتا ہے اور اس معاملے میں کسی کی بات سننے اور برداشت کرنے کے لئے بالکل تیار نہیں ہے۔۔
ان سارے عوامل کی یکجا ئی نے پاکستان کی ایسی صورت گری کی ہے کہ وہ پاکستان جس پر قائد اور اقبال کے افکار کی چمک تھی روشنی تھی جاذبیت اور دلکشی تھی بالکل مسخ ہو چکا ہے۔ چند دن قبل پنجاب کے گو رنر سلمان تا ثیر کا قتل، جسٹس جاوید اقبال کے والدین کا قتل جیو کے جواں سال صحافی ولی خان بابر کا دن دھاڑے قتل، بم دھما کے اور ٹارگٹ کلنگ چیخ چیخ کر پاکستان سے امن کی موت کا اعلان کر ر ہے ہیں اور دنیا کو پاکستان کا وہ چہرہ دکھا ر ہے ہیں جو انتہا ئی خوفناک ہے لیکن ہم پھر بھی دھشت گردی کی اسی ڈگر پر محوِ سفر ہیں جس کا انجام تباہی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اپنے اپنے سیا سی اور مذہبی مقا صد کی خاطر ہم نے پاکستان کے مقدر کو داﺅ پر لگا دیا ہے۔ ہم لسانی اور علا قائی گروہوں میں تقسیم ہو چکے ہیں اورا پنے علاوہ دوسرے گرو ہوں کا خون بہا نا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ایک قومی تصور میں خود کو ڈھا لنے کےلئے تیار نہیں ہیں۔ علاقائی اور لسانی سوچ بری طرح سے ہم پر غا لب آچکی ہے جو ہما رے لئے زہرِ قا تل ہے حا لا نکہ قیامِ پاکستان محض اس وجہ سے ممکن ہو سکا تھا کہ ہم نے حصولِ پاکستان کی خا طر ہر علاقا ئی اور لسانی پہچان کو فرا موش کر کے ایک قوم کا علم بلند کیا تھا۔آج ہم نے اس قومی سوچ کا اس بری طرح سے خون کیا ہے کہ پاک دھرتی پر خون کے دھبے ہر سو پھیلے ہو ئے دکھا ئی دیتے ہیں جو ہما ری بے حسی، بے وفا ئی، ناکامی اور کمزوری کا منہ بو لتا ثبوت ہیں۔ پاکستان میں امن و امان اور استحکام کی خاطر ہمیں ایک دفعہ پھر قومی سوچ کو پیدا کرنا ہو گا کہ یہی سوچ پاکستان کی بقا اور اس کی ترقی کی ضامن ہے اسی لئے تو دیدہ ور نے اس حقیقت کو کئی سال قبل بڑے واشگاف الفاظ میں کہہ دیا تھا ۔۔۔
غبار آلود رنگ و نسل ہیں با ل و پر تیرے ۔۔ تو اے مرغِ حرم اڑنے سے پہلے پر فشاں ہو جا
ہوس نے ٹکرے ٹکرے کر دیا ہے نوعِ ِ انساں کو ۔۔اخوت کا بیاں ہو جا محبت کی زباں ہو جا
(ڈاکٹر علامہ محمد اقبال)
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

Comments (0)
Add Comment