شیطان جی اور دن کی آفت طاری
تحریر:شین شازی
sheen_shazi@yahoo.com
کون کہتا ہے کہ پاکستان میں آزادی نہیں ،یہاں پر قتل کرنے،ڈکیتی، راہزنی،چوری ،ذخیرہ اندوزی،ملاوٹ، رشوت،جھوٹ،جعل ڈگری،جعلی وعدے کرنے کے ساتھ ساتھ اسلام کا مذاق اڑانے کی بھی بلکہ مکمل آزادی ہے ۔مجھے یہ سب آزادیاں اس دفعہ روزہ خوروں کو بری طرح سے دن کی افطاری کرتے د یکھنے پر یاد آئی تھیں اور یوں لگا تھا جیسے جنم جنم کے ننگوں کی طرح جنم جنم کے بھوکے بھی اس دنیا میں موجود بلکہ بہت موجود ہیں انہیں دیکھ کر تو ہم جیسے مسنون طریقے سے افطاری کرنے والوں کا بھی دل کچھ ”کچا کچا“ ہو گیا تھا ۔آفت طاریوں ( روزہ خوروں کی” افطاری“ ) سے قبل دوران ”روزہ“ یہ حضرات اور خواتین جس ڈھٹائی سے روزہ داروں کا روزہ خراب کرنے کی کامیاب کوشیش کرتی ہیں اس سے تو خیر اللہ میاں ہی پوچھیں گے کہ ان کے دلوں میںتو اسلام نام کی کوئی چیز نہیں رہ گئی ہے یہ تو اسلام کا بھی اس بری طریقے سے مذاق اڑاتے ہیں کہ ہمارا دل کرتا ہے کہ ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے جو سیالکوٹ کے درندوں نے دو بھائیوں کے ساتھ کیا تھا لیکن پھر اپنے مسلمان ہونے کا خیال آ جاتا ہے اور ایمان کی کمزور ترین شکل کو دیکھتے ہوئے دل میں ہی ان روزہ خوروں کو برا کہہ دیتے ہیں جس کا بہر حال افسوس ہوتا ہے …….. ہم آمر ضیاءکو برا بھلا کہتے رہتے ہیں لیکن ان کے احترام رمضان آرڈینس کی داد دیتے ہیں کہ کم از کم ان دنوں روزہ نہ رکھنے کے باوجود رمضان کا احترام تو کیا جاتا تھا لیکن اب رمضان کی بجائے ” انکل رمضان“ کا ادب و احترام کیا جاتا ہے کہ انہوں نے عیدی پر جو عیدی د ینی ہوتی ہے ۔ ایک چینی کہاوت کے متعلق گزشتہ دنوں پڑھا تھا کہ مچھلی ہمیشہ سر کی جانب سے سڑھتی ہے ہماری عوام بھی بیچاری حکمرانوں کے دیکھا دیکھی سڑھتی بلکہ جلتی رہتی ہے اور بھرے بازاروں ،شاپنگ سنٹرز،میدانوں،پارکس،کالج،یونیورسٹیز وغیرہ میں اس ڈھٹائی سے رمضان میں کھا کر سڑتے رہے کہ باقی اسلامی مہینوں کو بھی شاید شرم سے پسینہ آ گیا ہو کہ یہ ہماری دفعہ تو اتنا سر عام کھاتے نہیں اب کیوں کھا رہے ہیں حالانکہ اس ماہ میں تو شیطان بھی بند ہوتا ہے لیکن جناب اور جنا بہ جی یہ اکیسویں صدی ہے اور شیطان کے جدید ورژن اتنے اعلی قسم کے ہیں کہ یہ رمضان میں ” مومن“ مسلمانوں سے علحیدہ نہیں ہوتے اور نہ بعض مسلمان ان سے اپنی روایتی ”جھپی“ ختم نہیں کرنا چاہتے تو بند کہاں ہوں گے……… دروغ بہ گردن شیطان