عثمان حسن زئی
uhasanzai@yahoo.com
حکومت ریفارمڈجی ایس ٹی بل اور مالیاتی ترمیمی بل 2010ءقائمہ کمیٹی خزانہ کی سفارشات سینیٹ سے منظور کرانے میں کامیاب ہو گئی۔ مسلم لیگ ق نے واک آﺅٹ اور اے این پی نے ”خاموش مفاہمت“ کے ذریعے حکمرانوں کا کام آسان تر بنا دیا۔ حالانکہ ایم کیو ایم اور جے یوآئی کی مخالفت کی بنا پر حکومت سادہ اکثریت سے بھی محروم تھی۔
اس سارے قضیے میں اپوزیشن اور بعض اتحادی جماعتوں کا رویہ انتہائی حیران کن اور ناقابل فہم نظر آتا ہے۔ بظاہران بلوں پرواویلا مچا کر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کرنے والی سیاسی جماعتوں نے حکمران اتحاد کا ساتھ دیا یا یوں کہہ لیجئے کہ ہرپارٹی نئے ٹیکسوں کی منظوری کو ”سنہری موقع“ سمجھ کر مفادات بٹورنے میں مصروف رہی۔اگر یہ جماعتیں واقعتاًعوام سے مخلص ہوتیں تو نئے ٹیکسوں کے بلوں کی منظوری میں ہرگز حکومت کا ساتھ نہ دیتیں۔ اب یہ سفارشات قومی اسمبلی کو بھجوا دی گئی ہیں اور توقع کی جارہی ہے کہ یہاں بھی حکومت کو یہ بل منظور کرانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔
ریفارمڈ جنرل سیلز ٹیکس کی منظوری سے یہ ہوگا کہ جب کوئی صنعت کار یا تاجر جنرل سیلز ٹیکس دے گا تو اسے حکومت کو بتانا ہو گا کہ اس نے اپنی مصنوعات کس خام مال سے بنائی یاکس سے خریدیں۔ اس طرح پوری صنعتی یا کاروباری کڑی میں اگر ایک بھی جگہ سے جی ایس ٹی دینے والا رجسٹرہوگیا تواس سے جڑی تمام دیگر کڑیوں تک حکومت کی رسائی ممکن ہو جائے گی۔ اس ٹیکس کے نافذ ہونے سے بعض مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا جیسے کہ کپڑے کی مصنوعات۔ حکومت نے کھانے پینے، جان بچانے والی ادویات اور اس طرح کی باقی ہر قسم کی مصنوعات کو جی ایس ٹی میں حاصل استثنیٰ کو بھی ختم کرنے کے اس نئے قانون کا حصہ بنا دیا ہے۔ جس کے نتیجے میں مہنگائی کا ایسا سیلاب آجائے گا جو اترنے کا نام نہیں لے گا۔
وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات قمرزمان کائرہ کا کہنا ہے کہ سیلاب زدگان کے لیے 160ارب روپے درکار ہیں۔ جبکہ موجودہ 15فیصد شرح سے اصلاح شدہ جی ایس ٹی نافذ ہو جانے سے حکومت کو زیادہ سے زیادہ 70ارب روپے کی آمدن ہو گی۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ گزشتہ 15سالوں کے دوران عوام پر ٹیکسوں میں 30فیصد اضافہ ہوا جبکہ اسی عرصے میں طبقہ امرا پر عائد ٹیکسوں میں 20فیصد کمی ہوئی۔
اسٹیٹ بینک نے بتایا ہے کہ خود حکومت یومیہ ڈیڑھ ارب روپے قرضہ لے رہی ہے۔ اتنی بھاری رقم حکومت کس مد میں خرچ کررہی ہے؟ پھر بھی اگر حکومت نے آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں اور بیرونی امداد کے حصول کے لیے عوام کے گلے پر چھری پھیرنے کا فیصلہ کرچکی ہے تو کیا اس سے یہ بہتر نہیں کہ حکومت اپنے اداروں کی زبوں حالی پر توجہ دیتے ہوئے ان میں بڑھتی ہوئی کرپشن کے آگے بند باندھنے کے لیے اقدامات کرے۔ اس وقت ہمارے ملک میں ساڑھے سات سو ارب روپے کرپشن کی نذر ہورہے ہیں ۔نیشنل ہائی وے اتھارٹی میں 32ارب روپے کا کوئی ریکارڈ ہی نہیں ہے۔ آپ پی آئی اے کا بڑھتاہوا خسارہ بھی ملاحظہ فرمائیں‘ اس ادارے کو گزشتہ 2برسوں کے دوران 41ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا۔ پی آئی اے کے ذمہ اس وقت ایک کھرب11ارب روپے کے قرضے ہیں جبکہ قومی ادارے کے کل اثاثہ جات صرف 16ارب روپے کے ہیں۔ اسحاق ڈار کے بقول ایف بی آر میں 400ارب روپے کرپشن کی نذر ہورہے ہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں ہمارے اراکین پارلیمنٹ کی دولت اور اثاثہ جات میں 40فیصد اضافہ ہوا۔
جہازی سائز کابینہ اور غیر ملکی دوروں پر شاہانہ اخراجات اس سے الگ ہیں۔ اگر حکومت اپنے اداروں میںکرپشن کے ناسور کو روکنے کے لیے اقدام کرے تو یقین جانیے! ہمیں نئے ٹیکسوں کے نفاذ کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔
وزیر خزانہ کہتے ہیں کہ امیروں کو ٹیکس ادا کرنا چاہیے جبکہ موصوف قوم سے خود کس حد تک مخلص ہیں اس کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایاجاسکتا ہے کہ انہوں نے خود 8ہزار روپے سالانہ ٹیکس ادا کیا۔ کیا یہ اس قوم کے ساتھ مذاق کے مترادف نہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ عوام ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں اور وہ ٹیکس دینے سے بھی نہیں گھبراتے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ قوم کے ٹیکسوں کی آمدنی تعیشات پر خرچ ہورہی ہے۔ آپ برطانیہ کی مثال لے لیں جب وہاں عوامی نمایندوں کو اندازہ ہوا کہ ہمارے اخراجات بڑھ رہے ہیں اور آمدن کم ہورہی ہے تو انہوں نے اپنے اخراجات میں 20فیصد کمی کی۔ لیکن ہمارے حکمرانوں، سیاستدانوں سے اس قسم کی کوئی توقع رکھنا ہی فضول ہے۔
ناکام حکومتی پالیسیوں اور عوام دشمن اقدامات کی وجہ سے عام آدمی پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پستاچلا جارہا ہے۔ ابھی یہ ٹیکس نافذ نہیں ہوا ہے پیٹرولیم مصنوعات، بجلی اور چینی کی قیمتوں میں اضافے کے بعد حکومت نے یوٹیلٹی اسٹورز پر بھی 100سے زائداشیاءکی قیمتوں میں اضافہ کیا۔ ریفارمڈ جی ایس ٹی اور فلڈ ٹیکس کے نفاذ سے مہنگائی میں کم از کم 20فیصد اضافے کی صورت عوام پر ایک اور مہنگائی بم گرانے کی تیاریاں قوم کے لیے انتہائی مایوس کن ہیں۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ جنرل سیلز ٹیکس کی ادائےگی کی جانچ پڑتال کے لیے جو آفیسر مقرر کیے گئے ہیں انہیں لامحدود اختیارات حاصل ہوں گے اور وہ کسی بھی کمپنی پر نہ صرف بھاری جرمانے عائد کرسکیں گے بلکہ انہیں سزا دینے کا اختیار بھی حاصل ہوگا۔ اس پر مستزاد یہ کہ ان کے فیصلے کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیے جاسکیں گے۔
حکومت نے حال ہی میں بجلی، آٹے اور دیگر اشیاءپر سبسڈی کو بھی ختم کردیا ہے۔ کیا سبسڈی کے اس خاتمے سے بچنے والی رقم سیلاب متاثرین پر خرچ نہیں کی جاسکتی۔ ابھی حال ہی میں عالمی برادری سے ملنے والی امداد کہاں گئی؟ اور اس بات کی بھی کیا گارنٹی ہے کہ جنرل سیلز ٹیکس میں اصلاحات سے جو 70ارب کے اضافی محصولات حاصل ہوں گے وہ سیلاب زدگان پر ہی خرچ کیے جائیں گے؟ انہیں کرپشن کی نذر ہونے سے بچانے کے لیے بھی کوئی لائحہ عمل وضع کیاگیا ہے یا نہیں۔ کیاحکمران کابینہ اپنے شاہانہ اخراجات میں کمی نہیں کرسکتے لیکن ہمارے حکمرانوں سمیت اکثر سیاستدان ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں مصروف ہیں۔