عثمان حسن زئی
اس وقت وطن عزیز میں ایک مخصوص گروہ غیر ملکی آشیر باد سے ،برادر اسلامی ملک سعودی عرب کے خلاف بھر پور پروپیگنڈا مہم چلارہا ہے۔ کراچی، لاہور اور راولپنڈی سمیت بڑے بڑے شہروں میں ایک ہی طرز کے بینر، اشتہارات اورپوسٹرنمایاں مقامات پر آویزاں کردیے گئے ہیںجو سعودی عرب کے خلاف انتہائی توہین آمیز مواد پر مشتمل ہیں۔ بعض بینروں اور تقسیم کیے جانے والے ہینڈبلوں پر لکھا ہے ”آل سعود آل یہود“ جس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ سعودی عرب نہ صرف پاکستان بلکہ مسلمانوں کا ایک بہت بڑا دشمن ملک ہے اور اس کے حکمران یہودیوں کے ایجنٹ ہیں۔
اس شر انگیز مہم چلانے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ سعودی حکومت نے بحرین میں ”عوامی بغاوت“ کو کنٹرول کرنے کی خاطر بحرین کی دعوت پر اپنی فوج روانہ کی جس نے احتجاجی تحریک کو کچلنے میں بحرین کی مدد کی۔ اس ”جرم“ کی پاداش میں سعودی عرب کے حکمران خاندان کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ بحرین کی آڑ میں چلائی
سعودی عرب نے ہر مشکل گھڑی، مصیبت اور آڑے وقت میں پاکستان اور عوام کا ساتھ دیا ہے۔ سیلاب ہو یا زلزلہ سعودی حکمران ہمارے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہیں۔ گویا سعودیہ پاکستان کا محسن ملک ہے اس کے خلاف شر پسند عناصر کی مخالفانہ مہم پر دینی طبقے کے علاوہ حکومت سمیت پاکستان کی اکثر سیاسی جماعتوں نے یوں چپ سادھ رکھی ہے جیسے انہیں کچھ معلوم ہی نہ ہو یا وہ اس معاملے کو غیر اہم سمجھ کر نظر انداز کررہے ہیں۔ جس سے ان جماعتوں کے متعلق شکوک و شبہات میں اضافہ ہورہا ہے۔ بالخصوص پاکستان مسلم لیگ نواز کی قیادت کی مجرمانہ اور پر اسرار خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے۔ سعودی عرب کے میاں برادران پر کافی احسانات ہیں۔ سعودی حکمرا ن اس وقت میاں برادران کے لئے نجات دہندہ بنے جب پھانسی کا پھندا اورطویل قید ان کا مقدر بنتا نظر آرہا تھا ۔ انہوں نے ہی میاں نواز شریف کو قید تنہائی سے آزادی دلائی۔ اس کے باوجود میاں برادران نے سعودیہ کے خلاف پروپیگنڈا مہم کے خلاف لب کشائی کرنے کی زحمت تک گوارا نہیں کی۔ جسے بجا طور پر افسوس ناک قرار دیا جاسکتا ہے۔
پاکستان کے محسن، برادر اسلامی ملک کے خلاف چلائی جانے والی مہم پر حکمرانوں نے بھی اپنے لب سی لیے ہیں اور وہ شرپسندوں کے خلاف کارروائی کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا سعودیہ کے خلاف نفرت پر مبنی شر اور فساد پھیلانے والا مواد جوں ہی منظر عام پر آیا حکمران اس کو روکنے کے لیے اقدام کرتے۔ مگر ہمارے حکمران اپنی دنیا میں یوں مگن ہیں جیسے وہ اپنے گردوپیش پیش آنے والے معاملات سے ہی لاعلم ہیں۔ اگر اب بھی دینی طبقے کے احتجاج کو نظر انداز کیا گیاتو اس سے بے چینی مزید بڑھے گی اور اس کے نتیجے میں ٹکراﺅ پیدا ہونے کے خدشات مزید بڑھ جائیں گے۔ لہٰذا پاکستان کی تمام سیاسی، دینی و مذہبی جماعتوں سے درخواست ہے کہ وہ اس معاملے پر اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس بھڑکتی ہوئی آگ کو مزید پھیلنے سے روکنے کے اقدام کریں بصورت دیگر حالات کنٹرول سے باہر ہوجائیں گے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس معاملے سے نبٹنا مشکل تر ہوجائے گا۔