ممتاز امیر رانجھا
اسلم اپنے والدین کا بڑا بیٹا تھااس لئے والدین نے اس کو شہر کے بہترین سکول میں تربیت دلائی۔اس کو ہمیشہ اچھے کپڑے اور جوتے خرید کر دیئے۔اس کا والد نوید دفتر میں معمولی ملازم تھا لیکن دفتر سے چھٹی کے بعد وہ رات گئے تک ایک سکول کی سیکنڈ شفٹ میں بطور گارڈ ڈیوٹی دیتا رہتا اورگھر چلانے کے لئے رات تک اس پارٹ ٹائم ملازمت کو اپنے آرام سے زیادہ ترجیح دیتا۔جب اسلم نے ایف اے پاس کر لیا تو اس کے والد نے اسے شہر کے بڑے کالج میں داخل کروانا چاہا لیکن اسلم نے اپنے بوڑھے والد اور چھوٹے بہن بھائیوں کی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے خود کو مزید نہ پڑھنے پر قائل کر لیا۔دو تین ماہ کے ٹیسٹ انٹریو دینے کے بعد اسے ایک پاسپورٹ آفس میں بطور کلرک جاب مل گئی۔اس کے اکلوتے چھوٹے بھائی اور دوچھوٹی بہنوں کی خوشی اس وقت قابل دید تھی جب وہ پہلی تنخواہ لیکر گھر میں داخل ہوا۔اس کے والدین نے سجدہ شکر ادا کیا ۔اسلم نے اپنے بوڑھے والدکو شام کی جاب چھوڑ دینے پر بمشکل راضی کر لیا۔
اسلم نے اپنی ملازمت کے ساتھ ساتھ پرائیوٹ تعلیم جاری رکھی اور بی اے کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کر لیا۔اس وجہ سے اس کے دفتر میں اس کو ”پروموشن“مل گئی۔تین چار سالوں میں اس کی والدہ نے اپنے خاوند نوید اور بیٹے اسلم کی تنخواہ سے اپنی دو بیٹیوں کا جہیز تیار کر کے ان کو بیاہ ایک اچھے خاندان میں کر دیا۔اسلم کا چھوٹا بھائی بھی اب اپنے شہر کے کالج میں انٹرمیڈیٹ کا طالبعلم تھا۔اسلم کے والدین کے دل میں دو بڑی خواہشات باقی تھیں۔ایک شہر میں اپنا گھر او ر دوسر ایہ کہ ان کی زندگی میں ان کے دونوں بچوں کی شادی ہو جائے۔اسلم کے والد نے ریٹائرمنٹ پر ملنے والی رقم لاکر اپنی بیوی کو دی اور اسے کہا کہ” اب تم اپنی کوئی بھی خواہش پوری کرسکتی ہو“۔اسلم کی والدہ نے اسلم کو بیٹوں کے لئے ایک گھر خریدنے کا مشورہ دیا۔یوں انہوں نے شہر کے ایک معمولی سے علاقے میںپنشن والی اس رقم سے سات مرلے کا بنا بنایا گھر خرید لیا۔اس گھر میں شفٹ ہونے کے بعد اسلم کے والدین نے اسلم اپنے خاندان کی کسی لڑکی کو پسند کرنے کی اجازت دی لیکن اسلم نے دبے لفظوں میں کہا کہ ”امی میں اس لڑکی سے شادی کروں گا جو مجھے پسند ہو گی اور میں خاندان میں بالکل شادی نہیں کروں گا کیونکہ ہمارے سارے رشتہ دار”پینڈو“ ہیں“۔
اسلم کو شادی کا اشارہ تو مل چکا تھا ،اب وہ پاسپورٹ آفس میں آنیوالی خواتین میں تھوڑی تھوڑی دلچسپی دکھاتا، پھر کیا ایک دن ایک ٹو ڈی کار میں ایسی لڑکی آئی کہ جس کو اس نہ اپنا ”آئیڈیل“ مان لیا۔نوشین نامی یہ لڑکی اپنا پاسپورٹ بنوانے آئی تھی۔اس نے پہلی ملاقات میں ہی نوشین کو خوب خاطر مدارت کی اور اسے پری پیڈ سروسز
لائیں۔اسلم خود بھی خوبصورت اور پر اخلاق نوجوان تھا۔دوسری ملاقات میں نے اسلم نے نوشین کو طریقے سے ”پروپوز“ کر دیا۔نوشین نے اسے کہا کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ جا کے مشورہ کرے گی۔
نوشین کا تعلق ایک ایسی ”بولڈ“ فیملی سے تھا جہاں لڑکیاں اپنے لئے خود رشتے تلاش کر کے اپنے والدین کو ڈائننگ ٹیبل پر بتا دیا کرتی ہیں۔اس نے رات کو کھانے پر اپنے خاندان کے سامنے اسلم کا ”چیٹر“ کھول دیا۔نوشین بھی اپنے والدین کی آخری بیٹی تھی جو کنواری تھی۔اس کے باقی بھائی، بہنیں انگلینڈ جاب کرتے تھے اور رہائش پذیر تھے۔ نوشین کے والدین صر ف پاکستان میں نوشین کی وجہ سے رہائش پذیر تھے۔اب اس کی تعلیم مکمل ہونے پر نوشین کے والدین اس کا پاسپورٹ بنوا کر اسے بھی انگلینڈ شفٹ کرنا چاہتے تھے۔نوشین کے والدین نے اسلم کے ساتھ اس کی شادی کا فیصلہ اس پر چھوڑ دیا۔اسلم کو نوشین نے گرین سگنل دے دیا۔اسلم نے اپنے والدہ کو نوشین کے بارے میں بتایاتو اسلم کے والد نوید نے اس شادی پر اعتراض کیا اور کہا کہ ”نوشین ایک امیر خاندان کی لاڈلی لڑکی ہے ،اسلم ساری زندگی اس کے لاڈ کیسے پورے کرے گا“۔بالآخر نوید نے اپنے بیٹے کی خوشی پر اپنے تمام اعتراضات ختم کر دیئے۔
شادی کے بعد نوشین کو اتنا جہیز ملا کہ اسلم کو سات مرلے کا گھر اس کے لئے تھوڑا لگ رہا تھا۔اسلم کو سسر نے ”ٹو ڈی“ کار بھی گفٹ کی۔نوید نے نئی نویلی دلہن کے گھر آنے سے پہلے خود کو اور اسلم کے چھوٹے بھائی کو اوپر والی منزل کے ایک سادہ سے کمرے میں شفٹ کر لیا۔نوشین کے آنے کے بعد اسلم کے چھوٹے بھائی نے بھی ایک جاب شروع کردی اوراس نے والدین کی خدمت کا ”ذمہ“ اٹھا لیامگر اسلم کی ساری توجہ اپنی محبوبہ”نوشین“ کی خوشیوں پر ہوگئی۔ نوشین اکثر اسلم کے ساتھ کار میں بیٹھ کر ہوٹل میں کھانا کھانے کی فرمائش کرتی اور مجبوراً نوشین کی خواہش پوری کرنے کے لئے اسلم کو قربانی کا بکرابننا پڑتا۔اسلم اپنے دفتر کا سینئر کلرک تھا لیکن رشوت لینا اس کا ضمیر گوارہ نہیں کرتا تھا۔وہ دوستوں سے ادھا لے لیتا لیکن نوشین کو ناراض نہیں کرتا تھا۔
گاڑی کا پٹرول گیس پوری کرنے کے لئے یا نوشین کے ساتھ مہنگے ہوٹل میں کھانا کھانے کے لئے اسے کئی بار ادھار لینا پڑتا۔اس کے دو خوبصورت بیٹے ہوئے اور جب وہ سکول جانے کے قابل ہوئے تو نوشین کی فرمائش پر اس نے انہیں شہر کے مہنگے ترین سکولز میں داخل کروادیا۔نوشین اسے ہمیشہ لعن طعن کرتی رہتی اور کبھی بھی اس کی غربت کے لیول پر آکر کفایت شعاری والی زندگی کو ترجیح نہ دی۔ اسلم کا چھوٹا بھائی چوری چھپے اس کی مالی امداد کرتا رہتا۔اس کا والد گھر کے قریب والی مسجد میں قرض لینے والوں کے ڈر سے نماز پڑھنا چھوڑ گیا۔نتیجہ یہ ہوا کہ اسلم نے دو تین بینکس کے کریڈٹ کارڈز بنوا لئے اور سارے بینکس کا مقروض ہو گیا۔اس کے دوست یار اور جاننے والے محلے دارقرض لینے کے لئے اس کے آگے پیچھے پھرتے رہتے ،وہ سب کو تاریخوں پہ تاریخیں ڈالتا رہتا۔
ایک دن جب اس کے پاس اپنے بچوں کو سکول دینے کئے فیس نہیں تھی تواس کی بیگم نوشین اس سے لڑائیکرکے میکے چلی گئی ۔گھر جا کے طلاق نامہ لینے کا نوٹس بھجوادیا۔پھر نوبت یہ آئی کہ ایک دن وہ کسی کو بتائے بغیررات کو خواب آور گولیا ں کھا کر ”خود کشی“ جیسا منحوس اور حرام اقدام کر بیٹھا۔اسلم کا والد نوید اور والدہ اس کی اچانک خودکشی پر اپنی دل کی دھڑکنوں کی روانی کھو بیٹھے اوراسلم کے چھوٹے بھائی اور بہنوں کو اپنے سات مرلہ گھر سے تین لاشیںاٹھانا پڑیں۔
جو لوگ دوسروں کومایوس کرتے ہیں وہ واقعی قابلِ نفرت ہوتے ہیں اور جو لوگ مایوس ہوتے ہیں وہ واقعی قابل توجہ ہوتے ہیں۔بحثیت ایک مسلمان معاشرے کے ہم سب پر فرض ہے کہ ہم سارے کسی بھی مایوس یا ضرورت مند شخص کی نہ صر ف مالی مدد کو پہنچ جائیں بلکہ اس کی جہاں تک ہو سکے اخلاقی مدد کریں اور اس پریشان حال شخص کو اس کے مشکل حالات پر قابو پانے اور اس مشکل سے نجات کا پرُ امید اور عمدہ طریقہ بتائیں۔جو افراد کسی بھی غیر فطری رویے یا حالات کی وجہ سے مایوسی کے دلدل میں جاتے ہیںاس کے ذمہ داربعض دفعہ ان کے قریبی افراد یا لوگ ہوتے ہیں جو انہیں مسلسل ذہنی تناﺅ میں رکھ کر خود کو کامیاب سمجھتے ہیں اور ان کا نہ صرف مذاق اڑاتے ہیں بلکہ ان کی بے حسی کو انجوائے کرتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں بعض لوگ اپنی غربت یا نادانی کی وجہ سے قرض کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں یا بعض اپنے نجی معاملات مثلاً اذدواجی زندگی میں مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں اور پھر شدید مایوسی ان کو مقدر بن جاتی ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ روپیہ پیسہ انسان کی زندگی سے ہر گز بالاتر نہیں لیکن جب کسی بھی معاشرے میں ”سٹیٹس سمبل“ صرف ”لگزری لائف“ یا ”دولت کی ریل پیل“ ہو جائے تو وہاں رشتوں کی قدر نہ صرف ختم ہو جاتی ہے بلکہ وہاں رشتہ داری محض ”فارمیلٹی“ ہی رہ جاتی ہے۔ہم سارے اگر ایک دوسرے کے مسائل اور وسائل کو سمجھ جائیں تو یقین کریں ہر گھر میں خوشیوں کی ریل پیل ہو ۔دولت تو آنی جانی شے ہے آج اگر کسی کے پاس ہے تو ہو سکتا ہے کل نہ ہو۔اگر کل پرویز مشرف پاکستان پر قابض تھا توآج جلاوطن ہے۔اگر آج این آر او زدہ صدر زرداری ہے تو کل اسے بھی عوام بننا ہے۔ہم سب انسان ہیں ،عوام ہوں یا خواص سب کو دوسروں کو خیال رکھنا چاہئے۔کوئی کوٹھی میں رہتا ہو یا سات مرلہ گھر میں دائمی خوشیوں کے لئے بحیثت انسان نہ تو اپنی اوقات سے بڑی خواہش کرنی چاہیئے کہ جس طرح اسلم نے نوشین جیسی امیر لڑکی کو اپنی دلہن بنا کر اپنے لئے موت خرید لی اور نہ ہی والدین کو نوشین کی طرح اپنی لاڈلی بیٹیوں کو کفایت شعاری اور انکساری کی بجائے دولت کھانے کی تربیت دینی چاہیئے۔خود سوچیں اسلم کی وفات اور اسلم سے علیحدگی کے بعد اب نوشین جیسی ایک کنال کوٹھی میں پلی بڑھی امیر خاتون کیا ساری عمر اپنے دو بچوں کو اپنے سابقہ شوہر کے بغیر خوش رکھ سکے گی ؟یا خود کو اپنی خاندانی دولت کے بل بوتے پر کبھی خوش رکھ سکے گی نہیں ،ہر گز نہیں۔اس کی خوشیاں سات مرلہ کے گھر میں تھیں جو کہ نوشین اپنی غلط تربیت اور ناشکرانہ طبیعت کی وجہ سے ڈھونڈ نہیں پائی۔