تحریر : محمداسلم لودھی
ریلوے کو اگر پاکستان کی لائف لائن قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا لیکن بدانتظامی چور بازار ی لیٹروں کی لوٹ مار اور افسران کی نااہلی کی وجہ سے یہ اہم ترین ادارہ اپنے اختتام کے بالکل قریب پہنچ چکا ہے ۔کہا جاتا ہے کہ ریلوے میں خسارے کا آغاز 1985 سے شروع ہوا ۔مشرف دور میں خسارے کو پورا کرنے کے لیے ریلوے اراضی کو فروخت تو کردیا گیالیکن حاصل ہونے والی رقم خسارے کو ختم کرنے کی بجائے افسران اور یلوے وزیر کے بنک اکاﺅنٹس میں جمع ہوگئی۔ ریلوے میں خسارے کی جب بھی بات ہوتی تو قاضی جاوید اشرف کا نام اس لیے لیا جاتا ہے کہ اسی دورمیں کروڑوں روپے کمیشن لینے کے لیے چین سے ریلوے انجنوں اور کوچز کی خرید کا سودا طے پایا تھا۔ یہ چینی انجن بمشکل وارنٹی کی مدت ہی پوری کرپائے اور اب خراب حالت میں کھڑے ہیں۔سرمائے کی عدم فراہمی کی بناپر چینی کمپنی ان انجنوں کی مرمت کرنے سے انکار کررہی ہے ۔دوسری جانب جب اب یہ کہاجارہا ہے کہ چینی کوچز بھی استعمال کے قابل نہیں رہیں ۔ کرپشن میں ملوث اس سابق وزیر پر کوئی ہاتھ ڈالنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔دوسری جانب ایک ہزار سے زائد ریلوے اسٹیشنوں کی عمارتیں اور ریلوے کالونیاں (جہاں ماتحت ریلوے ملازمین مع اہل خانہ زندگی کی بنیادی سہولتوں سے بے بہرہ صرف ملازمت کی خاطر رہائش پذیر ہوتے ہیں ) آثار قدیمہ کا منظر پیش کررہی ہیں اور غریب ملازمین انتہائی بے سرو سامانی کے عالم میں پلیٹ فارموں پر سردی اور گرمی سے بے نیاز بیوی بچوں سمیت رہنے پر مجبور ہیں یا انہیں کرایے پر مکان لینا پڑتا ہے۔جس سے ملازمین ذہنی اذیتوں اور مالی پریشانیوں کا شکار ہوکر خود کشی جیسے انتہائی اقدام اٹھانے پر مجبور ہوتے جارہے ہیں۔ اسی طرح 11843 ریلوے پل اپنی معیاد پوری کرچکے ہیں اور کسی بھی وقت بڑے حادثات کا شکار ہوسکتے ہیںجبکہ پھاٹک والا نہ ہونے کی بنا پر 841 ریلوے کراسنگ موت کا درواز ہ بن چکے ہیں ۔ریلوے کے پاس انجنوں کی مجموعی تعداد 540ہے صرف 160 انجن استعمال ہورہے ہیں ۔ جبکہ مسافرٹرینوں کی مجموعی تعداد 260 تھی جن میں سے 102 مسافر ٹرینیں 90 فیصد مال بردار گاڑی بند ہوچکی ہیں کبھی وہ وقت بھی تھا کہ ریلوے گوداموں میں شہر آباد ہوا کرتا تھالیکن اب تمام چھوٹے بڑے اسٹیشنوں کے گودام بھی دیگر املاک کی طرح کھنڈر کا ڈھیر بن چکے ہیں ۔ اس وقت پاکستان میں جاپان چین برازیل اور امریکہ کے انجن موجود ہیں جن کی نہ تو ٹیکنالوجی پاکستان کے پاس ہے اور نہ ہی مختلف نوعیت کے انجنوں کی مرمت کے لیے پرزوں کامناسب انتظام ہے اس کے برعکس بھارت میں صرف امریکی انجن چل رہے ہیں خریدار ی کے وقت جن کی ٹیکنالوجی بھی حاصل کرلی گئی تھی یہی وجہ ہے کہ آج بھی بھارتی ریلوے منافع میں چل رہی ہے بلکہ ریلوے تنصیبات میں حد درجہ اضافہ کرکے مسافروںاور بزنس کیمونٹی کا بھرپور اعتماد حاصل کرچکی ہے ۔ پاکستان میں کوئی بھی دور ہو نہ ریلوے افسر محکمے پر رحم کھاتے ہیں اور نہ ہی ریلوے وزیر من پسند لوگوں کو بھاری معاوضوں پر ملازم رکھنے سے باز آتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ریلوے ہیڈ کوارٹر اور میو گارڈن تو ہمیشہ کی طرح آباد و شاداب نظر آتے ہےں لیکن پاکستان کے تمام ریلوے اسٹیشن کوارٹرز مسافر خانے پلیٹ فارم اور دیگر املاک ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں ۔اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہو گی کہ 30 ار ب مالیت سے 1971 میں لاہور سے خانیوال تک بجلی سے ٹرین چلانے کا آغاز ہوا تھا اس مقصد کے لیے برطانیہ سے 29الیکٹرک انجن بھی خریدے گئے تھے ہونا تو یہ چاہیے تھاکہ اس نظام کو رفتہ رفتہ پورے ملک تک توسیع دے دی جاتی لیکن اب الیکٹرک انجنوں سمیت بجلی کی دیگر تمام تنصیبات کو بے کار قرار دے کر نیلام کرنے کا فیصلہ کرلیاگیاہے ریلوے افسران کی ملی بھگت سے پتوکی سے چھانگامانگا تک بجلی کی تاریں اور کھمبے چوری بھی ہوچکے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ آزاد ی کے وقت پاکستان کے حصے میں 10 ہزار کلومیٹر ریلوے ٹریک آیا تھا 25 فیصد کم ہوکر اب اس کی لمبائی 8 ہزار رہ چکی ہے صرف 30 فیصد ٹریک استعمال ہورہاہے جبکہ 70 فیصد ٹریک اور ریلوے املاک چوروں لیٹروںکے رحم و کرم پر ہے ۔یہی عالم انجنوں ¾ بوگیوں ¾ مال گاڑیوں کے ڈبوں کا ہے ۔جن برانچ لائنوں پر ٹرینیں بند ہوچکی ہیں وہاں کے ہزاروں ملازمین پہلے ہی بے روزگار اور بے گھر ہوچکے ہیں مین لائن پر بھی ملازمین کی تعداد انتہائی کم ہے جہاں انتہائی کم تنخواہ میں بطور خاص کانٹے والے کیبن مین اور پھاٹک والے کو بارہ بارہ گھنٹے ڈیوٹی انجام دینی پڑتی ہے جو سخت زیادتی کے مترادف ہے ۔ شنید یہ ہے کہ مزید ٹرینیں بند کرکے 30 فیصد ملازمین اور نکالنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے جس کا سدباب بہت ضروری ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہر افسر اور ملازم ریلوے کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو زیادہ سے زیادہ لوٹ لینا چاہتا ہے ۔ریلوے میں چوری ڈاکہ زنی ہیرا پھیری اور کرپشن ایک عام سی بات ہے ان حالات میں ریلوے کو کیسے بچایا جاسکتا ہے حکومت چاہے 50 ارب کی امداد بھی دے دے جب تک کرپشن کی روک تھا م اور ان سوراخوں کو بندنہیں کردیا جاتاجہاں سے وسائل ضائع ہورہے ہیں ریلوے نظام کی بحالی کی کوئی امیدنہیں کی جاسکتی اور اگر ریلوے کامحکمہ ختم ہوگیا تو یہ پاکستان پاکستانی عوام اور لاکھوں ریلوے ملازمین کے ساتھ سراسر زیادتی ہوگی جس کے اثرات پورے ملک میں محسوس کئے جائیں گے ۔