تصوف سرچشمہ علوم نبوت کی ایک شاخ
تحریر :۔ محمد احمد ترازی
مشکوٰة،کتاب العلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت بیان ہوتی ہے کہ ” میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے علم کے دو برتن حفاظت میں لیے،ایک کو لوگوں میں پھیلا دیا اور دوسرا اگر پھیلاؤں تو یہ گردن کاٹ دی جائے“ یہ حدیث مبارکہ بتاتی ہے کہ حضرت ابوہریرہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دو علوم سیکھے،ایک علم ِقال اور دوسرا علم ِحال،حضرت علی کرم اللہ وجہہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے علم کے ستر ابواب بتا رکھے ہیں اور میرے سوا یہ علم کسی اور کو نہیں بتایا۔“ (کتاب اللمع، ص،54)ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی سے پوچھا”اے حارث! صبح کیسے کی؟ حارث نے جواب دیا، اے اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) میں نے اللہ پر سچے ایمان کی حالت میں صبح کی۔“ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”دیکھ تو کیا کہہ رہا ہے؟اے
سیّدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے بارے میں اُن کی اہلیہ سے منقول ہے کہ”ابوبکر رضی اللہ عنہ کو لوگوں پر فضیلت نماز اور روزہ کی کثرت کی وجہ سے نہ تھی،بلکہ دل کے یقین( معرفت) کی وجہ سے تھی۔“ اسی یقین ومعرفت کا نام علم حال( تصوف) ہے، جو کتابوں کے پڑھنے سے حاصل نہیں ہوتا،بلکہ خواہشات نفسانی کے ترک کرنے سے حاصل ہوتا ہے،حضرت حسن بصری فرمایا کرتے تھے” ہم نے تصوف کا علم قیل وقال کے ذریعے سے حاصل نہیں کیا،بلکہ دنیا اور اُس کی لذتوں کے ترک کرنے سے حاصل کیا ہے۔“حضرت مجدد الف ثانی اپنے ایک مکتوب میں ملا حاجی محمد لاہوری کو تحریرکرتے ہیں” شریعت کے تین حصے ہیں،علم،عمل، اخلاص،جب تک یہ تینوں اجزاء متحقق نہ ہوں شریعت متحقق نہیں ہوتی،جب شریعت متحقق ہو جاتی ہے تو حق تعالیٰ کی رضا حاصل ہو جاتی ہے،جو کہ تمام دنیاوی اور اُخروی سعادتوں سے بالاتر ہے،طریقت وحقیقت جس سے کہ صوفیاء ممتاز ہوئے ہیں، دونوں شریعت کے تیسرے حصے( یعنی اخلاص )کی تکمیل میں شریعت کے خادم ہیں،پس اُن کی تحصیل صرف شریعت کی تکمیل کیلئے کی جاتی ہے،احوال ومواجید اور علوم ومعارف جو اثنائے راہ میں حاصل ہوتی ہیں وہ مقاصد میں سے نہیں،اِن سب سے گزر کر مقام رضا تک پہنچنا چاہیے،جو کہ سلوک کا آخری مقام ہے،اِس لیے طریقت وحقیقت کی منزلوں کو طے کرنے کا مقصد تحصیل ِاخلاص( احسان) کے سوا کچھ نہیں ہے۔“( جلد اوّل،مکتوب سہ وششم
حقیقت یہ ہے کہ علم قال اور علم حال کی ندیاں سرچشمہ علوم نبوت ہی سے نکلی ہیں،شیخ ابوطالب مکی قوت القلوب میں لکھتے ہیں”دونوں علوم اصلی ہیں،جو ایک دوسرے سے مستغنی نہیں ہیں،بمنزلہ اسلام اور ایمان کے،ہر ایک دوسرے کے ساتھ بندھا ہوا ہے،جیسے جسم اور قلب کہ اُن میں سے ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتا،صوفیاءکے نزدیک تصوف،اپنے نفس کو ریاضت و مجاہدہ کے ذریعہ اخلاق رذیلہ سے پھیرنے اور اخلاق حمیدہ یعنی زہد و علم صبر و اخلاص اور صدق و صفا جیسے خصائل حسنہ پر آمادہ کرنے کا نام ہے،جس سے دنیا و آخرت میں کامرانی نصیب ہو،تصوف کا لفظ ”صوف“ سے بناہے جس کے معنی اُون کے ہیں،اِس سے مراد یہ ہے کہ وہ درویش اور بندگان ِخدا جو دنیا کی لذتوں اور نعمتوں سے کنارہ کش ہو کر یادِ اللہ میں مصروف ہو جاتے ہیں،موٹا چھوٹا پہنتے ہیں اور جیسا بھی کھانے کو مل جائے اُس سے اپنا پیٹ بھرلیتے ہیں،اہل ِتصوف نے تصوف کی بنیاد جن ستونوں پر قائم کی ہے وہ صدق و صفا،اخلاص و محبت،احسان،عبادت،خشوع و خضوع،فقر،توکل،صبرو رضا اور شکر وغیرہ ہیں،اُنہوں نے تصوف کی بنیاد کےلئے اقوال رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سر چشمہ ہدایت بنایا ہے اور یہ بھی اَمر واقع ہے کہ آئمہ تصوف نے اپنے اعمال اور احوال و مقامات کے لیے سنت نبوی سے استناد و دلائل فراہم کرنے کی کامیاب کوشش فرمائی ہے ۔
لیکن دورِ حاضر میں تصوف کو ایک متنازعہ موضوع بناکر عوام اور خواص کے قلوب و اذہان کو پراگندہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے،جس میں جاویداحمد غامدی جیسے غیرمقلد معتبین پیش پیش ہیں،جوسادہ لوح عوام کو اپنی چرب زبانی سے ذہنی خلجان میں مبتلا کررہے ہیں،یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے خیال میں شریعت ِمطہرہ کو آلودگیوں سے پاک کرنے کی آڑ میں اُس شہ رگ کو کاٹ رہے ہیں جس پر مدار زندگی ہے،صاحبزادہ عمر بیربلوی لکھتے ہیں کہ”حیرت ہے اِن لوگوں پر کہ وہ مذہب کیلئے شور مچاتے ہیں اور اعمال مذہب کو پیش کرتے ہیں،لیکن روح مذہب کو مکمل کرنے کیلئے کچھ نہیں کرتے،بلکہ جو لوگ کچھ کررہے ہیں یعنی صوفیاء،اُن کو بھی بے کار جماعت ِاسلام خیال کرتے ہیں اور اُن کے اعمال مجاہدہ کو جو سراسرپختگی یقین کیلئے تجویز کیے گئے تھے،بیکار خیال کرتے ہوئے اُن سے عوام کو برگشتہ کیا جاتا ہے اور غیر مذہب خیال کیا جاتا ہے،نتیجہ وہی پیدا ہورہا ہے کہ ان ظاہری اعمال کے اندر کوئی ثمرہ ظاہری اور آخری پیدا نہیں ہوتا،بلکہ لوگ مذہب سے بیزار ہورہے ہیں۔“
آج پہلے ہی دنیا بے چینی اور بے سکونی کا شکار ہے،مادہ پرستی نے ذہنی سکون اور قلبی اطمینان لوٹ لیا ہے،لوگ طمانیت ِقلب اور حصول ِآسودگی کیلئے منصوعی سہارے تلاش کر کے اپنی دنیا و عاقبت برباد کررہے ہیں،چنانچہ اِن حالات میں ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ صوفیاء کرام کی تعلیمات کو عام کیا جائے اور اُس خانقاہی نظام کو بحال کیا جائے جو برصغیر پاک و ہندمیں اسلام کی ترویج و اشاعت کا باعث بناہے،ممتاز دینی اسکالر و ماہر علوم جدیدہ پروفیسر قاری مشتاق احمد نے ”تصوف روح ِ اسلام“ترتیب دے کر وقت کی اِس اہم ضرورت کو نہ صرف پور ا کیا ہے بلکہ اُن تشکیک زدہ ذہنوں کے شبہات کو بھی دور کیا ہے،جو صاحب علم و دانش کہلوانے کے باوجود تصوف پر خامہ فرسائی کرتے ہیں اور اسے اسلام کے اوامرونواحی سے بے نیازی کا راستہ قرار دیتے ہیں۔
کتابِ ھٰذا قرآن و سنت اور سلف صالحین کی تعلیمات سے اخذ کردہ دلائل اور تصوف کے اساسی مباحث پرمبنی ہے،جس کا مطالعہ قاری کو تصوف کے اصل حقائق سے روشناس کرانے کے ساتھ ساتھ اُس پر اِس حقیقت کو بھی واضح کرتاہے کہ آج کے مادی دور میں انسان کے قلبی سکون اور فلاح و نجات کا واحد راستہ یہی ہے کہ وہ شریعت ِمطہرہ پر چلتے ہوئے سلوک کی راہ اختیار کرے،یہ کتاب اُن اوامرونواحی کی بھی واضح نشاندہی کرتی ہے جن پر عمل کرکے ہم تصوف کی اصل روح سے آشنا ہوسکتے ہیں،یہ کہنا قطعاً غلط نہ ہوگا کہ تصوف کی امہاتِ کتب کی روشنی میں پروفیسر مشتاق احمد صاحب کی یہ کتاب دراصل تصوف کی اصل حقیقت،عناصر ترکیبی اور آج کے دور کی ضرورت کے حوالے سے ایک بہت ہی عمدہ کوشش ہے،جس پر صاحب مولف اورشیر ربانی اسلامک سینٹر،چوک شیر ربانی،21 ایکٹرسکیم نیا مزنگ سمن آباد،لاہور کے جملہ اراکین مبارکباد کے مستحق ہیں