تحریر: سّیدشکیل اَنور
ظُلم صِرف یہی نہیں ہے کہ کوئی اُچکّا یا ڈاکو کسی سے کوئی چیز چھین جھپٹ کر بھاگ جائے یاکوئی آدمی کسی کو مارے پیٹے یا اَپنے ہاتھ میں تلوار یا کوئی آتشی اِسلحہ لے کر اُٹھ کھڑا ہو اَور علاقے میں قتلِ عام شروع کردے۔ظلم یہ بھی ہے کہ کوئی شخص کسی کو ظلم کرتا ہُوا دیکھے اور خاموش رہے یا لاحول پڑھ کر وہاں سے نکل جائے۔اوّل الذکر ظالم دُوسروںپر ظلم کرنے کا مجرم کہلائے گا جبکہ خاموش تماشائی یا نگاہیں بچاکر نکل جانے والا اپنی ذات پر ظلم کرنے کا مرتکب ہوگا۔ کیونکہ ظالم کو اگر ڈھیل دے دی گئی تو وہ خودسر اور سفّاک ہوجائے گااور پھر ایک روز وہ سفّاک ’ جس کی لاٹھی اُس کی بھینس‘ کا قانون رائج کردے گا۔ وہ سربراہِ مملکت جو اَپنی حماقت اَور نا اَہلی کی وجہ سے اَپنی رعایا کونان ونفقہ سے محروم کردے ‘ اُس کی بے تدبیری کے سبب علاج ومعالجے کی سہولت عوام کی دسترس سے دُور ہوجائیں اَور آمدورفت پُر خطر ہوجائیں تو وہ حاکم بھی ظالموں میں شُمار ہوگا۔ایک وقت ایسا بھی گزرا ہے جب ایک ظالم حُکمران ایک ایسے مُلک پر مُسلط ہوگیا تھا جہاں کے رہنے والے غلط کاروں کو روکتے ٹوکتے نہ تھے۔عامی شامی کا کیا کہنا‘ مسجد اور عبادت گاہوں مےں آنے جانے والے فرعون سے مرعوب رہتے تھے اور مُوسیٰ کی حمایت پر آمادہ نہ ہوتے تھے۔کسی زمانے کا وہ ترقّی پزیر مُلک اُس نکمّے اور ظالم حُکمران کے ہاتھوں میں آکرپسماندہ ہوگیا۔وہ مُلک جو اَناج اَور غذا میں کبھی خودکفیل تھا‘ اُس کے کارخانے چوبیس گھنٹے چلتے ہوے نظر آتے تھے ‘ اُس کی مصنوعات کا شہُرہ چاردانگ عالَم میں سنا جاتاتھااَور اُس کے ماہر ومزدُور دُنیا بھر میں پھیلے ہُوے نظر آتے تھے۔دنیا کے بڑے بڑے ممالک کی کرنسیاں اُس ملک کی کرنسی کے برابر تھیں‘ اَب وہ مُلک آٹا‘ دال اَور چاول کے حصول میں کشکول پھیلائے رکھنے کے سبب ذلیل ہوتا ہُوا نظر آنے لگاتھا۔ایک وقت اُس مُلک پر اَیسا بھی آیا کہ بات کھانے پینے اَور علاج ومعالجے کی حد سے آگے نکل گئی۔ دوست نما دُشمن ممالک عاقبت نااندیش مُلک کے حکمرانوں کی مُٹھّیاں گرم کرکے وہاں کی عوام کی عزّتِ نفس سے کھیلنے لگے۔ترقّی اَور اِنسانی آزادی کے نام پر عُریانی اَور فحاشی کو فروغ دینے کا سلسلہ چل نکلا۔اُس مُلک کی تہذیب اَور اُس کے تعلیمی نظام کو چُپکے چُپکے بدلاجانے لگا۔ظالم حُکمرانوں نے عدالتوں میں مُنصفوں کو بِٹھانے کے بجائے اَپنے تابع فرمان اَور جی حضور! اَور مَیں تابعدار! کی گردان کرنے والوں کو بِٹھادیے۔ کمالِ سِتم یہ کے اُس مُلک کی پوری رعایا بھی صبر اَور شُکر کی گھٹی چاٹ کر غفلت کی نیند میں مبتلا ہوگئی تھی۔بڑھتی ہُوئی مہنگائی کا اُس قوم نے اَثر نہ لیا‘ دَواَورشفاخانے سے محروم ہوجانے اَور تہذیب وتمدّن کے بدل جانے کا بھی اُس کو اِحساس نہ ہوتا تھا۔ کیسے عجیب لوگ تھے کہ بے اَمنی اَور بے اِنصافی کے خلاف بھی وہ اُٹھ کھڑے نہ ہوتے تھے۔ہنسنے والی بات یہ ہے کہ اُس مُلک کے بزرگ اَور جوان اَپنے اُوپر ہونے والے جبر اَور ظُلم کو اَﷲ کی مرضی سمجھ بیٹھے تھے۔
اُس اَنوکھے مُلک کے بڑے حکمران نے جب یہ دیکھا کہ اُس کی رعایا مُدّتوں سے کوئی شکایت لے کر اُس کے پاس نہیں آتی ہے اَور اُس کا دَربار بِالکل سُونا سُونا نظر آنے لگا ہے ۔وہ تخت پر بیٹھے بیٹھے ایک روز زیرِلب بڑبڑایا:” بِھیڑبھاڑ کے بغیر سنگھاسن پر بیٹھنے کا بھلا کیا مزہ ہے‘ فریادیوں کے بغیر نہ تو دَربار کی شان دِکھائی دیتی ہے اَور ناہی حاکم کا بول بالا نظر آتا ہے۔“ وہ بڑا حکمران اَپنے درباریوں کو’ وزیر‘ کہنے کے بجائے ’چاکر‘کہہ کر پکارتا تھا اَور’ وزیرِآعظم ‘کے منصب پر فائز شخص کو’چاکرِآعظم‘ کہتا تھا۔بہرکیف! اُس نے اَپنے ’چاکرِآعظم‘ کوایک روز طلب کیا اَور کہا ،” اَے چاکرِآعظم! کیا تم نے اِس سبب کو کبھی جاننے کی کوشش کی کہ میری رعایامُجھ سے بہت زیادہ خَوف زدہ ہے یا وہ میری طرزِ حُکمرانی سے اَزحد مطمئن ہے‘ میری حُکمرانی کو آٹھ برس بیت گئے ہیں اَور آج تلک کوئی ایک آدمی بھی کوئی فریاد اَور شکایت لے کر میرے حضور میں نہ آ یا۔یہ ممکن ہے کہ میرے مُلک کے باسی مجھ سے اِختلاف رکھنے کے باوجُود میرے رُعب اَور دبدبے کی وجہ سے مُجھ سے شکوہ کرنے کی تاب نہ رکھتے ہوںاَور میرے خلاف نالش کا خیال اُن کے دِلوں میں نہ آتا ہو‘ لیکن تم اَحمق چاکروں سے چار چھ لوگوں کو کوئی نہ کوئی شکایت تو ضرور پیدا ہوتی ہوگی اَور وہ تمہاری کارگزاریاں میرے عِلم میں لانے کے خواہشمند ہونگے۔پھِر کیا سبب ہے کہ کوئی فریادی میرے دَربار میں دُہائی! دُہائی! کا نعرہ لگاتا ہُوا حاضر ہوتا دِکھائی نہیں دیتا ہے؟“ یہ سوال کرکے سربراہِ مملکت اَپنے چاکرِآعظم کی طرف جواب طلب نگاہوں سے دیکھنے لگا۔چاکرِآعظم کورنش بجاکر بولا:” حضورِوالا! ہم وزراءاَور حکومت کے تمام اَہلکار آپ کے نقشِ قدم پر چلتے ہیں۔ آپ جیسا رُعب داب ہمارا بھی طُرہ اِمتیاز ہے یا یہ کہہ لیجیے کہ آپ کا جاہ وجلال ہم نمک خواروں پر سایہ فگن ہے پھِرعوام اُ لنّاس کو بھلا کیسے جُرات ہوسکتی ہے کہ وہ کوئی شکوہ لے کر آپ کے رُوبرو آجائیں اَ ور دبار کاماحول خراب کریں۔“
حاکم کہنے لگا: ” اَے نادان چاکرِعظم! تُوکیا اِس اَہم نکتے سے واقف نہیں ہے کہ شکوے اَور گِلے سُن کربادشاہوں کے جاہ وجلال میں اِضافہ ہوتا ہے اَوراُس کے دَربار کی وقعت بڑھ جاتی ہے۔تُو نے کیا یہ بھی نہیں سُنا کہ پتّوں سے محروم درختوں کے اُوپر یانیچے کوئی بھی بیٹھنا پسند نہیں کرتا ہے۔چُنانچہ اَشد ضرورت ہے کہ کوئی اَیسی تدبیرکی جائے جس سے دَربار کی رونق بحال ہوجائے۔ تم اَور تمہارے ماتحت چاکروں اَور اَہلکاروں کو مابدولت کا یہ حُکم ہے کہ قومِ لُوط جس مشغلے میں مبتلا تھی تم بھی اَپنی رعایا کو اُسی سلوک سے دوچار کرو۔ تمہارے اَیسا کرنے سے مجھے کامل یقین ہے کہ لوگ تمہاری شکایت لے کر میرے رُوبرو ضرور بِالضرور حاضر ہونگے۔“چاکرِآعظم نے سربراہِ مملکت کے اِس حکم کو تحریر کرکے مُلک بھر کے کارندوںمیں پھیلا دیا اَور تمام رعایا کو تابعداری کی سخت ہدایت کی۔نرالے حاکم کی بدمعاشی کا یہ نرالا تماشا دوسرے ہی روز شروع ہوگیا۔ شہراَور مضافات میں قائم وزیروں اَوراَہلکاروں کے دفاتر کے گردوپیش میں لوگ باگ صبح صبح صَف بنائے کھڑے نظر آنے لگے۔ ایک تو یہ کہ یہ کام بڑا مُشکل تھا جو وزیروں اَور اَہلکاروں کو روزآنہ سَراَنجام دینا پڑتا تھا اَور دُوسرے یہ کہ وزیروں اَور حُکومتی اَہلکاروں کی تعداد اِتنی نہ تھی کہ وہ عوام کو جَلدی جَلدی نمٹا دیا کرتے۔علاقے کے عوام کو بُرے کام کرنے اَور کروانے کا بُرا تو نہ لگا لیکن اُس کام کے ختم ہوجانے کے بعد ہی وہ روزی روٹی کے حصُول کے لیے آزاد ہوسکتے تھے۔عوام اُلنّاس آپس میں کانا پھُوسی کرتے اَور تاخیراَور تعجیل کی گردان کرتے ہُوے نظر آنے لگے۔یہ عجیب تماشا شروع ہُوے چار چھ روزہی گزرے تھے کہ لوگوں کا ایک بہت بڑا ہجوم حاکم کے دَربار میں اُمڈ آیا۔حاکم اَپنے حُکم کے ردِّعمل سے پہلے ہی آگاہ تھا چُنانچہ وہ عوام کے سیلاب کو اَپنی طرف بڑھتے دیکھ کر ذرا بھی حیران نہ ہُوا۔اِس سے پیشتر کہ آنے والوں کے نمائندے کچھ کہنے کے لیے اَپنی زبان کھولتے‘ حاکم استہزائیہ انداز میں کہنے لگا:” ہوگئی ختم تمہاری مدہوشی !آج پتہ چل گیا ….تم لوگوں کو کہ تمہارا کوئی سَردار بھی ہے اَور اُس کا دَربار بھی ہے!بتلا¶کہ گوشہ گمنامی سے نکل کے ….میرے پاس کیا لینے آئے ہو!“حاکم جب بول بک چُکا تب عوام کی طرف سے پیش ہونے والے تین نمائندے آگے بڑھے ‘تینوں نے جُھک کر حاکم کو آداب کہا‘ دو آدمی ذرا پیچھے ہوکر کھڑے ہوگئے۔تیسراایک قدم آگے بڑھ گیا اور گویا ہُوا:”ہم آپ کو ظلِّ اِلٰہی یعنی اﷲتعالیٰ کی نشانی کہتے ہیں اَور آپ سے شکوہ کرنے کو اَﷲتعالیٰ سے شکایت کرنے کے مترادف سمجھتے ہیں۔ہم تو جناب کی خدمت میں یہ گزارش لے کر آئے ہیں کہ وزیروں اَور حکومتی اَہلکاروں کی تعداد عوام کے مقابلے میں بہت تھوڑی ہے جس کی بناپر آپ کے فرمان پرعملدرآمد ہونے میں بہت تاخیر ہوجاتی ہے۔اِس کام سے فارغ ہونے کے بعد ہی ہمیں روزی روٹی کی تحصیل کی اجازت ہوتی ہے چُنانچہ جنابِ والا سے مودّبانہ اِلتماس ہے کہ وزیروں اَور اَہلکاروں کی تعداد بڑھادی جائے۔